Saturday, January 26, 2013

وہابی کوامام ومدرس بنانے والا خود کافر ہوجائے گا

مسئلہ ۵۳: مسئولہ مولوی محمد واحد صاحب ۳/ جمادی الآخرہ ۱۳۳۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مستحبات کو بدعت سیئہ کہہ کر روکنے والے یا (قرون ثلثہ میں نہ تھے) کہہ کر منع کرنے والے کے پیچھے نماز ہوتی ہے یانہیں؟ اور ایسے لوگوں کو کسی مسجد کا امام مستقل بنانا یا مدرس مقرر کرناجائزہے یانہیں؟

الجواب
کتب عقائد میں تصریح ہے کہ تحلیل حرام وتحریم حلال دونوں کفرہیں یعنی جو شے مباح ہو جیسے اللہ ورسول نے منع نہ فرمایا اسے ممنوع جاننے والا کافر ہے جبکہ اس کی اباحت وحلت ضروریات دین سے ہو یا کم از کم حنفیہ کے طور پر قطعی ہو ورنہ اس میں شک نہیں کہ بے منع خدا و رسول منع کرنے والا شریعت مطہرہ پر افتراء کرتاہے اور اللہ عزوجل پر بہتان اٹھاتاہے اور اس کا ادنٰی درجہ فسق شدید وکبیرہ وخبیثہ ہے ۔قال اللہ تعالٰی :ولا تقولوا لما تصف السنتکم ھذا حلال وھذا حرام لتفتروا علی اﷲ الکذب ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لایفلحون ۱؎۔اور جو کچھ تمھاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں (اس کے متعلق یہ نہ کہا کرو کہ یہ حلال او ریہ حرام ہے تاکہ تم اللہ تعالٰی پر جھوٹ باندھو (یا در کھو) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ (ت)

(۱؎ القرآن الکریم ۱۶/ ۱۱۶)

وقال اﷲ تعالٰی (نیز اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا۔ ت)

انما یفتری الکذب الذین لایؤمنون ۲؎۔اللہ تعالٰی کے ذمے وہی لوگ جھوٹا الزام لگاتے ہیں (جو درحقیقت) ایمان نہیں رکھتے (ت)

(۲؎القرآن الکریم ۱۶/ ۱۰۵)

فاسق ومرتکب کبیرہ ومفتری علی اللہ ہونا ہی اس کے پیچھے نماز ممنوع اور اسے امام بنانا ناجائز ہونے کے لئے بس تھا، فتاوٰی الحجہ وغنیہ میں ہے:لوقدموا فاسقا یاثمون ۳؎۔اگر لوگوں نے کسی فاسق (مرتکب گناہ کبیرہ) کو امام بناکر آگے کیا تو لوگ گنہ گار ہونگے (ت)

(۳؎ غنیہ المستملی شرح منیہ المصلی فصل فی الامامۃ سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۱۳)

تبیین الحقائق وطحطاوی میں ہےـ : لان فی تقدیمہ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا ۱؎۔کیونکہ اس کو (یعنی فاسق کو) آگے کھڑا کرنے میں اس کی تعظیم ہے جبکہ لوگوں پر شرعا اس کی توہین ضروری ہے۔ (ت)

(۱؎ تبیین الحقائق باب الامامۃ والحدث فی الصلٰوۃ الکبرٰی الامیریہ بولاق مصر ۱/ ۱۳۴)

مگریہ وجہ منع کہ سوال میں مذکور آج کل اصول وہابیت مردودہ مخذولہ سے ہے اور وہابیہ بے دین ہیں اور ان کے پیچھے نماز باطل محض،

فتح القدیرمیں ہے :الصلٰوۃ خلف اہل الا ہواء لا تجوز ۲؎۔اہل ہوا( خواہش پرست) کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے۔ (ت)

(۲؎ فتح القدیر باب الامامۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۳۰۴)

انھیں امام ومدرس بنانا حرام قطعی اور اللہ ورسول کے ساتھ سخت خیانت، اورمسلمانوں کی کمال بدخواہی،
صحیح مستدرک میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :من استعمل علی عشرۃ رجلا وفیہم من ھو ارضی ﷲ منہ فقد خان اﷲ ورسولہ والمؤمنین ۳؎۔اگر کسی نے دس آدمیوں پر ایک شخص کو حاکم بنایا جبکہ ان میں وہ شخص بھی تھا جو اس حاکم سے اللہ تعالٰی کو زیادہ پسند تھا، تو اس حاکم بنانے والے شخص نے اللہ تعالٰی، اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی۔ (ت)

(۳؎ المستدرک للحاکم کتاب الاحکام ۴/ ۹۲ و نصب الرایۃ کتاب ادب القاضی ۴/ ۶۳)

اوراگر ان کے عقائد کفر پر مطلع ہو کر ان کے استحسان یا آسان سمجھنے سے ہوتو امام ومدرس بنانے والا خود کافر ہوجائے گا۔فان الرضی بالکفر کفر ومن انکر شیئا من ضروریات الدین فقد کفر ومن شک فی کفرہ وعذابہ فقدکفر ۴؎۔پس کفرسے خوشنودی کفر ہے، اور جو کوئی ضروریات دین سے کسی بات کا انکار کرے تو وہ بلا شبہ کافر ہے۔ پھر جو کوئی اس کے کفراور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ (ت)

(۴؎ حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین خطبہ الکتاب مکتبہ نوریہ لاہور ص۱۳)

کسی مسجدیا مدرسہ کے مہتمم کیا روارکھیں گے کہ اپنے اختیار سے اسے امام ومدرس کریں جو ان کے ماں باپ کو علانیہ مغلظہ گالیاں دیا کرے، ہر گز نہیں، پھر وہابیہ تو اللہ عزوجل کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیتے لکھتے چھاپتے ہیں، وہ کیسا مسلمان کہ اسے ہلکا جانے اور ایسوں کو مدرس وامام کرے، اللہ تعالٰی سچا اسلام دے اور اس پر سچی استقامت عطا فرمائے اوراپنی اوراپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچی محبت دے اور ان کے دشمنوں سے کامل عداوت ونفرت عطا فرمائے کہ بغیر اس کے مسلمان نہیں ہوسکتا اگر چہ لاکھ دعوٰی اسلام کرے اور شبانہ روز نماز روزے میں منہمک رہے،

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لایؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہٖ وولدہٖ والناس اجمعین ۱؎۔(لوگو!) تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کی نگاہوں میں اس کے والدین، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ (ت)

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۷)

کاش مسلمان اتنا ہی کریں کہ اللہ ورسول کی محبت وعظمت کو ایک پلہ میں رکھیں اپنے ماں باپ کی الفت وعزت کو دوسرے میں، پھر دشمنان وبدگویان محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اتنا ہی برتاؤ کریں جو اپنی ماں کو گالیاں دینے والے کے ساتھ برتتے ہیں تو یہ صلح کلی یہ بے پرواہی، یہ سہل انگاری یہ نیچیری ملعون تہذیب، سدراہ ایمان نہ ہو ورنہ ماں باپ کی محبت وعزت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت وعزت سے زائد ہوکر ایمان کا دعوٰی محض باطل اور اسلام قطعا زائل ۔والعیاذ باللہ تعالٰی (اللہ تعالٰی کی پناہ۔ ت)

قال اﷲ تعالٰی(اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا۔ ت)الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا وھم لا یفتنون ۲؎،کیا لوگ اس گھمنڈ میں پڑگئے کہ وہ صرف اتنا کہنے پر کہ ہم ایمان لائے، چھوڑ دئے جائینگے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔ (ت)

(۲؎ القرآن الکریم ۲۹/ ۲)

زبان سے سب کہہ دیتے ہیں کہ ہاں ہمیں اللہ ورسول کی محبت وعظمت سب سے زائد ہے مگر عملی کا رروائیاں آزمائش کرادیتی ہیں کہ کون اس دعوے میں جھوٹا اور کون سچا۔ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب ۳؎وصلی اﷲ تعالٰی وسلم وبارک علی مالکنا ومولینا والآل والاصحاب اٰمین ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

اے ہمارے پروردگار ! ہمارے دلوں کو نہ پھیر جبکہ تو نے سیدھی راہ دکھادی اور ہمیں اپنے پاس رحمت سے نواز دے یقینا تو ہی بہت زیادہ عطا کرنیوالاہے۔ ہمارے مالک و مولٰی پر اللہ تعالٰی درود وسلام اور برکات کا نزول فرمائے اور ان کی آل اور ساتھیوں پر بھی (درود وسلام اور برکات نازل ہوں) اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ (ت)

(۳؎القرآن الکریم ۳/ ۸)

عالم وفقیہ کو گالی دینا معاذاللـٰہ تعالی

مسئلہ ۱۱:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم وفقیہ کو گالی دے یا حقارت کرے تو اس کے اوپر حکم کفرجاری ہوگا یانہیں؟ اور اکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں کو گالی دیتے اور حقارت اور غیبت کرتے ہیں؟ بینوا توجروا

الجواب : غیبت تو جاہل کی بھی سوا صور مخصوصہ کے حرم قطعی وگناہ کبیرہ ہے۔ قرآن عظیم میں اسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا۔
اور حدیث میں آیا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :ایاکم والغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا ان الرجل قد یزنی ویتوب اﷲ علیہ وان صاحب الغیبۃ لایغفر لہ حتی یغفرلہ صاحبہ، رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ ۱؎ وابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبداﷲ وابی یوسف الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

غیبت سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زانی توبہ کرے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور غیبت کرنے والے کی بخشش ہی نہ ہوگی جب تےک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی (اس کو ابن ابی الدنیا نے ذم الغیبۃ میں اور ابو الشیخ نے توبیخ میں جابر بن عبداللہ اور ابوسعید خدری سے روایت کیا اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو۔ (ت)

(۱؎ الغیبۃ والنمیمۃ رسالہ عن رسائل ابن ابی الدنیا باب الغیبۃ وذمہا حدیث ۲۵ موسسۃ الکتب الثقافیۃ ۲ /۴۶)
یوہیں بلا وجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:یحسب امری من الشران یحقرا خاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ، رواہ مسلم ۲؎ عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے خون آبرو مال(اسے مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۲؎ صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم خلم المسلم وخذلہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۱۷)

اسی طرح کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی گالی دیناحرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

سباب المسلم فسوق رواہ البخاری ومسلم ۱؎ والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والحاکم عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے (اسے امام بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب سباب المسلم فسوق قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۸)
(جامع الترمذی ابوا ب البر و الصلۃ ماجاء فی الشتم امین کمپنی دہلی ۲ /۱۹)
(سنن ابن ماجہ ابواب الفتن ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۹۱)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :سباب المسلم کالمشرف علی الہلکۃ، رواہ الامام احمد ۲؎ والبزار عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما بسند جید۔

