Thursday, March 14, 2019

احادیث میں شہید

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شہداء پانچ ہیں (١) طاعون زدہ (٢) پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء میں مرنے والا (٣) پانی میں بے اختیار ڈوب کر مر جانے والا (٤) دیوار یا چھت کے نیچے دب کر مر جانے والا۔ (٥) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح

پانی میں ڈوب کر مر جانے والے۔ اس شخص کو شہادت کا ثواب ملے گا جو بے اختیار و بلا قصد پانی میں ڈوب گیا ہو یعنی بارادہ خود پانی میں نہ ڈوبے۔ اس طرح اگر دریا میں کشتی ڈوب جائے یا ٹوٹ جائے تو سب لوگ یا کچھ لوگ دریا میں ڈوب جائیں تو ان میں سے اسی ڈوبنے والے کو شہادت کا ثواب ملے گا جو کسی گناہ و معصیت کے ارادہ سے کشتی میں نہ بیٹھا ہو۔

اس حدیث میں پانچ قسم کے شہیدوں کا تذکرہ کیا گیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حقیقی شہید صرف وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔ شہیدوں کی دیگر قسمیں حکمی ہیں یعنی وہ مرنے والے حقیقی شہید تو نہیں ہوتے ہاں اس کی بے کسی و بے بسی کی موت کی بناء پر انہیں شہادت کا ثواب ملتا ہے۔

اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں اس حدیث میں چار قسم کے حکمی شہیدوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ حکمی شہیدوں کی اور بھی بہت زیادہ قسمیں جن کے بارے میں دیگر مشہور احادیث میں ذکر کیا گیا۔ چنانچہ بعض علماء مثلاً سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ نے ان کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس حدیث میں جو شہداء حکمی ذکر کئے گئے ہیں ان کے علاوہ دوسرے حکمی شہداء یہ ہیں۔ذات الجنب (یعنی نمونیہ کی بیماری) میں مرنے والا، جل کر مر جانے والا، حالت حمل میں مر جانے والی عورت یا باکرہ مر جانے والی عورت، وہ عورت جو حاملہ ہونے کے بعد سے بچہ کی پیدائش تک یا بچہ کا دودھ چھٹانے تک مر جائے، سل یعنی دق کے مرض میں مرنے والا، حالت سفر میں مرنے والا، سفر جہاد میں سواری سے گر کر مر جانے والا، مرابط یعنی اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظ کے دوران مر جانے والا، گڑھے میں گر کر مر جانے والا، درندوں یعنی شیر وغیرہ کا لقمہ بن جانے والا اپنے مال اپنے اہل و عیال اپنے دین اپنے خون اور حق کی خاطر قتل کیا جانے والا، دوران جہاد اپنی موت مر جانے والا، اور وہ شخص جسے شہادت کی پر خلوص تمنا اور لگن ہو مگر شہادت کا موقع اسے نصیب نہ ہو اور اس کا وقت پورا ہو جائے اور شہادت کی تمنا دل میں لئے دنیا سے رخصت ہو جائے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص کو حاکم وقت ظلم و تشدد کے طور پر قید خانہ میں ڈال دے اور وہ وہیں مر جائے تو وہ شہید ہے جو شخص مظلومانہ طریقہ پر زد و کوب کیا جائے اور وہ زد و کوب کے نتیجے میں بعد میں مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص تو حید کی گواہی دیتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دے تو وہ شہید ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ " تپ (بخار) شہادت ہے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ! شہداء میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بافضلیت شہید کون ہے آپ نے فرمایا کہ " وہ شخص جو ظالم حاکم کے سامنے کھڑے ہو کر اسے اچھا اور نیک کام کرنے کا حکم دے اور برے کام سے روکے اور وہ حاکم اس شخص کو مار ڈالے۔