مسلمان کو گالی دینے والا اس شخص کی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑ اچاہتاہے۔ (اسے امام احمد اور بزار نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ت)

(۲؂الترغیب والترہیب بحوالہ البزار الترھیب من السباب واللعن مصطفی البابی مصر ۳ /۴۶۷)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :من اٰذی مسلما فقد اذانی ومن اٰذانی فقد اذی اﷲ۔ رواہ الطبرانی۳؎ فی الاوسط عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔

جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالٰی کو ایذا دی (اسے امام طبرانی نے الاوسط میں سند حسن کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

(۳؎ المعجم الاوسط حدیث ۳۶۳۳ مکتبۃ المعارف ریاض ۴ /۳۷۳)

جب عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیں تو علماء کرام کی شان تو ارفع واعلٰی ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :لایستخف بحقہم الامنافق۔ رواہ الطبرانی ۴؎ فی الکبیر عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔علماء کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق (طبرانی نے کبیر میں ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا۔ ت)

(۴؎ المعجم الکبیر حدیث ۷۸۱۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۸ /۲۳۸)

دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:لایستخف بحقہم الامنافق بین النفاق رواہ ابوالشیخ فی التوبیخ ۱؎ عن جابر بن عبداﷲ الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔

ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق (اسے ابوالشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصارٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ کنز العمال بحوالہ ابی الشیخ حدیث ۴۳۸۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۶ /۳۲)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :لیس من امتی من لم یعرف لعالمناحقہ۔ رواہ احمد ۲؎ والحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیں۔ (اسے احمد، حاکم اور طبرانی نے کبیر میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

(۲؎ مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبادہ ابن صامت دارالفکر بیروت ۵ /۳۲۳)

پھر اگر عالم کو اس لئے برا کہتاہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتاہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتاہے گالی دیتاتحقیر کرتاہے تو سخت فاسق فاجر ہے اگر بے سبب رنج رکھتاہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔

خلاصہ میں ہے :من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر ۳؎۔جو کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت رکھتاہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ (ت)

(۳؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفر الفصل الثانی الجنس الثامن مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۳۸۸)

منح الروض الازہر میں ہے۔الظاھر انہ یکفر ۴؎ (ظاہر یہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا۔ ت)واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا علام ہے اور اس عزت ووقیر والے کا علم بڑا کامل اور بہت پختہ(محکم) ہے۔ (ت)

(۴؎ منح الروض الازھر شرح الفقۃ الاکبر فصل فی العلم والعلماء مصطفی البابی مصر ص۱۷۳)


وسیلہ

مسئلہ ۶۵ : از ریاست لشکر گوالیار بازار پاٹنگر مسئولہ عطا حسین صاحب مہتمم مدرسہ تعلیم القرآن واقع مسجد بازار مذکور ۱۵ صفر ۱۳۳۷ھ

بسم اللہ الرحمن الرحمیم، نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریمامابعد، کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اعلان کرنے والے صاحب کی بابت جو باوجود اہل علم اور سنت وجماعت ہونے کے اپنے اعلان کی سطر چودہ وپندرہ میں تحریرفرماتے ہیں، اعتراض اول یہ کہ اعلان کے شروع میں نہ حمد ہے۔ نہ نعت۔اعتراض دوم سطور پندرہ وچودہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وسیلہ بھی تحریر نہیں، یہ دونوں اعتراض صحیح ہیں یا غلط؟ اگر صحیح ہیں تو اعلان کرنے والے صاحب کے حق میں شرعی حکم کیا ہے؟ اور وہ اہل سنت وجماعت کہے جاسکتے ہیں؟ اور اگر غلط ہے تو کس طرح؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ت) امید ہے کہ حسب ذیل پتہ پر جواب باصواب سے مطلع فرمائیں گے تاکہ اس کو شائع کردیا جائے۔

الجواب
جب سوال میں اعلان دہندہ کے سنی ذی علم ہونے کا اقرار ہے تو سنی خصوصا ذی علم پر ایسی باتوں میں مواخذہ کوئی وجہ نہیں رکھتا، شروع میں حمد ونعت، نہ لکھنا ممکن کہ بلحاظ ادب ہو کہ ایسے پرچے لوگ احتیاط سے نہیں رکھتے ، اور وقت تحریر زبان سے ادا کرلینا کافی ہے۔ جیسا کہ امام ابن الحاجب نے کافیہ میں کیا مسلمان پر نیک گمان کا حکم ہے،

قال اللہ تعالٰی: ظن المومنون والمؤمنت بانفسہم خیرا ۱؎۔مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو اپنے لوگوں پراچھا گمان کرنا چاہئے۔ (ت)

(۱؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۱۲)

سطر چودہ میں ہے: ''وہ ہماری خطاؤں کو محض اپنے فضل وکرم سے معاف فرمائے''، اس میں توسل کا ذکر نہیں تو معاذاللہ توسل سے انکار بھی تو نہیں، اور سنی کیونکر انکار کرے گا اور انکار کرے تو سنی کب ہوگا، مسلمان کے دل میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے توسل رچا ہوا ہے اس کی کوئی دعا توسل سے خالی نہیں ہوتی اگرچہ بعض وقت زبان سے نہ کہے،

مولٰنا قدس سرہ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں: ؎اے بسانا وردہ استثنا بہ گفت جان اوباجان استثنا ست حقت ۲؎ (اے شخص کہ بسا اوقات تیرے کلام میں استثناء نہیں لایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی جان استثناء کی جان سے گانٹھی ہوئی ہے۔ ت)

(۲؎ مثنوی معنوی دفتر اول حکایت عاشق شدن بادشاہ برکنیز ک نورانی کتب خانہ پشاور ص۵)

اور ''محض'' کا لفظ معاذاللہ تو سل کی نفی نہیں، دین ودنیا وجسم وجان میں جو نعمت کسی کو ملی اور ملتی ہے اور ابدالآباد تک ملے گی سب حضور اقدس خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وسیلے اور حضور کے مبارک ہاتھوں سے ملی اور ملتی ہے اور ابدا الاباد تک ملیگیقال النبی انما انا قاسم ، واﷲ المعطی ۱؎دینے والا اللہ ہے ور بانٹنے والا میں۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

(۱؎ مسند احمد بن حنبل ترجمہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ دارالفکربیروت ۲/ ۲۳۴)

بایں ہمہ جو نعمت ہے اللہ عزوجل کے محض فضل و کرم سے ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وسیلہ وواسطہ وقاسم ہر نعمت ہونا یہ بھی تو محض فضل وکرم الٰہی جل وعلا ہے۔فبما رحمۃ من اﷲ لنت لہم ۲؎اے محبوب اللہ کی کتنی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے نرم ورحیم ومہربان ہوئے۔

والحمدﷲ رب العلمین وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم( ہرتعریف اللہ تعالٰی کے لئے ہے جو پروردگار ہے سارے جہانوں کا ۔ حضور پر اللہ تعالٰی کی رحمت اور سلام ہو۔ ت)

(۲؎ القرآن الکریم ۳/ ۱۵۹)

اعتراض اگر چہ صحیح نہیں مگر میں معترض کے اس حسن اعتقاد کی داد دیتاہوں کہ تو سل اقدس کا ذکر نہ آنا اسے ناگوار ہوا،جزاہ اﷲ خیرا، واﷲ تعالٰی اعلم۔(اللہ تعالٰی سائل کو بہت اچھا صلہ عطا فرمائے، اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ ت)