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ " جس شخص کو گھوڑا یا اونٹ کچل اور روند ڈالے اور وہ مر جائے یا زہریلے جانور کے کاٹنے سے مر جائے تو شہید ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ " جس شخص کو کسی سے عشق ہو گیا اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عشق میں پاکباز و متقی رہا بلکہ اس نے اپنے عشق کو چھپایا بھی اور اسی حال میں اس کا انتقال ہو گیا تو وہ شہید ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو شخص کشتی میں بیٹھا ہوا درد سر اور قے میں مبتلا ہو تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ " اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے غیرت و خود داری لازم رکھی ہے اور مردوں کے لئے جہاد ضروری قرار دیا ہے لہٰذا عورت میں سے جس عورت نے اپنی سوکن کی موجودگی میں صبر و ضبط کے دامن کو پکڑے رکھا تو اسے شہید کا اجر ملے گا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بطریق مرفوع روایت کرتی ہیں کہ " جو شخص روزانہ دن میں پچیس مرتبہ یہ دعا (اللہم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت) پڑھے اور بستر مرگ پر اس کا انتقال ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عنایت فرماتے ہیں۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ " جو شخص ضحی (یعنی اشراق و چاشت) کی نماز پڑھے اور مہینہ میں تین دن روزہ رکھے اور وتر کی نماز نہ حالت سفر میں چھوڑے نہ حالت قیام میں تو اس کے لئے شہید کا اجر لکھا جاتا ہے۔

اسی طرح امت میں عوامی طور پر اعتقادی و عملی گمراہی کے وقت سنت پر مضبوطی سے قائم رہنے والا اور طلب علم میں مرنے و الا شہید ہے" طلب علم میں مرنے والے" سے وہ شخص مراد ہے جو حصول علم اور درس و تدریس میں مشغول ہو یا تصنیف و تالیف میں مصروف ہو اور یا محض کسی علمی مجلس میں حاضر ہو، جس شخص نے اپنی زندگی اس طرح گزار دی ہو کہ لوگوں کی مہمانداری و خاطر و تواضع اس کا شیوہ رہا ہو تو وہ شہید ، مرتث یعنی وہ شخص جو میدان کارزار میں زخمی ہو کر فوراً نہ مر جائے بلکہ کم سے کم اتنی دیر تک زندہ رہے کہ دنیا کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے تو وہ بھی شہید ہے۔ جو شخص مسلمانوں تک غلہ پہنچائے اور جو شخص اپنے اہل و عیال اور اپنے غلام و لونڈی کے لئے کمائے وہ شہید ہے۔ ایسے وہ جنبی جسے کافر میدان کارزار میں مار ڈالیں اور شریق یعنی وہ شخص جو گلے میں پانی پھنس جانے اور دم گھٹ جانے کی وجہ سے مر جائے وہ شہید ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان اپنے مرض میں حضرت یونس علیہ السلام کی یہ دعا (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) چالیس مرتبہ پڑھے اور اسی مرض میں انتقال کرے تو اسے شہید کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر اس مرض سے اسے چھٹکارا مل جائے تو وہ اسحال میں صحت مند ہوتا ہے کہ اس کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔

یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ سچا اور امانتدار تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہو گا اور جو شخص جمعہ کی شب میں مرتا ہے وہ شہید ہے۔ نیز حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ بلا اجرت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اذان دینے والا مؤذن اس شہید کی مانند ہے جو اپنے خون میں لت پت تڑپتا ہو، نیز وہ مؤذن جب مرتا ہے تو اس کی قبر میں کیڑے نہیں پڑتے۔

منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔ جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو مرتبہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان براۃ یعنی نفاق اور آگ سے نجات لکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ رکھے گا۔

منقول ہے کہ جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم اور سورت حشر کی آخری تین آیتیں پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے اور اس کے لئے شام تک بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ اور وہ شخص اگر اس دن مر جاتا ہے تو اس کی موت شہید کی موت ہوتی ہے اور جو شخص یہ شام کو پڑھتا ہے وہ بھی اسی اجر کا مستحق ہوتا ہے۔

منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وصیت کی کہ جب تم رات میں سونے کے لئے اپنے بستر پر جاؤ تو سورت حشر کی آخری آیتیں پڑھ لو اور فرمایا کہ " اگر تم (رات میں یہ پڑھنے کے بعد سوئے اور اسی رات میں) مر گئے تو شہید کی موت پاؤ گے۔

منقول ہے کہ جو شخص مرگی کے مرض میں مر جاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے، جو شخص حج اور عمرہ کے دوران مرتا ہے شہید ہوتا ہے جو شخص با وضو مرتا ہے شہید ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں ، بیت المقدس میں ، مکہ یا مدینہ میں مرنے والا شخص شہید ہوتا ہے، دبلاہٹ کی بیماری میں مرنے و الا شخص شہید ہوتا ہے، جو شخص کسی آفت و بلا میں مبتلاء ہو اور وہ اسی حالت میں ضرر و بلا پر صبر و رضا کا دامن پکڑے ہوئے مر جائے تو شہید ہے۔ جو شخص صبح و شام مقالید السماوات والارض الخ جس کے پڑھنے کی فضیلت کا تذکرہ ایک حدیث میں کیا گیا ہے پڑھے تو وہ شہید ہے۔

منقول ہے کہ جو شخص نوے برس کی عمر میں یا آسیب زدہ ہو کر مرے یا اس حال میں مرے کہ اس کے ماں باپ اس سے خوش ہوں اور یا نیک بخت بیوی اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے خوش راضی ہو تو وہ شہید ہے۔ نیز وہ مسلمان بھی شہید ہے جو کسی ضعیف مسلمان کے ساتھ کلمہ خیر یا اس کی کسی طرح کی مدد کر کے بھلائی کا معاملہ کرے۔ و اللہ اعلم۔

مشکوۃ شریف

جلد دوم

حدیث  25

Saturday, January 26, 2013

وہابی کوامام ومدرس بنانے والا خود کافر ہوجائے گا

مسئلہ ۵۳: مسئولہ مولوی محمد واحد صاحب ۳/ جمادی الآخرہ ۱۳۳۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مستحبات کو بدعت سیئہ کہہ کر روکنے والے یا (قرون ثلثہ میں نہ تھے) کہہ کر منع کرنے والے کے پیچھے نماز ہوتی ہے یانہیں؟ اور ایسے لوگوں کو کسی مسجد کا امام مستقل بنانا یا مدرس مقرر کرناجائزہے یانہیں؟

الجواب
کتب عقائد میں تصریح ہے کہ تحلیل حرام وتحریم حلال دونوں کفرہیں یعنی جو شے مباح ہو جیسے اللہ ورسول نے منع نہ فرمایا اسے ممنوع جاننے والا کافر ہے جبکہ اس کی اباحت وحلت ضروریات دین سے ہو یا کم از کم حنفیہ کے طور پر قطعی ہو ورنہ اس میں شک نہیں کہ بے منع خدا و رسول منع کرنے والا شریعت مطہرہ پر افتراء کرتاہے اور اللہ عزوجل پر بہتان اٹھاتاہے اور اس کا ادنٰی درجہ فسق شدید وکبیرہ وخبیثہ ہے ۔قال اللہ تعالٰی :ولا تقولوا لما تصف السنتکم ھذا حلال وھذا حرام لتفتروا علی اﷲ الکذب ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لایفلحون ۱؎۔اور جو کچھ تمھاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں (اس کے متعلق یہ نہ کہا کرو کہ یہ حلال او ریہ حرام ہے تاکہ تم اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھو (یا در کھو) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ (ت)

(۱؎ القرآن الکریم ۱۶/ ۱۱۶)

وقال اﷲ تعالٰی (نیز اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا۔ ت)

انما یفتری الکذب الذین لایؤمنون ۲؎۔اللہ تعالٰی کے ذمے وہی لوگ جھوٹا الزام لگاتے ہیں (جو درحقیقت) ایمان نہیں رکھتے (ت)

(۲؎القرآن الکریم ۱۶/ ۱۰۵)