تفسیر سورہ فاتحہ شریف

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ Ǻ۝ۙالرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ Ą۝ۙمٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ Ǽ۝ۭاِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ Ć۝ۭاِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ Ĉ۝ۙصِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ  Ċ۝ۧ
ترجمہ کنزالایمان
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا
سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا
بہت مہربان رحمت والا
روز جزا کا مالک،
ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں
ہم کو سیدھا راستہ چلا،
راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا
تفسیر خزائن العرفان
(ف1) ''بِسْمِ اللہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہ وَ نُصَلِیّ عَلیٰ حَبِیْبِہ الکریِم '' سورۃ فاتحہ کے اسماء ، اس سورۃ کے متعدد نام ہیں ۔ فاتحہ ، فاتحۃ الکتاب ، اُمُّ القرآن ، سورۃ الکنز ، کافیۃ ، وا فیۃ ، شافیۃ ، شفا ، سبع مثانی ، نور ، رقیۃ ، سورۃ الحمد ، سورۃ الدعا ، تعلیم المسئلہ ، سورۃ المناجاۃ ، سورۃ التفویض ، سورۃ السوال ، اُمُّ الکتاب ، فاتحۃ القرآن ، سورۃ الصلوۃ ۔ اس سورۃ میں سات آیتیں ستائیس کلمے ایک سو چالیس حرف ہیں کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں ۔
شان نزول : یہ سورۃ مکہ مکرمہ یا مدینہ منوّرہ یا دونوں میں نازل ہوئی ۔ عمرو بن شرجیل سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا میں ایک ندا سنا کرتا ہوں جس میں اِقْرَأ کہا جاتا ہے ، ورقہ بن نوفل کو خبر دی گئی عرض کیا ، جب یہ ندا آئے آپ باطمینان سنیں ، اس کے بعد حضرت جبریل نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا فرمائیے '' بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین '' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول میں یہ پہلی سورت ہے مگر دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سورۃ اِقْرَأ نازل ہوئی ۔ اس سورت میں تعلیماً بندوں کی زبان میں کلام فرمایا گیا ہے ۔
احکام ۔ مسئلہ : نماز میں اس سورت کا پڑھنا واجب ہے امام و منفرد کے لئے تو حقیقتاً اپنی زبان سے اور مقتدی کے لئے بقرأتِ حکمیہ یعنی امام کی زبان سے ۔ صحیح حدیث میں ہے '' قِرَاء ۃُ الاِمَامِ لَہ' قِرَاء ۃٌ '' امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے ۔ قرآن پاک میں مقتدی کو خاموش رہنے اور امام کی قرأت سننے کا حکم دیا ہے ۔ ( وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٢٠٤؁) 7-الاعراف:204)۔ مسلم شریف کی حدیث ہے '' اِذَاقَرَأ فَانْصِتُوْا '' جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو اور بہت احادیث میں یہی مضمون ہے ۔
مسئلہ : نماز جنازہ میں دعا یاد نہ ہو تو سورۃ فاتحہ بہ نیت دعا پڑھنا جائز ہے ، بہ نیت قرأت جائز نہیں (عالمگیری)
سورہ فاتحہ کے فضائل :
احادیث میں اس سورۃ کی بہت سے فضیلتیں وارد ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توریت و انجیل و زبور میں اس کی مثل سورت نہ نازل ہوئی ۔ (ترمذی) ایک فرشتہ نے آسمان سے نازل ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کیا اور دو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے ، ایک سورۃ فاتحہ ، دوسرے سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں ۔ (مسلم شریف) سورۃ فاتحہ ہر مرض کے لئے شفا ہے ۔ (دارمی) سورۃ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ (دارمی)
استعاذہ ۔
مسئلہ : تلاوت سے پہلے '' اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیَطَانِ الرَّجِیم '' پڑھنا سنت ہے ۔ (خازن) لیکن شاگرد استاد سے پڑھتا ہو تو اس کے لئے سنت نہیں ۔ (شامی)
مسئلہ : نماز میں امام و منفرد کے لئے سبحان سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ الخ پڑھنا سنت ہے ۔ (شامی) التسمیہ
مسئلہ :'' بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم '' قرآن پاک کی آیت ہے مگر سورۃ فاتحہ یا اور کسی سورۃ کا جزو نہیں اسی لئے نماز میں جہر کے ساتھ نہ پڑھی جائے ۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما نماز '' الْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ '' سے شروع فرماتے تھے ۔
مسئلہ : تراویح میں جو ختم کیا جاتا ہے اس میں کہیں ایک مرتبہ بسم اللہ جہر کے ساتھ ضرور پڑھی جائے تاکہ ایک آیت باقی نہ رہ جائے ۔
مسئلہ : قرآن پاک کی ہر سورت بسم اللہ سے شروع کی جائے سوائے سورۃ برأت کے ۔
مسئلہ : سورۃ نمل میں آیت سجدہ کے بعد جو بسم اللہ آئی ہے وہ مستقل آیت نہیں بلکہ جزو آیت ہے بلا خلاف اس آیت کے ساتھ ضرور پڑھی جائے گی ، نماز جہری میں جبراً سری میں سراً ۔
مسئلہ : ہر مباح کام بسم اللہ سے شروع کرنا مستحب ہے ناجائز کام پر بسم اللہ پڑھنا ممنوع ہے ۔
سورہ فاتحہ کے مضامین :
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ، ربوبیت ، رحمت ، مالکیت ، استحقاق عبادت ، توفیق خیر ، بندوں کی ہدایت ، توجہ الٰی اللہ ، اختصاص عبادت ، استعانت ، طلب رشد ، آداب دعا ، صالحین کے حال سے موافقت ، گمراہوں سے اجتناب و نفرت ، دنیا کی زندگانی کا خاتمہ ، جزا اور روز جزا کا مصرح و مفصل بیان ہے اور جملہ مسائل کا اجمالاً ۔
حمد ۔
مسئلہ : ہر کام کی ابتدا میں تسمیہ کی طرح حمد الٰہی بجا لانا چاہئے ۔
مسئلہ : کبھی حمد واجب ہوتی ہے جیسے خطبہ جمعہ میں ، کبھی مستحب جیسے خطبہ نکاح و دعا و ہر امر ذیشان میں اور ہر کھانے پینے کے بعد ، کبھی سنت مؤکّدہ جیسے چھینک آنے کے بعد ۔ (طحطاوی)
'' رَبُّ الْعَالَمِیْنَ '' میں تمام کائنات کے حادث ، ممکن ، محتاج ہونے اور اللہ تعالیٰ کے واجب ، قدیم ، ازلی ، ابدی ، حی ، قیوم ، قادر ، علیم ہونے کی طرف اشارہ ہے جن کو رَبُّ العالمین مستلزم ہے ۔ دو لفظوں میں علم الہیات کے اہم مباحث طے ہو گئے ۔
'' مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ '' ملک کے ظہور تام کا بیان اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک مستحق عبادت نہیں ہو سکتا ۔ اسی سے معلوم ہوا کہ دنیا دار العمل ہے اور اس کے لئے ایک آخر ہے ۔ جہان کے سلسلہ کو ازلی و قدیم کہنا باطل ہے ۔ اختتام دنیا کے بعد ایک جزا کا دن ہے اس سے تناسخ باطل ہو گیا ۔
'' اِیَّاکَ نَعْبُدُ '' ذکر ذات و صفات کے بعد یہ فرمانا اشارہ کرتا ہے کہ اعتقاد عمل پر مقدم ہے اور عبادت کی مقبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے ۔
مسئلہ : '' نَعْبُدُ '' کے صیغہ جمع سے ادا بجماعت بھی مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عوام کی عبادتیں محبوبوں اور مقبولوں کی عبادتوں کے ساتھ درجہ قبول پاتی ہیں ۔
مسئلہ : اس میں رد شرک بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لئے نہیں ہو سکتی ۔
'' وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ '' میں یہ تعلیم فرمائی کہ استعانت خواہ بواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ، حقیقی مستعان وہی ہے باقی آلات و خدام و احباب وغیرہ سب عونِ الٰہی کے مظہر ہیں ، بندے کو چاہئے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست قدرت کو کارکن دیکھے ۔ اس سے یہ سمجھنا کہ اولیاء و انبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے عقیدہ باطلہ ہے کیونکہ مقربان حق کی امداد امدادِ الٰہی ہے استعانت بالغیر نہیں ، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں (فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ ) 18-الكهف:95) اور ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٥٣؁) 2-البقرة:153) کیوں وارد ہوتا اور احادیث میں اہلُ اللہ سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ۔
'' اِھْدِنَا الصِّراط الَمُستَقِیْمَ'' معرفت ذات و صفات کے بعد عبادت ، اس کے بعد دعا تعلیم فرمائی اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ بندے کو عبادت کے بعد مشغول دعا ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں بھی نماز کے بعد دعا کی تعلیم فرمائی گئی ہے ۔ (الطبرانی فی الکبیر و البیہقی فی السنن) ۔
صراط مستقیم سے مراد اسلام یا قرآن یا خُلقِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضور کے آل و اصحاب ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صراط مستقیم طریق اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سواد اعظم سب کو مانتے ہیں ۔
''صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ '' جملہ اُولٰی کی تفسیر ہے کہ صراط مستقیم سے طریق مسلمین مراد ہے ، اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں کہ جن امور پر بزرگان دین کا عمل رہا ہو وہ صراط مستقیم میں داخل ہے ۔
'' غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ '' اس میں ہدایت ہے کہ مسئلہ طالب حق کو دشمنان خدا سے اجتناب اور ان کے راہ و رسم ، وضع و اطوار سے پرہیز لازم ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ '' مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ '' سے یہود اور '' ضَآلِّیْنَ '' سے نصاریٰ مراد ہیں ۔
مسئلہ : ضاد اور ظاء میں مبائنت ذاتی ہے ، بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کر سکتا لہذا غیر المغظوب بظاء پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریف قرآن و کفر ہے ورنہ ناجائز ۔
مسئلہ : جو شخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں ۔ (محیط برہانی)
'' آمین'' اس کے معنی ہیں ایسا ہی کریا قبول فرما ۔
مسئلہ : یہ کلمہ قرآن نہیں ۔
مسئلہ : سورۃ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا سنت ہے ، نماز کے اندر بھی اور نماز کے باہر بھی ۔
مسئلہ : حضرت امام اعظم کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں آمین اخفاء کے ساتھ یعنی آہستہ کہی جائے ، تمام احادیث پر نظر اور تنقید سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہر کی روایتوں میں صرف وائل کی روایت صحیح ہے اس میں '' مَدَّ بِھَا '' کا لفظ ہے جس کی دلالت جہر پر قطعی نہیں جیسا جہر کا احتمال ہے ویسا ہی بلکہ اس سے قوی مد ہمزہ کا احتمال ہے اس لئے یہ روایت جہر کے لئے حجت نہیں ہو سکتی ، دوسری روایتیں جن میں جہر و رفع کے الفاظ ہیں ان کی اسناد میں کلام ہے علاوہ بریں وہ روایت بالمعنی ہیں اور فہم راوی حدیث نہیں لہذا آمین کا آہستہ ہی پڑھنا صحیح تر ہے ۔

Friday, January 25, 2013

آثار مقدسہ اور ان سے تبرک وتوسل رسالہ بدرالانوار فی اٰداب الاٰثار (آثار مقدسہ کے آداب کے بارے میں روشنیوں کا ماہِ کامل)

آثار مقدسہ اور ان سے تبرک وتوسل
رسالہ
بدرالانوار فی اٰداب الاٰثار
(آثار مقدسہ کے آداب کے بارے میں روشنیوں کا ماہِ کامل)
فصل اول

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسئلہ ۱۶۷: اجمیر شریف درگاہ معلی مرسلہ سید حبیب اللہ قادری دمشقی طرابلسی شامی ۲۸/ جمادی الآخرہ ۱۳۲۳ھماقولکم دام فضلکم (اللہ تعالٰی کا ہمیشہ آپ پر فضل ہو آپ کا کیا ارشاد مبارک ہے۔ت) ایک شخص اپنے وعظ میں صاف انکار کرتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا کوئی تبرک اور حضور کے آثار شریفہ سے کوئی چیز اصلا باقی نہیں، نہ صحابہ کے پاس تبرکات شریفہ سے کچھ تھا نہ کبھی کسی نبی کے آثار سے کچھ تھا، امید کہ اس کا جوب بحوالہ احادیث وکتاب ارشاد ہو۔بینو توجروا۔

الجواب
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم، الحمد ﷲ حمدا یکافئنی فضلہ وانعامہ ویحلنا برضاہ دارالمقامۃ دارا ذات برکۃ وسلامۃ لامخافۃ فیہا والاسامۃ والصلوٰۃ والسلام علی نبی التہامۃ خیر من لبس الجبۃ والنعل والعمامۃ وعلی الہ وصحبہ ذوی الکرامۃ الناصحین لامتہ المبلغین احکامہ، المعظمین اٰثارہ بعدہ وامامہ صلوٰۃ تنمی وتنمی الی یوم القیمۃ۔

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اورنہایت رحم والا ہے۔ اللہ تعالٰی کے لئے تمام حمدیں جو مجھے اپنے فضل وانعام میں کفایت دے اور ہمیں اپنی رضا سے برکت اور سلامتی والے گھر (جنت) میں داخل کرے جہاں خوف ہے نہ تکلیف اور صلوٰۃ و سلام تہامہ کے نبی پر جو جبہ وچپل اور عمامہ پہننے والوں میں سب سے افضل ہیں اور آپ کی آل واصحاب کرامت والوں پر جو امت کے مخلص اور ان کو احکام پہنچانے والے ہیں اور آپ کے آثار مبارکہ کی آپ کے بعد اور سامنے بھی تعظیم کرنے والے ہیں، بڑھنے والی صلوٰۃ قیامت تک بڑھتی رہے۔ (ت)