فاسق ومرتکب کبیرہ ومفتری علی اللہ ہونا ہی اس کے پیچھے نماز ممنوع اور اسے امام بنانا ناجائز ہونے کے لئے بس تھا، فتاوٰی الحجہ وغنیہ میں ہے:لوقدموا فاسقا یاثمون ۳؎۔اگر لوگوں نے کسی فاسق (مرتکب گناہ کبیرہ) کو امام بناکر آگے کیا تو لوگ گنہ گار ہونگے (ت)

(۳؎ غنیہ المستملی شرح منیہ المصلی فصل فی الامامۃ سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۱۳)

تبیین الحقائق وطحطاوی میں ہےـ : لان فی تقدیمہ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا ۱؎۔کیونکہ اس کو (یعنی فاسق کو) آگے کھڑا کرنے میں اس کی تعظیم ہے جبکہ لوگوں پر شرعا اس کی توہین ضروری ہے۔ (ت)

(۱؎ تبیین الحقائق باب الامامۃ والحدث فی الصلٰوۃ الکبرٰی الامیریہ بولاق مصر ۱/ ۱۳۴)

مگریہ وجہ منع کہ سوال میں مذکور آج کل اصول وہابیت مردودہ مخذولہ سے ہے اور وہابیہ بے دین ہیں اور ان کے پیچھے نماز باطل محض،

فتح القدیرمیں ہے :الصلٰوۃ خلف اہل الا ہواء لا تجوز ۲؎۔اہل ہوا( خواہش پرست) کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے۔ (ت)

(۲؎ فتح القدیر باب الامامۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۳۰۴)

انھیں امام ومدرس بنانا حرام قطعی اور اللہ ورسول کے ساتھ سخت خیانت، اورمسلمانوں کی کمال بدخواہی،
صحیح مستدرک میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :من استعمل علی عشرۃ رجلا وفیہم من ھو ارضی ﷲ منہ فقد خان اﷲ ورسولہ والمؤمنین ۳؎۔اگر کسی نے دس آدمیوں پر ایک شخص کو حاکم بنایا جبکہ ان میں وہ شخص بھی تھا جو اس حاکم سے اللہ تعالٰی کو زیادہ پسند تھا، تو اس حاکم بنانے والے شخص نے اللہ تعالٰی، اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی۔ (ت)

(۳؎ المستدرک للحاکم کتاب الاحکام ۴/ ۹۲ و نصب الرایۃ کتاب ادب القاضی ۴/ ۶۳)

اوراگر ان کے عقائد کفر پر مطلع ہو کر ان کے استحسان یا آسان سمجھنے سے ہوتو امام ومدرس بنانے والا خود کافر ہوجائے گا۔فان الرضی بالکفر کفر ومن انکر شیئا من ضروریات الدین فقد کفر ومن شک فی کفرہ وعذابہ فقدکفر ۴؎۔پس کفرسے خوشنودی کفر ہے، اور جو کوئی ضروریات دین سے کسی بات کا انکار کرے تو وہ بلا شبہ کافر ہے۔ پھر جو کوئی اس کے کفراور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ (ت)

(۴؎ حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین خطبہ الکتاب مکتبہ نوریہ لاہور ص۱۳)

کسی مسجدیا مدرسہ کے مہتمم کیا روارکھیں گے کہ اپنے اختیار سے اسے امام ومدرس کریں جو ان کے ماں باپ کو علانیہ مغلظہ گالیاں دیا کرے، ہر گز نہیں، پھر وہابیہ تو اللہ عزوجل کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیتے لکھتے چھاپتے ہیں، وہ کیسا مسلمان کہ اسے ہلکا جانے اور ایسوں کو مدرس وامام کرے، اللہ تعالٰی سچا اسلام دے اور اس پر سچی استقامت عطا فرمائے اوراپنی اوراپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچی محبت دے اور ان کے دشمنوں سے کامل عداوت ونفرت عطا فرمائے کہ بغیر اس کے مسلمان نہیں ہوسکتا اگر چہ لاکھ دعوٰی اسلام کرے اور شبانہ روز نماز روزے میں منہمک رہے،

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لایؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہٖ وولدہٖ والناس اجمعین ۱؎۔(لوگو!) تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کی نگاہوں میں اس کے والدین، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ (ت)

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۷)

کاش مسلمان اتنا ہی کریں کہ اللہ ورسول کی محبت وعظمت کو ایک پلہ میں رکھیں اپنے ماں باپ کی الفت وعزت کو دوسرے میں، پھر دشمنان وبدگویان محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اتنا ہی برتاؤ کریں جو اپنی ماں کو گالیاں دینے والے کے ساتھ برتتے ہیں تو یہ صلح کلی یہ بے پرواہی، یہ سہل انگاری یہ نیچیری ملعون تہذیب، سدراہ ایمان نہ ہو ورنہ ماں باپ کی محبت وعزت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت وعزت سے زائد ہوکر ایمان کا دعوٰی محض باطل اور اسلام قطعا زائل ۔والعیاذ باللہ تعالٰی (اللہ تعالٰی کی پناہ۔ ت)

قال اﷲ تعالٰی(اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا۔ ت)الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا وھم لا یفتنون ۲؎،کیا لوگ اس گھمنڈ میں پڑگئے کہ وہ صرف اتنا کہنے پر کہ ہم ایمان لائے، چھوڑ دئے جائینگے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔ (ت)

(۲؎ القرآن الکریم ۲۹/ ۲)

زبان سے سب کہہ دیتے ہیں کہ ہاں ہمیں اللہ ورسول کی محبت وعظمت سب سے زائد ہے مگر عملی کا رروائیاں آزمائش کرادیتی ہیں کہ کون اس دعوے میں جھوٹا اور کون سچا۔ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب ۳؎وصلی اﷲ تعالٰی وسلم وبارک علی مالکنا ومولینا والآل والاصحاب اٰمین ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو نہ پھیر جبکہ تو نے سیدھی راہ دکھادی اور ہمیں اپنے پاس رحمت سے نواز دے یقینا تو ہی بہت زیادہ عطا کرنیوالاہے۔ ہمارے مالک و مولٰی پر اللہ تعالٰی درود وسلام اور برکات کا نزول فرمائے اور ان کی آل اور ساتھیوں پر بھی (درود وسلام اور برکات نازل ہوں) اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ (ت)

(۳؎القرآن الکریم ۳/ ۸)

عالم وفقیہ کو گالی دینا معاذاللـٰہ تعالی

مسئلہ ۱۱:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم وفقیہ کو گالی دے یا حقارت کرے تو اس کے اوپر حکم کفرجاری ہوگا یانہیں؟ اور اکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں کو گالی دیتے اور حقارت اور غیبت کرتے ہیں؟ بینوا توجروا

الجواب : غیبت تو جاہل کی بھی سوا صور مخصوصہ کے حرم قطعی وگناہ کبیرہ ہے۔ قرآن عظیم میں اسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا۔
اور حدیث میں آیا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :ایاکم والغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا ان الرجل قد یزنی ویتوب اﷲ علیہ وان صاحب الغیبۃ لایغفر لہ حتی یغفرلہ صاحبہ، رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ ۱؎ وابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبداﷲ وابی یوسف الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

غیبت سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زانی توبہ کرے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور غیبت کرنے والے کی بخشش ہی نہ ہوگی جب تےک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی (اس کو ابن ابی الدنیا نے ذم الغیبۃ میں اور ابو الشیخ نے توبیخ میں جابر بن عبداللہ اور ابوسعید خدری سے روایت کیا اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو۔ (ت)

(۱؎ الغیبۃ والنمیمۃ رسالہ عن رسائل ابن ابی الدنیا باب الغیبۃ وذمہا حدیث ۲۵ موسسۃ الکتب الثقافیۃ ۲ /۴۶)
یوہیں بلا وجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:یحسب امری من الشران یحقرا خاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ، رواہ مسلم ۲؎ عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے خون آبرو مال(اسے مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۲؎ صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم خلم المسلم وخذلہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۱۷)

اسی طرح کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی گالی دیناحرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