اما بعد، یہ فتاوٰی ہیں متعلق تبرکات شریفہ وآثار لطیفہ کہ ان کا ادب کیسا ہے اور ان کے ثبوت میں کیا دیکھا ہے اور بے سند ہوں تو کیا چاہئے اور زیارت پر نذرانہ لینے دینے مانگنے کے مسئلے جن کا فقیر سے سوال ہوااور مجموع کابدر الانوار فی اٰداب الآثار نام ٹھہرا، والحمدﷲ رب العٰلمین والصلوٰۃ علی المولٰی والہٖ اجمعین۔ایسا شخص آیات واحادیث کا منکر اور سخت جاہل خاسر یا کمال گمراہ فاجر ہے اس پر توبہ فرض ہے اور بعد اطلاع بھی تائب نہ ہو تو ضرور گمراہ بے دین ہے۔

اللہ عزوجل فرماتاہے:ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبٰرکا وہدیً للعلمین فیہ اٰیت بینت مقام ابراہیم ۱؎۔بیشک سب میں پہلا گھر کہ لوگوں کے لئے مقرر فرمایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کو راہ دکھاتا اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کاپتھر۔

(۱؎ القرآن الکریم ۳/ ۹۶)

جس پر کھڑے ہوکر انھوں نے کعبہ معظمہ بنایاان کے قدم پاک کا نشان اس میں بن گیا، اجلہ محدثین عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وارزقی نے امام اجل مجاہد تلمیذ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں روایت کی:قال اثر قدمیہ فی المقام اٰیۃ بینۃ ۲؎۔فرمایا کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دونوں قدم پاک کا اس پتھر میں نشان ہوجانا یہ کھلی نشانی ہے جسے اللہ عزوجل اٰیات بینات فرمارہاہے۔

(۲؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۳/ ۹۶ المطبعۃ المیمنیہ مصر ۴/ ۸)
(تفسیر القرآن العظیم لابن ابی حاتم تحت آیۃ ۳/ ۹۶ مکتبہ نزار مکۃ المکرمۃ ۳/ ۷۱۱)

تفسیر کبیر میں ہے :الفضیلۃ الثانیۃ لہذا البیت مقام ابراہیم وہو الحجر الذی وضع ابراہیم قدمہ علیہ فجعل اﷲ ماتحت قدم ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام من ذٰلک الحجر دون سائر اجزائہ کالطین حتی غاص فیہ قدم ابراہم علیہ الصلوٰۃ والسلام وہذا مما لایقدر علیہ الا اﷲ تعالٰی،۔ ولا یظہرہ الا علی انبیاء، ثم لما رفع ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام قدمہ عنہ خلق فیہ الصلوٰبۃ الحجریۃ مرۃ اخری، ثم انہ تعالٰی ابقی ذٰلک الحجر علی سبیل الاستمرار والدوام فہذہ انواع من الاٰیات العجبیۃ والمعجزات الباہرۃ اظہرہا اﷲ تعالٰی فی ذٰلک الحجر ۱؎۔یعنی کعبہ معظمہ کی ایک فضیلت مقام ابراہم ہے یہ وہ پتھر ہے جس پر ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا قدم مبارک رکھا تو جتنا ٹکڑا ان کے زیر قدم آیا تر مٹی کی طرح نرم ہوگیا یہاں تک کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا قدم مبارک اس میں پیر گیا اور یہ خاص قدرت الہیہ ومعجزہ انبیاء ہے پھر جب ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قدم اٹھایا اللہ تعالٰی نے دوبارہ اس ٹکڑے میں پتھر کی سختی پیدا کردی کہ وہ نشان قدم محفوظ رہ گیا پھر اسے حق سبحنہ نے مدتہا مدت باقی رکھا تو یہ اقسام اقسام کے عجیب وغریب معجزے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اس پتھر میں ظاہر فرمائے۔

(۱؎ مفاتیح الغیب (التفیسر الکبیر) تحت آیۃ ۳/ ۹۶ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۸/ ۱۵۵)

ارشاد العقل السلیم میں ہے:ان کل واحد من اثرقدمیہ فی صخرۃ صماء و غوصہ فیہا الی الکعبین والانۃ بعض الصخور دون بعض وابقائہ دون سائر اٰیات الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام وحفظہ مع کثرۃ الاعداء طوف سنۃ اٰیۃ مستقلۃ ۲؎۔یعنی اس ایک پتھر کو مولٰی تعالٰی نے متعد د آیات فرمایا اس لئے کہ اس میں ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نشان قدم ہوجانا ایک اور ان کے قدموں کا گٹوں تک اس میں پیر جانا دو اور پتھرکا ایک ٹکڑا نرم ہوجانا باقی کا اپنے حال پر رہنا تین او ر معجزات انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم میں اس معجزے کا باقی رکھنا چار اور باوصف کثرت اعداء ہزاروں برس اس کا محفوظ رہنا پانچ، یہ ہر ایک بجائے خود ایک آیت معجزہ ہے۔

(۲؎ ارشاد العقل السلیم تحت آیۃ ۲/ ۹۶۳ داراحیاء التراث العربی بیروت الجزء الثانی ۶۱)

مولٰی سبحانہ تعالٰی فرماتاہے :قال لھم نبیھم ان ایۃ ملکہ ان یاتیکم التابوت فیہ سکینۃ من ربکم وبقیۃ مما ترک الی موسٰی وال ہٰرون تحملہ الملئکۃ ان فی ذٰلک لاٰیۃ لکم ان کنتم مؤمنین ۱؎۔بنی اسرائیل کے نبی شمویل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے فرمایا کہ سلطنت طالوت کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمھارے پاس تابوت جس میں تمھارے رب کی طرف سے سکینہ ہے اور موسٰی وہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں، فرشتے اسے اٹھا کر لائیں، بے شک اس میں تمھارے لئے عظیم نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۴۸)

وہ تبرکات کیا تھے، موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عصا اور ان کی نعلین مبارک اور ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عمامہ مقدسہ وغیرہا، ان کی برکات تھیں کہ بنی اسرائیل اس تابوت کو جس لڑائی میں آگے کرتے فتح پاتے اور جس مراد میں اس سے توسل کرتے اجابت دیکھتے، ابن جریر وابن ابی حاتم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی،قال: وبقیۃ مما ترک اٰل موسٰی عصاہ ورضاض الالواح ۲؎۔تابوت سکینہ میں تبرکات موسویہ سے ان کا عصا تھااور تختیوں کی کرچیں۔

(۲؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۲/ ۲۴۸ المطبعۃ الیمنیۃ مصر ۲/ ۳۶۶)

وکیع بن الجراح وسعید بن منصور وعبد بن حمید وابن ابی حاتم وابوصالح تلمیذ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی،قال: کان فی التابوت عصا موسٰی وعصا ھٰرون وثیا ب موسٰی وثیاب ہرون ولوحان من التوراۃ والمن وکلمۃ الفرح لا الہ الا اﷲ الحلیم الکریم و سبحن اﷲ رب السموت السبح ورب العرش العظیم والحمدﷲ رب العالمین ۳؎۔تابوت میں موسٰی وہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام کے عصاء اور دونوں حضرات کے ملبوس اور توریت کی دو تختیاں اور قدرے من کہ بنی اسرایل پر اترا اور یہ دعائے کشائشلا الہ الا اللہ الحلیم الکریم الخ۔

(۳؎ تفسیر القرآن العظیم لابن ابی حاتم حدیث ۲۴۸۵، ۲۴۸۶ مکتبۃ نزار مکۃ المکرمہ ۲/۴۷۰)

کان فیہ عصاموسٰی ونعلاہ وعمامۃ ھرون وعصاہ الخ ۱؎۔تابوت میں موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کا عصا اور ان کی نعلین اور ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عمامہ وعصا الخ (ت)

(۱؎ معالم النتزیل علی ہامش تفسیر الخازن تحت آیۃ ۲/۲۴۸ مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۵۷)

صحیح بخاری وصحیح مسلم میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے:ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دعا بالحلاق وناول الحالق شقہ الایمن فحلقہ ثم دعا اباطلحۃ الانصاری فاعطاہ ایاہ ثم ناول الشق الایسر فقال احلق فحلقہ فاعطاہ اباطلحۃ فقال اقسمہ بین الناس ۲؎۔

یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حجام کو بلا کر سرمبارک کے داہنی جانب کے بال مونڈنے کا حکم فرمایا پھر ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلاکر وہ سب بال انھیں عطا فرمادئے پھر بائیں جانب کے بالوں کوحکم فرمایا اور وہ ابوطلحہ کو دئے کہ انھیں لوگوں میں تقسیم کردو۔

(۲؎ صحیح مسلم کتاب الحج باب بیان ان السنۃ یوم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۲۱)

صحیح بخاری شریف کتاب اللباس میں عیسٰی بن طہمان سے ہے:قال اخرج الینا انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ نعلین لہما قبالان فقال ثابت البنانی ہذا نعل النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۳؎۔انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ دو نعل مبارک ہمارے پاس لائے کہ ہر ایک میں بندش کے دو تسمے تھے ان کے شاگرد رشید ثابت بنانی نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نعل مقدس ہے۔

(۳؎ صحیح البخاری کتاب الجہاد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۳۸)
(صحیح البخاری کتاب اللباس قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۷۱)

صحیحین میں ابوبردہ سے ہے:قال اخرجت الینا عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کساء ملبدا وازارا غلیظا فقالت قبض روح رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی ھٰذین ۱؎۔ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ایک رضائی یا کمبل اور ایک موٹا تہبند نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا کہ وقت وصال اقدس حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے یہ دو کپڑے تھے ۔

(۱؎ صحیح بخاری کتاب الجہاد ۱/ ۴۳۸ و کتاب اللباس باب الاکسیہ والخماص ۲/ ۸۶۵ قدیمی کتب خانہ کراچی)
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب التواضع فی اللباس قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۴۔ ۱۹۳)

صحیح مسلم شریف میں حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے:انہا اخرجت جبۃ طیالسیۃ کسروانیۃ لہا لبنۃ دیباج وفرجیہا مکفوفین بالدیباج وقالت ہذہ جبۃ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کانت عند عائشۃ فلما قبضت قبضتہا وکان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یلبسہا فنحن نغسلہا للمرضی نستشفی بہا ۲؎۔یعنی انھوں نے ایک اُونی جبہ کسروانی ساخت نکالا، اس کی پلیٹ ریشمین تھی اور دونوں چاکوں پر ریشم کا کام تھا اور کہایہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جبہ ہے ام المومنین صدیقہ کے پاس تھا ان کے انتقال کے بعد میں نے لے لیا نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے تو ہم اسے دھو دھو کر مریضوں کو پلاتے اور اس سے شفا چاہتے ہیں۔

(۲؎ صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم استعمال اناء الذہب والفضۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۹۰)

صحیح بخاری میں عثمن بن عبداللہ بن موہب سے ہے:قالت دخلت علی ام سلمۃ فاخرجت الینا شعرا من شعر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مخضوبا ۳؎۔میں حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے خدمت میں حاضر ہوا انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے موئے مبارک کی ہمیں زیارت کرائی اس پر خضاب کا اثر تھا۔

(۳؎ صحیح البخاری باب یذکر فی الشیب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۷۵)

یہ چند احادیث خاص صحیحین سے لکھ دیں اور یہاں احادیث میں کثرت اوراقوال ائمہ کا تواتر بشدت اور مسئلہ خود واضح، اور اس کا انکار جہل فاضح ہے لہذا صرف ایک عبارت شفاء شریف پر اقتصار کریں،

فرماتے ہیں:ومن اعظامہ واکبارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ ومالمسہ اوعرف بہ وکانت فی قلنسوۃ خالد بن الولید رضی اﷲ تعالٰی عنہ شعرات من شعرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فسقطت قلنسوتہ فی بعض حروبہ فشد علیہا شدۃ انکر علیہ اصحاب النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کثرۃ من قتل فیہا فقال لم افعلہا بسبب القلنسوۃ بل لما تضمنتہ من شعرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لئلا اسلب برکتہا وتقع فی ایدی المشرکین ورأی ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما واضعایدہ علی مقعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من المبنر ثم وضعہا علی وجہہ ۱؎ (ملخصا)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کا ایک جزیہ بھی ہے کہ جس چیز کو حضور سے کچھ علاقہ ہو حضور کی طرف منسوب ہو حضور نے اسے چھوا ہو یا حضور کے نام پاک سے پہچانی جاتی ہو اس سب کی تعظیم کی جائے خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ٹوپی میں چند موئے مبارک تھے کسی لڑائی میں وہ ٹوپی گر گئی خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے لئے ایسا شدید حملہ فرمایا جس پر اور صحابہ کرام نے انکار کیا اس لئے کہ اس شدید وسخت حملہ میں بہت مسلمان کام آئے خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میرا یہ حملہ ٹوپی کے لئے نہ تھا بلکہ موئے مبارک کے لئے تھا کہ مبادا اس کی برکت میرے پاس نہ رہے اور وہ کافروں کے ہاتھ لگیں اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ منبرا طہر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں جو جگہ جلوس اقدس کی تھی اسے ہاتھ سے مس کرکے وہ ہاتھ اپنے منہ پر پھیر لیا۔ (ملخصا)

(۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن اعظامہ واکبارہ الخ عبدالتواب اکیڈمی بوہڑ گیٹ ملتان ۲/ ۴۴)

اللھم ارزقنا حب حبیبک وحسن الادب معہ ومع اولیائہ اٰمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وبارک وسلم وعلیہم اجمعین۔اے اللہ! ہمیں اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اولیائے کرام کی محبت اور حسن ادب نصیب فرما۔ آمین!(ت) خالد بن ولید کی حدیث ابویعلی اور عبداللہ بن عمر کی حدیث ابن سعد نے طبقات میں روایت کی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

فصل دوم

مسئلہ ۱۶۸: از بستی مرسلہ مولوی مفتی عزیز الحسن صاحب رجسٹرار ۹/ شوال ۱۳۱۰ھ
جناب مولانا سراپا فیض مجسم علم وحلم، معظم ومکرم دام مجدہم، پس از سلام مسنون باعث تکلیف آنجناب یہ ہے کہ ایک شخص برکت آثار بزرگان سے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ بزرگوں کے خرقہ وجبہ وغیرہما سے کوئی برکت حاصل نہیں ہوتی، چونکہ وہ پڑھے لکھے ہیں یہ امر قرار پایا ہے کہ اگر سو برس سے قبل کے کسی عالم نے اپنی کتاب میں اس برکت کو تحریر کیا ہو تو میں مان لوں گا، آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے جبہ وغیرہ میں گفتگو نہیں ہے۔ والسلام۔

الجواب : برکت آثار بزرگان سے انکار آفتاب روشن کا انکار ہے معہذا جب برکت آثار شریفہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور پر ظاہر کہ اولیاء وعلماء حضور کے ورثاء ہیں تو ان کے آثار میں برکت کیوں نہ ہوگی کہ آخر وارث برکات ووارث ایراث برکات ہیں، فقیر غفراللہ تعالٰی کہ اتمام حجت کے لئے چند عبارات ائمہ وعلماء کہ وہ سب آج سے سوبرس پہلے اور بعض پانسو چھ سو برس پہلے کے تھے حاضر کرتا ہے۔ کتب مطبوعہ کا نشان جلد وصفحہ بھی ظاہر کردیا جائے گا، کہ مراجعت میں آسانی ہو،

(۱) امام اجل زکریا نووی جن کی ولادت باسعادت ۶۳۱ھ اور وفات شریف ۶۷۷ھ میں ہوئی شرح صحیح مسلم شریف میں زیر حدیث عتبان بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ :انی احب ان تاتینی وتصلی فی منزلہ فاتخذہ المصلی (میری تمنا ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لاکر کسی جگہ نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ کو نماز پڑھنے کے لئے متعین کرلوں۔ ت) فرماتے ہیں:فی ہذا الحدیث انواع من العلم وفیہ التبرک باٰثار الصالحین وفیہ زیارۃ العلماء والصلحاء، والکبار و اتباعہم وتبریکھم ایاھم ۱؎۔اس حدیث میں کئی قسم کے علوم ومعارف ہیں اور اس میں بزرگان دین کے آثار سے تبرک اور علماء صلحاء، اوربزرگوں اور ان کے متبعین کی زیارت اور ان سے برکات کا حصول ثابت ہے۔(ت)

(۱؎ المنہاج لشرح صحیح مسلم بن الحجاج کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من رضی باللہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۷)

(۲) نیز اسی حدیث کے نیچے لکھتے ہیں: فی حدیث عتبان فی ہذا فوائدکثیرۃ منہا التبرک بالصالحین واٰثارھم والصلوٰۃ فی المواضع التی صلوا بہا وطلب التبریک منھم ۲؎۔حضرت عتبان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس حدیث میں بہت فوائد ہیں ان میں سے صالحین اور ان کے آثار سے تبرک اور ان کی جائے نماز پر نماز اور ان سے تبرکات حاصل کرنا ثابت ہے۔ (ت)

(۲؎المنہاج لشرح صحیح مسلم بن الحجاج کتاب المساجد باب الرخصۃ فی التخلف عن الجماعۃ لعذر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۳۳)

(۳) اسی میں زیر حدیث ابو جحیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہفخرج بلال بوضوئہ فمن نائل و ناضح (حضرت بلال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وضو کابچا ہوا پانی لے کر باہر نکلے لوگوں نے اس پانی کو مل لیا، کسی کو پانی مل گا اور کسی نے اس پانی کو چھڑک لیا۔ ت) فرمایا:فیہ التبرک باثار الصالحین واستعمال فضل طہورہم وطعامہم وشرابہم ولباسہم ۱؎۔اس حدیث سے بزرگان دین کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ثابت ہوتا ہے اور اس کے وضو سے بچے ہوئے پانی طعام مشروب اور لباس کے استعمال سے برکت حاصل ہونا ثابت ہے۔ (ت)

(۱؎ المنہاج لشرح صحیح مسلم بن الحجاج کتاب الصلوٰۃ باب سترۃ المصلی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۹۶)

(۴) اسی میں زیر حدیث انس رضی اللہ تعالٰیمایوتی باناء الا غمس یدہ فیہ (مدینہ کے خدام پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے کر آتے حضور ہر برتن میں اپنا ہاتھ ڈبودیتے۔ ت)

فرمایا:فیہ التبرک باثارالصالحین ۲؎۔اس میں صالحین کے آثار سے تبرک ثابت ہے۔ (ت)

(۲؎المنہاج لشرح صحیح مسلم بن الحجاج کتاب الفضائل باب قربہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من الناس قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۵۶)

(۵) اسی میں زیر حدیث ابوایوب رضی اللہ تعالٰی عنہاکل منہ وبعث بفضلۃ الی (طعام سے کھایا اور بقیہ میری طرف بھیج دیا۔ ت) فرمایا:قال العلماء فی ہذہ انہ یستحب للاٰکل والشارب ان یفضل مما یاکل ویشرب فضلۃ لبواسی بہا من بعدہ لاسیما ان کان ممن یتبرک بفضلتہ ۳؎۔علماء کرام نے فرمایا اس میں فائدہ ہے کہ کھانے اور پینے والے کو مستحب ہے کہ اپنے کھانے پینے سے کچھ بچارکھے تاکہ دوسرے حصہ پائیں خصوصا ایسے لوگوں جن کے بچے ہوئے سے تبرک حاصل کیا جاتاہو۔ (ت)

(۳؎المنہاج لشرح صحیح مسلم بن الحجاج کتاب الاشربہ باب اباحۃ اکل الثوم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۸۳)

(۶) اسی میں زیر حدیثسأل عن موضع اصابعہ فیتتبع موضع اصابعہ (آپ کی انگشت مبارک کے مقام سے متعلق پوچھتے تو آپ کی انگشت مبارک کی جگہ تلاش کرتے۔ ت)

فرمایا:فیہ التبرک باثار الخیر فی الطعام وغیرہ ۴؎۔اس میں آثار صالحین سے تبرک طعام وغیرہ میں ثابت ہے۔ (ت)

(۴؎المنہاج لشرح صحیح مسلم بن الحجاج کتاب الاشربہ باب اباحۃ اکل الثوم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۸۳)

(۷) امام احمد بن محمد قسطلانی متوفی ۹۲۳ھ ارشادالساری شرح صحیح البخاری میں زیر حدیث ابوجحیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فجعل الناس یتمسحون بوضوئہ فرماتے ہیں: استنبط منہ التبرک بما یلامس اجساد الصالحین ۱؎۔اس میں صالحین کے اجسام سے مس کرنیوالی چیز سے تبرک کا ثبوت ہے۔ (ت)

(۱؎ ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ابواب سترۃ المصلی باب السترۃ بمکۃ دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۴۶۷)

(۸) اسی میں زیر حدیث انی واﷲ ماسألتہ لالبسہا انما سألتہ لتکون کفنی فرمایا:

فیہ التبرک باٰثارالصالحین قال اصحابنا لایندب ان یعد نفسہ کفنا الا ان یکون من اثرذی صلاح فحسن اعمادہ کما ھنا ۲؎ انتھی ملخصا۔

اس میں آثار صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔ ہمارے اصحاب نے فرمایا کہ کسی صالح کے اثر والا کفن اپنے لئے تیار کرنا بہترین کفن جیسے یہاں حدیث میں ہے انتہی ملخصا۔ (ت)

(۲؎ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ابواب الجنائز باب من استعدالکفن فی زمن نبی دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۳۹۶)

(۹) مولنا علی قاری مکی متوفی ۱۰۱۴ھ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث سنن نسائی کے نیچے کہ طلق بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بقیہ آب وضو ئے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حضور سے مانگ کر اپنے ملک کو لے گئے یہ فائدہ لکھ کر کہ:فیہ التبرک بفضلہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ونقلہ الی البلاد نظیرہ ماء زمزم۔اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے استعمال سے بچی ہوئی چیز سے تبرک حاصل کرنا اور اسے دوسرے شہروں میں لے جانا آب زمزم کی نظیر ہے۔ (ت)

فرمایا:ویوخذ من ذٰلک ان فضلۃ وارثیہ من العلماء والصلحاء کذٰلک ۳؎۔اور اس سے اخذ ہوتاہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ ولسلام کے وارثوں علماء وصلحاء کا بچا ہوا بھی اسی طرح متبرک ہے۔ (ت)

(۳؎ مرقاۃ المفاتیح باب المساجد مواضع الصلٰوۃ افضل الثانی مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲/ ۴۲۰)

(۱۰) مولٰنا شیخ محقق عبالحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۲۵ھ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا:دریں حدیث استحباب است بہ بقیہ آب وضو ے وپس ماندہ آنحضرت ونقل آں ببلاد و مواضع بعیدہ مانندآب زمزم وآنحضرت چوں در مدینہ مے بودآب زمزم رااز حاکم مکہ مے طلبید وتبرک مے ساخت وفضلہ وارثان او کہ علماء وصلحاء اند وتبرک بآثار وانوار ایشاں ہم بریں قیاس ست ۱؎۔اس حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وضو سے بچا ہوا پانی اور دیگر پسماندہ اشیاء کا متبرک ہونا اور ان کو دوسرے بعید شہروں میں منتقل کرنے کی نظیر آب زمزم شریف ہے۔ جب آپ مدینہ منورہ میں تھے تو آپ حاکم مکہ سے اب زمزم طلب فرماتے اور متبرک بناتے اور آپ کے وارث علماء وصلحاء کی بچی ہوئی چیز اور ان کے آثار وانوار کا اسی پر قیاس ہے۔ (ت)

(۱؎ اشعۃ اللمعات با ب المساجد مواضع الصلوٰۃ الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۳۳۱)

(۱۱) امام علامہ احمد بن محمد مصری مالکی معاصر شیخ محقق دہلوی نےکتاب مستطاب فتح المتعال فی مدح خیر النعال میں ا مام اجل خاتمۃ المجتہدین ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی شافعی متوفی ۷۵۶ءکا ایک کلام نفیس تبرک بہ آثارامام شیخ الاسلام ابو زکریا نووی قدست اسرار ہم میں نقل فرمایا:وہذا لفظ حکی جماعۃ من الشافعیۃ ان الشیخ العلامۃ تقی الدین ابا الحسن علیا السبکی الشافعی لما تولی تدریس دارالحدیث بالاشرافیۃ بالشام بعد وفاۃ الامام النووی احد من یفتخر بہ المسلمون خصوصا الشافعیۃ انشد لنفسہ۔اس بات کو شوافع کی ایک جماعت نے حکایت کیا ہے کہ علامہ شیخ تقی الدین ابوالحسن علی سبکی شافعی جب شام میں امام نووی کی وفات کے بعد مدرسہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث کے منصب پرت فائز ہوئے تو انھوں نے اپنے متعلق یہ پڑھا:وفی دارالحدیث لطیف معنی
الی بسط لہا اصبو و اٰوی
لعلی ان امس بحر وجھی
مکانامسہ قدم النواوی
واذ ا کان ہذا فی اٰثار من ذکر
فما بالک باٰثار من شرف الجمیع بہ ۱؎۔دارالحدیث میں ایک لطیف معنی سے بسط کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف میں مائل اور راجع ہوں یہ کہ ہوسکتاہے کہ محبت کی شدت میں اس جگہ کو اپنے چہرے سے مس کروں جس کو امام نووی کے قدموں نے مس کیا ہے جب یہ مذکور حضرات کے آثار کا معاملہ ہے تو اس ذات کے آثار کے متعلق تیرا حال کیا ہوگا جس ذات سے سب نے شرف پایا۔ (ت)

(۱؎فتح المتعارف فی مدح خیر النعال)

(۱۲) شاہ ولی اللہ دہلی متوفی ۱۱۷۴ھ فیوض الحرمین صفحہ ۰ ۲ میں لکھتے ہیں:من اراد ان یحصل لہ ماللملاء السافل من الملئکۃ فلا سبیل الے ذٰلک الا الاعتصام بالطہارۃ و الحلول بالمساجد القدیمۃ التی صلی فیہا جماعات من الاولیاء ۲؎ الخ۔

جو شخص ملاء سافل کے فرشتوں کا مقام چاہتاہے اس کی صرف یہی صورت ہے کہ وہ طہارت اور قدیم مساجد جہاں اولیائے کرام نے نماز پڑھی ہو، میں داخل ہونے کا التزام کرے الخ۔ (ت)

(۲؎ فیوض الحرمین (مترجم اردو) مشہد ۵ محمد سعید اینڈ سنز کراچی ص۶۲)

(۱۳) اسی میں ہے ص۴۹:ان الانسان اذا صار محبوبا فکان منظورا للحق وللملاء الا علی عروساجمیلا فکل مکان حل فیہ انعقدت و تعلقت بہ ہمم الملاء الا علی وان ساق الیہ افواج الملئکۃ وامواج النور لاسیما اذا کانت ہمتہ تعلقت بہذا المکان والعارف الکامل معرفۃ وحالا لہ ہمۃ یحل فیھا نظر الحق یتعلق باہلہ ومالہ وبیتہ ونسلہ ونسبہ وقرابتہ واصحابہ یشمل المال والجاہ وغیرہا ویصلحہا فمن ذٰلک تمیزت ماٰثر الکمل من ماثر الکمل من ماثر غیرہم۳؎۔

تحقیق جب انسان محبوب بن جاتا ہے تو وہ حق تعالٰی کا منظور اور ملاء اعلٰی کا خوب صورت دولھا بن جاتاہے تو وہ جس مکان میں ہوتا ہے وہاں ملاء اعلی، کی ہمتیں مرکوز ہوجاتی ہیں اور فرشتوں کی فوج اور نور کی امواج اس جگہ واردہوتی ہیں خصوصا وہ مکان جہاں اس کی ہمت مرکوز ہوتی ہے او رمعروف میں کامل عارف کی ہمت میں حق تعالٰی کی نظر رحمت مرکوز ہوتی ہے جس کا عارف کے اہل مال، گھر ، نسل ونسب، قرابت اور اس کے اصحاب سے یوں تعلق ہوتاہے کہ اس سے متعلق ہر چیز کو وہ تعلق شامل ہوجاتاہے اسی بناء پر لوگوں کے آثار کامل اور غیر کامل حضرات کے آثار سے ممتاز ہوتے ہیں (ت)

(۳؎فیوض الحرمین (مترجم اردو) مشہد ۲۰ محمد سعید اینڈ سنز کراچی ص۳۹۔ ۱۳۸)

(۱۴) اسی میں ہے ص ۵۷:ان تام المعرفۃ لروحہ تحدیق و غایۃ بکل شیئ من طریقتہ ومذہبہ وسلسلتہ ونسبہ وقرابتہ وکل مایلیہ وینسب الیہ وعنایتہ ہذہ یختلف بہا عنایۃ الحق ۱؎۔

بیشک تمام معرفت والے کی روح کو اپنے متعلق ہر چیز طریقہ، مذہب، سلسلہ، نسب وقرابت بلکہ اس کی طرف ہر منسوب پر نظر واہتمام ہوتاہے جس کی وجہ سے حق تعالٰی کی عنایت اس کو شامل ہوجاتی ہے۔ (ت)

(۱؎ فیوض الحرمین (مترجم اردو) مشہد ۲۶ محمد سعید اینڈ سنز کراچی ص۱۶۱، ۱۶۲)

(۱۵) یہی شاہ صاحب ہمعات میں لکھتے ہیں:از ینجاست حفظ اعراس مشایخ ومواظبت زیارت قبور ایشاں والتزام فاتحہ خواندن وصدقہ دادن برائے ایشاں واعتنائے تمام کردن بہ تعظیم آثار واولاد ومنتبان ایشاں ۲؎۔

اسی وجہ سے مشایخ کے عرس ان کے قبروں کی زیارت، ان کے لئے فاتحہ خوانی اور صدقات کا اہتمام والتزام ضروری ہوجاتاہے اور ان کے آثار واولاد اور جو چیز ان کی طرف منسوب ہو ان کی تعظیم کا مکمل اہتمام لازم قرار پاتاہے۔ (ت)

(۲؎ ہمعات ہمہ ۱۱ اکادیمہ الشاہ ولی اللہ الدہلوی حیدرآباد ص۵۸)

(۱۶) انھیں شاہ صاحب کی انفاس العارفین میں ہے:درحرمین شخصے از بزرگان خود کلاہ حضرت غوث الثقلین تبرک یافتہ بود شبے در واقعہ حضرت غوث الاعظم رادید کہ می فرمایند ایں کلاہ بہ ابوالقاسم اکبر آبادی برساں آں شخص برائے امتحان یک جبہ قیمتی ہمراہ آں کلاہ کردہ گرفت کہ ایں ہر دو تبرک حضرت غوث الاعظم ہستند حکم شد کہ بشمار سانم حضرت شاں بسیار خوش شد گرفتند آن شخص گفت کہ برائے شکر حصول ایں تبرک اہل شہر را دعوت کنید فرمودند کہ وقت صبح بیائید مردمان بسیار بوقت صبح آمد ند طعامہائے خوب خوردند وفاتحہ خواند ند بعد آں پرسید ند کہ شمار مرد فقیر ہستید ایں قدر طعام از کجا آمد فرمود کہ جبہ رافروختم وتبرک را نگاہدا شتم ہمہ گفتند کہ للہ الحمد کہ تبرک بمستحق رسید ۱؎۔