سباب المسلم فسوق رواہ البخاری ومسلم ۱؎ والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والحاکم عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے (اسے امام بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب سباب المسلم فسوق قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۸)
(جامع الترمذی ابوا ب البر و الصلۃ ماجاء فی الشتم امین کمپنی دہلی ۲ /۱۹)
(سنن ابن ماجہ ابواب الفتن ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۹۱)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :سباب المسلم کالمشرف علی الہلکۃ، رواہ الامام احمد ۲؎ والبزار عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما بسند جید۔

مسلمان کو گالی دینے والا اس شخص کی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑ اچاہتاہے۔ (اسے امام احمد اور بزار نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ت)

(۲؂الترغیب والترہیب بحوالہ البزار الترھیب من السباب واللعن مصطفی البابی مصر ۳ /۴۶۷)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :من اٰذی مسلما فقد اذانی ومن اٰذانی فقد اذی اﷲ۔ رواہ الطبرانی۳؎ فی الاوسط عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔

جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالٰی کو ایذا دی (اسے امام طبرانی نے الاوسط میں سند حسن کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۳؎ المعجم الاوسط حدیث ۳۶۳۳ مکتبۃ المعارف ریاض ۴ /۳۷۳)

جب عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیں تو علماء کرام کی شان تو ارفع واعلٰی ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :لایستخف بحقہم الامنافق۔ رواہ الطبرانی ۴؎ فی الکبیر عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔علماء کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق (طبرانی نے کبیر میں ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا۔ ت)

(۴؎ المعجم الکبیر حدیث ۷۸۱۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۸ /۲۳۸)

دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:لایستخف بحقہم الامنافق بین النفاق رواہ ابوالشیخ فی التوبیخ ۱؎ عن جابر بن عبداﷲ الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔

ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق (اسے ابوالشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصارٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ کنز العمال بحوالہ ابی الشیخ حدیث ۴۳۸۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۶ /۳۲)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :لیس من امتی من لم یعرف لعالمناحقہ۔ رواہ احمد ۲؎ والحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیں۔ (اسے احمد، حاکم اور طبرانی نے کبیر میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۲؎ مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبادہ ابن صامت دارالفکر بیروت ۵ /۳۲۳)

پھر اگر عالم کو اس لئے برا کہتاہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتاہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتاہے گالی دیتاتحقیر کرتاہے تو سخت فاسق فاجر ہے اگر بے سبب رنج رکھتاہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔

خلاصہ میں ہے :من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر ۳؎۔جو کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت رکھتاہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ (ت)

(۳؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفر الفصل الثانی الجنس الثامن مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۳۸۸)

منح الروض الازہر میں ہے۔الظاھر انہ یکفر ۴؎ (ظاہر یہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا۔ ت)واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا علام ہے اور اس عزت ووقیر والے کا علم بڑا کامل اور بہت پختہ(محکم) ہے۔ (ت)

(۴؎ منح الروض الازھر شرح الفقۃ الاکبر فصل فی العلم والعلماء مصطفی البابی مصر ص۱۷۳)


وسیلہ

مسئلہ ۶۵ : از ریاست لشکر گوالیار بازار پاٹنگر مسئولہ عطا حسین صاحب مہتمم مدرسہ تعلیم القرآن واقع مسجد بازار مذکور ۱۵ صفر ۱۳۳۷ھ

بسم اللہ الرحمن الرحمیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریمامابعد، کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اعلان کرنے والے صاحب کی بابت جو باوجود اہل علم اور سنت وجماعت ہونے کے اپنے اعلان کی سطر چودہ وپندرہ میں تحریرفرماتے ہیں، اعتراض اول یہ کہ اعلان کے شروع میں نہ حمد ہے۔ نہ نعت۔اعتراض دوم سطور پندرہ وچودہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وسیلہ بھی تحریر نہیں، یہ دونوں اعتراض صحیح ہیں یا غلط؟ اگر صحیح ہیں تو اعلان کرنے والے صاحب کے حق میں شرعی حکم کیا ہے؟ اور وہ اہل سنت وجماعت کہے جاسکتے ہیں؟ اور اگر غلط ہے تو کس طرح؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ت) امید ہے کہ حسب ذیل پتہ پر جواب باصواب سے مطلع فرمائیں گے تاکہ اس کو شائع کردیا جائے۔