حرمین شریفین میں ایک ایسا شخص مقیم تھا جسے حضرت غو ث الاعظم کی کلاہ مبارک تبرکا سلسلہ وار اپنے آباء واجداد سے ملی ہوئی تھی جس کی برکت سے وہ شخص حرمین شریفین کے نواح میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور شہرت کی بلندیوں پر فائز تھا ایک رات حضرت غوث الاعظم کو (کشف میں) اپنے سامنے موجود پایا جو فرمارہے تھے کہ یہ کلاہ ابوالقاسم اکبرآبادی تک پہنچادو، حضرت غوث اعظم کا یہ فرمان سن کر اس شخص کے دل میں آیا کہ اس بزرگ کی تخصیص لازما کوئی سبب رکھتی ہے، چنانچہ امتحان کی نیت سے کلاہ مبارک کے ساتھ ایک قیمتی جبہ بھی شامل کرلیا اور پوچھ گچھ کرتے حضرت خلیفہ کی خدمت میں جاپہنچا اور ان سے کہا کہ یہ دونوں تبرک حضرت غوث اعظم کے ہیں اور انھوں نے مجھے خواب میں حکم دیا ہے کہ یہ تبرکات ابوالقاسم اکبر آبادی کو دے دو، یہ کہہ کر تبرکات ان کے سامنے رکھ دئے، خلیفہ ابوالقاسم نے تبرکات قبول فرماکر انتہائی مسرت کا اظہار کیا، اس شخص نے کہا یہ تبرک ایک بہت بڑے بزرگ کی طرف سے عطا ہوئے ہیں لہذا اس شکریے میں ایک بڑی دعوت کا انتظام کرکے رؤسائے شہر کو مدعو کیجئے، حضرت خلیفہ نے فرمایا کل تشریف لانا ہم کافی سارا طعام تیار کرائیں گے آپ جس جس کو چاہیں بلالیجئے، دوسرے روز علی الصباح وہ درویش روسائے شہر کے ساتھ آیا دعوت تناول کی اور فاتحہ پڑھی فراغت کے بعد لوگوں نے پوچھا کہ آپ تو متوکل ہیں ظاہری سامان کچھ بھی نہیں رکھتے، اس قدر طعام کہاں سے مہیا فرمایا؟ فرمایا کہ اس قیمتی جبے کو بیچ کر ضروری اشیاء خریدی ہیں، یہ سن کر وہ شخص چیخ اٹھا کہ میں نے اس فقیر کو اہل اللہ سمجھا تھا مگر یہ تو مکار ثابت ہوا، ایسے تبرکات کی قدر اس نے نہ پہچانی، آپ نے فرمایا چپ رہو جو چیز تبرک تھی وہ میں نے محفوظ کرلی ہے اور جو سامان امتحان تھا ہم نے اسے بیچ کر دعوت شکرانہ کاانتظام کر ڈالا، یہ سن کر وہ شخص متنبہ ہوگیا اور اس نے تمام اہل مجلس پر ساری حقیقت حال کھول دی جس پر سب نے کہا کہ الحمدللہ تبرک اپنے مستحق تک پہنچ گیا۔ (ت)

(۱؎ انفاس العارفین (مترجم اردو) قلندہر چہ گوید دیدہ گوید اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور ص۷۷)

اسی طرح صدہا عبارات ہیں جس کے حصر واستقصاء میں محل طمع نہیں، یہ سب ایک طرف فقیر غفراللہ تعالی لہ حدیث صحیح سے ثابت کرے کہ خود حضور پر نور سید یوم النشور افضل صلوات اللہ تعالٰی واجل تسلیمات علیہ وعلی آلہ وذریاتہ آثار مسلمین سے تبرک فرماتے ۔وللہ الحجۃ البالغۃ۔طبرانی معجم اوسط اور ابونعیم حلیہ میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر فاروق اعظم رضی للہ تعالٰی عنہما سے راوی:قال کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یبعث للمطاہر فیوتی بالماء فیشربہ یرجوبہ برکۃ ایدی المسلمین ۱؎۔

یعنی حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مسلمانوں کی طہارت گاہوں مثل حوض وغیرہ سے جہاں اہل اسلام وضو کیا کرتے پانی منگا کر نوش فرماتے اور اس سے مسلمانوں کے ہاتھوں کی برکت لینا چاہتے، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلی آلہ وصحبہ وبارک وکرم۔

(۱؎ المعجم الاوسط حدیث ۷۹۸ مکتبہ المعارف ریاض ۱/ ۴۴۳)

علامہ عبدالرؤف مناوی تیسیرج ۲ ص ۲۶۹، پھر علامہ علی بن احمد عزیزی سراج المنیر ج ۳ ص ۱۴۷ شروح جامع صغیر میں اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں:باسناد صحیح ۲؎ (صحیح اسناد کے ساتھ ہے۔ ت)

(۲؎ التیسیر لشرح الجامع الصغیر تحت حدیث مذکور مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲/ ۲۶۹)
(السراج المنیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث مذکور المطبعۃ الازہریۃ المصریۃ مصر ۳/ ۱۵۱)

علامہ محمد حفنی اپنی تعلیقات علی الجامع میں فرماتے ہیں:یرجو بہ برکۃ الخ لانہم محبوبون ﷲ تعالٰی بدلیل ان اﷲ یحب التوابین ویحب المتطہرین ۳؎۔یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بقیہ آب وضو ئے مسلمین میں اس وجہ سے امید برکت رکھتے کہ وہ محبوبان خدا ہیں۔ قرآن عظیم میں فرمایا بیشک اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتاہے طہارت والوں کو۔

(۳؎ تعلیقات للحفنی علی ہامش السراج المنیر المطبعۃ الازہریۃ المصریۃ مصر ۳/ ۱۵۱)

اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اعلی واجل واکبر،یہ حضور پر نور سید المبارکین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں جن کی خاک نعلین پاک تمام جہانوں کے لئے تبرک دل وجان وسرمہ چشم دین وایمان ہے وہ اس پانی کو جس میں مسلمانوں کے ہاتھ دھلے تبرک ٹھہرائیں اور اسے منگا کر بغرض حصول برکت نوش فرمائیں حالانکہ واللہ مسلمانوں کے دست وزبان ودل وجان میں جو برکتیں ہیں سب انھیں نے عطا فرمائیں، انھیں کی نعلین پاک کے صدقے میں ہاتھ آئیں، یہ سب تعلیم امت وتنبیہ مشغولان خواب غفلت کے لئے تھا کہ یوں نہ سمجھیں تو اپنے مولٰی وآقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فعل سن کر بیدار اور برکت آثار اولیاء وعلماء کے طلبگار ہوں، پھر کیسا جاہل ومحروم ونافہم ملوم کہ محبوبان خدا کے آثار کو تبرک نہ جانے اوراس سے حصول برکت نہ مانےولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدا لمرسلین محمد واٰلہ وصحبہ واولیائہ وعلمائہ وامتہ وحزبہ اجمعین اٰمین۔ واﷲ وتعالٰی اعلم۔
فصل سوم

مسئلہ ۱۶۹: غرہ ربیع الاول شریف ۱۳۱۳ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تبرک آثار شریفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیسا اور اس کے لئے ثبوت یقینی درکارہے۔ یا صرف شہرت کافی ہے اور نعلین شریفین کی تمثال کو بوسہ دینا کیسا ہے اور اس سے توسل جائز ہے یانہیں؟ اور بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ تمثال نعل شریف کے اوپربعد بسم اللہ کے لکھتے ہیں:اللھم ارنی برکۃ صاحب ہذین النعلین الشریفین۔یا اللہ! مجھے ان نعلین پاک کی برکت سے نواز۔ (ت) اور اس کے نیچے دعائے حاجت لکھتے ہیں۔ یہ کیسا ہے؟ بینوا توجروا

الجواب : فی الواقع آثار شریفہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تبرک سلفا وخلفا زمانہ اقدس حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے آج تک بلا نکیر رائج ومعمول اور باجماع مسلمین مندوب ومحبوب بکثر ت احادیث صحیحہ بخاری ومسلم وغیرہما صحاح و سنن وکتب حدیث اس پر ناطق جن میں بعض کی تفصیل فقیر نےکتاب البارقۃ الشارقۃ علی مارقۃ الشارقۃمیں ذکر کی۔ اور ایسی جگہ ثبوت یقینی یاسند محدثانہ کی اصلا حاجت نہیں اس کی تحقیق وتنقیح کے پیچھے پڑنا اوربغیر اس کے تعظیم وتبرک سے بازرہنا سخت محرومی کم نصیبی ہے ائمہ دین نے صرف حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نام سے اس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے۔

امام قاضی عیاض شفا شریف میں فرماتے ہیں:من اعظامہ واکبارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظام جمیع اسبابہ و اکرام مشاہدہ وامکنتہ من مکۃ والمدینۃ ومعاہدہ ومالمسہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اواعرف بہ ۱؎۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام متعلقات کی تعظیم اور آپ کے نشانات اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کے مقامات اور آپ کے محسوسات اور آپ کی طرف منسوب ہونے کی شہرت والی اشیاء کا احترام یہ سب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم وتکریم ہے۔

(۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن اعظامہ واکبارہ الخ عبدالتواب اکیڈمی بوہڑ گیٹ ملتان ۲/ ۴۴)

اسی طرح طبقۃ فطبقۃ شرقاً غرباً عربا عجما علمائے دین وائمہ معتمدین نعل مطہر حضور سید البشر علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پر بناتے کتابوں میں تحریر فرماتے آئے اور انھیں بوسہ دینے آنکھوں سے لگانے سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے اور دفع امراض وحصول اغراض میں اس سے توسل فرمایا کئے، اور بفضل الٰہی عظیم وجلیل برکات وآثار اس سے پایا کئے ۔

علامہ ابوالیمن ابن عساکر وشیخ ابواسحٰق ابراہیم بن محمد بن خلف سلمی وغیرہما علماء نے اس باب میں مستقل کتابیں تصنیف کیں اور علامہ احمد مقتری کی فتح المتعال فی مدح خیر النعال اس مسئلہ میں اجمع وانفع تصانیف سے ہے۔ محدث علامہ ابوالربیع سلیمن بن سالم کلاعی وقاضی شمس الدین ضیف اللہ رشیدی وشیخ فتح اللہ بیلونی حلبی معاصر علامہ مقتری وسید محمد موسی حسینی مالکی معاصر علامہ ممدوح وشیخ محمد بن فرج سبتی وشیخ محمد بن رشید فہری سبتی وعلامہ احمد بن محمد تلمسانی موصوف وعلامہ ابوالیمن ابن عساکر وعلامہ ابوالحکم مالک بن عبدالرحمن بن علی مغربی وامام ابوبکر احمد ابو محمد عبداللہ بن حسین انصاری قرطبی وغیرہم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے نقشہ نعل مقدس کی مدح میں قصائد عالیہ تصنیف فرمائے ان سب میں اسے بوسہ دینے سرپر رکھنے کا حکم واستحسان مذکور اوریہی مواہب لدنیہ امام احمد قسطلانی وشرح مواہب علامہ زرقانی وغیرہما کتب جلیلہ میں مسطوروقد لخصنا اکثر ذٰلک فی کتابنا المزبور ( اور ہم نے اکثر کا خلاصہ اپنی مذکور کتاب میں ذکر کیا ہے۔ ت)