الجواب
جب سوال میں اعلان دہندہ کے سنی ذی علم ہونے کا اقرار ہے تو سنی خصوصا ذی علم پر ایسی باتوں میں مواخذہ کوئی وجہ نہیں رکھتا، شروع میں حمد ونعت، نہ لکھنا ممکن کہ بلحاظ ادب ہو کہ ایسے پرچے لوگ احتیاط سے نہیں رکھتے ، اور وقت تحریر زبان سے ادا کرلینا کافی ہے۔ جیسا کہ امام ابن الحاجب نے کافیہ میں کیا مسلمان پر نیک گمان کا حکم ہے،

قال اللہ تعالٰی: ظن المومنون والمؤمنت بانفسہم خیرا ۱؎۔مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو اپنے لوگوں پراچھا گمان کرنا چاہئے۔ (ت)

(۱؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۱۲)

سطر چودہ میں ہے: ''وہ ہماری خطاؤں کو محض اپنے فضل وکرم سے معاف فرمائے''، اس میں توسل کا ذکر نہیں تو معاذاللہ توسل سے انکار بھی تو نہیں، اور سنی کیونکر انکار کرے گا اور انکار کرے تو سنی کب ہوگا، مسلمان کے دل میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے توسل رچا ہوا ہے اس کی کوئی دعا توسل سے خالی نہیں ہوتی اگرچہ بعض وقت زبان سے نہ کہے،

مولٰنا قدس سرہ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں: ؎اے بسانا وردہ استثنا بہ گفت جان اوباجان استثنا ست حقت ۲؎ (اے شخص کہ بسا اوقات تیرے کلام میں استثناء نہیں لایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی جان استثناء کی جان سے گانٹھی ہوئی ہے۔ ت)

(۲؎ مثنوی معنوی دفتر اول حکایت عاشق شدن بادشاہ برکنیز ک نورانی کتب خانہ پشاور ص۵)

اور ''محض'' کا لفظ معاذاللہ تو سل کی نفی نہیں، دین ودنیا وجسم وجان میں جو نعمت کسی کو ملی اور ملتی ہے اور ابدالآباد تک ملے گی سب حضور اقدس خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وسیلے اور حضور کے مبارک ہاتھوں سے ملی اور ملتی ہے اور ابدا الاباد تک ملیگیقال النبی انما انا قاسم ، واﷲ المعطی ۱؎دینے والا اللہ ہے ور بانٹنے والا میں۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

(۱؎ مسند احمد بن حنبل ترجمہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ دارالفکربیروت ۲/ ۲۳۴)

بایں ہمہ جو نعمت ہے اللہ عزوجل کے محض فضل و کرم سے ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وسیلہ وواسطہ وقاسم ہر نعمت ہونا یہ بھی تو محض فضل وکرم الٰہی جل وعلا ہے۔فبما رحمۃ من اﷲ لنت لہم ۲؎اے محبوب اللہ کی کتنی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے نرم ورحیم ومہربان ہوئے۔

والحمدﷲ رب العلمین وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم( ہرتعریف اللہ تعالٰی کے لئے ہے جو پروردگار ہے سارے جہانوں کا ۔ حضور پر اللہ تعالٰی کی رحمت اور سلام ہو۔ ت)

(۲؎ القرآن الکریم ۳/ ۱۵۹)

اعتراض اگر چہ صحیح نہیں مگر میں معترض کے اس حسن اعتقاد کی داد دیتاہوں کہ تو سل اقدس کا ذکر نہ آنا اسے ناگوار ہوا،جزاہ اﷲ خیرا، واﷲ تعالٰی اعلم۔(اللہ تعالٰی سائل کو بہت اچھا صلہ عطا فرمائے، اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ ت)