علماء فرماتے ہیں جس کے پاس یہ نقشہ متبرکہ ہو ظلم ظالمین وشر شیطان وچشم زخم حاسدین سے محفوظ رہے عورت دردزہ کے وقت اپنے داہنے ہاتھ میں لے آسانی ہو، جو ہمیشہ پاس رکھے نگاہ خلق میں معزز ہو زیارت روضہ مقدس نصیب ہو یا خواب میں زیارت حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مشرف ہو، جس لشکر میں ہونہ بھاگے جس قافلہ میں ہو نہ لٹے، جس کشتی میں ہو نہ ڈوبے جس مال میں ہو نہ چُرے، جس حاجت میں اس سے توسل کیا جائے پوری ہو جس مراد کی نیت سے پاس رکھیں حاصل ہو، موضع درد ومرض پر اسے رکھ کر شفائیں ملی ہیں، مہلکوں مصیبتوں میں اس سے توسل کرکے نجات وفلاح کی راہ ہیں کھلی ہیں، اس باب میں حکایت صلحاء وروایات علماء بکثرت ہیں کہ امام تلسمانی وغیرہ نے فتح المتعال وغیرہ میں ذکر فرمائیں اور بسم اللہ شریف اس پر لکھنے میں کچھ حرج نہیں، اگریہ خیال کیجئے کہ نعل مقدس قطعا تاج فرق اہل ایمان ہے مگر اللہ عزوجل کانام وکلام ہر شے سے اجل واعظم وارفع واعلٰی ہے۔ یوہیں تمثال میں بھی احتراز چاہئے تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ اگر حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی جاتی کہ نام الہٰی یا بسم اللہ شریف حضور کی نعل مقدس پر لکھی جائے تو پسند نہ فرماتے مگر اس قدر ضروری ہے کہ نعل بحالت استعمال وتمثال محفوظ عن الابتذال میں تفاوت بدیہی ہے اور اعمال کا مدارنیت پر ہے امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جانور ان صدقہ کی رانوں پر جیس فی سبیل اﷲ (اللہ کی راہ میں وقف ہے۔ ت) داغ فرمایا تھا حالانکہ ان کی رانیں بہت محل بے احتیاطی ہیں۔

بلکہ سنن دارمی شریف میں ہے:اخبرنا مالک بن اسمعیل ثنا مندل بن علی الغزی حدثنی جعفر بن ابی المغیرۃ عن سعید بن جبیر قال کنت اجلس الی ابن عباس فاکتب فی الصحیفۃ حتی تمتلی ثم اقلب نعلی فاکتب فی ظہورہما ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔مالک بن اسمعیل نے خبرد ی کہ مندل بن علی الغذی نے بیان کیا کہ مجھے جعفر بن ابی مغیرہ نے سعید بن جبیر کے حوالے سے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بیٹھا ایک کاغذ پر لکھ رہا تھا کہ وہ کاغذ پر ہوگیا پھر میں نے اپنا جو تا الٹا کر کے لکھا، واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (ت)

(۱؎ سنن الدارمی باب من اخص فی کتابۃ العلم حدیث ۵۰۷ دارالمحاسن قاہرہ ۱/ ۱۰۵)

فصل چہارم

مسئلہ ۱۷۰: مسئولہ حضرت سید حبیب اللہ زعبی دمشقی طرابلسی جیلانی وارد حال بریلی ۷/ ربیع الآخر ۱۳۲۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں کہ جو لوگ تبرکات شریف بلاسند لاتے ہیں ان کی زیارت کرنا چاہئے یانہیں؟ اور اکثر لوگ کہتے ہں کہ آج کل مصنوعی تبرکات زیادہ لئے پھرتے ہیں یہ ان کا کہنا کیساہے؟ اور جو زائر کچھ نذر کرے اس کالینا جائز ہے یانہیں؟ اور جو شخص خود مانگے اس کا مانگنا کیساہے؟ بینوا توجروا

الجواب : نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آثار وتبرکات شریفہ کی تعظیم دین مسلمان کا فرض عظیم ہے تابوت سکینہ جس کا ذکر قرآن عظیم میں ہے جس کی برکت سے بنی اسرائیل ہمیشہ کافروں پر فتح پاتے اس میں کیا تھا"بقیۃ مما ترک ال موسی وال ہرون"۲؂موسی اور ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام کے چھوڑے ہوئے تبرکات سے کچھ بقیہ تھا۔ موسی علیہ السلام کا عصا اور ان کی نعلین مبارک اور ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عمامہ وغیرہا، ولہذا تواترسے ثابت کہ جس چیز کوکسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی علاقہ بدن اقدس سے چھونے کا ہوتا صحابہ وتابعین وائمہ دین ہمیشہ اس کی تعظیم وحرمت اور اس سے طلب برکت فرماتے آئے اور دین حق کے معظم اماموں نے تصریح فرمائی ہے کہ اس کے لئے کسی سند کی بھی حاجت نہیں بلکہ وہ چیز حضور اقد س صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نام پاک سے مشہور ہو اس کی تعظیم شعائر دین سے ہے۔

(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ باب الاستبراء وغیرہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۴۵)

شفا شریف ومواہب لدنیہ ومدارج شریف وغیرہا میں ہے:من اعظامہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعظامہ جمیع اسبابہ ومالمسہ او عرف بہ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم۔۱؎۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم میں سے ہے ان تمام اشیاء کی تعظیم جسکو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کچھ علاقہ ہو اور جسے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے چھوا ہو یا جو حضور کے نام پاک سے مشہور ہو۔

(۱؎ کتاب الشفاء للقاضی فصل ومن اعظامہ الخ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۲/ ۴۸۔ ۴۷)

یہاں تک کہ برابر ائمہ دین وعلمائے معتمدین نعل اقدس کی شبیہ ومثال کی تعظیم فرماتے رہے اور اس سے صدہا عجیب مددیں پائیں اور اس کے باب میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں، جب نقشے کی یہ برکت وعظمت ہے تو خود نعل اقدس کی عظمت وبرکت کو خیال کیجئے پھر ردائے اقدس جبہ مقدسہ وعمامہ مکرمہ پر نظر کیجئے پھر ان تمام آثار وتبرکات شریفہ سے ہزاروں درجے اعظم واعلٰی واکرم واولٰی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ناخن پاک کا تراشہ ہے کہ یہ سب ملبوسات تھے اور وہ جزء بدن والا ہے اور اس سے اجل واعظم وارفع واکرم حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ریش مبارک کا موئے مطہر ہے مسلمانوں کا ایمان گواہ ہے کہ ہفت آسمان وزمین ہر گز اس ایک موئے مبارک کی عظمت کونہیں پہنچتے اور ابھی تصریحات ائمہ سے معلوم ہولیا کہ تعظیم کے لئے نہ یقین درکارہے ہے نہ کوئی خاص سند بلکہ صرف نام پاک سے اس شے کا اشتہار کافی ہے ایسی جگہ بے ادراک سند تعظیم سے باز نہ رہے گا مگر بیمار دل پر ازار دل جس میں نہ عظمت شان محمد رسول اللہ صلی االلہ تعالٰی علیہ وسلم بروجہ کافی نہ ایمان کامل اللہ عزوجل فرماتاہے :ان یک کاذبا فعلیہ کذبہ وان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم ۲؎۔اگریہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر، اور اگر سچا ہے تو تمھیں پہنچ جائیں گے بعض وہ عذاب جن کا وہ تمھیں وعدہ فرماتاہے۔

(۲؎ القرآن الکریم ۴۰/ ۲۸)

اور خصوصا جہاں سند بھی موجود ہو پھر تو تعظیم واعزاز وتکریم سے باز نہیں رہ سکتا مگر کوئی کھلا کافر یا چھپا منافق ۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔
اور یہ کہنا کہ آج کل اکثر لوگ مصنوعی تبرکات لئے پھرتےہیں مگر یوہیں مجمل بلاتعین شخص ہو یعنی کسی شخص معین پر اس کی وجہ سے الزام یا بدگمانی مقصود نہ ہو تو اس میں کچھ گناہ نہیں، اور بلا ثبوت شرعی کسی خاص شخص کی نسبت حکم لگادینا کہ یہ انھیں میں سے ہے جو مصنوعی تبرکا ت لئے پھرتے ہیں ضرورتاً ناجائز وگناہ وحرام ہے کہ اس کا منشا صرف بدگمانی ہے اور بدگمانی سے بڑھ کر کوئی جھوٹی بات نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ۱؎۔بدگمانی سے بچو کہ بدگمانی سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الوصایا ۱/ ۳۸۴ وکتاب الفرائض ۲/ ۹۹۵ صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ ۲/ ۳۱۶)
(جامع الترمذی ابواب البر ۲/ ۲۰ مؤطا امام مالک باب ماجاء فی المہاجرۃ ص۷۰۲)

ائمہ دین فرماتے ہیں:انما ینشوء الظن الخبیث من القلب الخبیث ۲؎۔خبیث گمان خبیث ہی دل سے پیدا ہوتاہے۔

(۲؎ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث ۲۹۰۱ ایاکم والظن الخ دارالمعرفۃ بیروت ۳/ ۱۲۲)

تبرکاات شریفہ جس کے پاس ہوں ان کی زیارت کرنے پر لوگوں سے اس کا کچھ مانگنا سخت شنیع ہے۔ جو تندرست ہو اعضاء صحیح رکھتا ہو نوکری خواہ مزدوری اگر چہ ڈلیا ڈھونے کے ذریعہ سے روٹی کما سکتاہوا سے سوال کرناحرام ہے۔ رسول اللہ صلی للہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لاتحل الصدقۃ لغنی ولا لذی مرۃ سوی ۳؎.غنی یا سکت والے تندرست کے لئے صدقہ حلال نہیں۔

(۳؎ مسند امام احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عمر و رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۱۹۲)

علماء فرماتے ہیں:ماجمع السائل بالتکدی فہو الخبیث ۴؎۔سائل جو کچھ مانگ کر جمع کرتاہے وہ خبیث ہے۔

(۴؎ ردالمحتار کتاب الکراہیۃ ۵/ ۲۴۷ وفتاوٰی ہندیۃ کتا ب الکراہیۃ ۵/ ۳۴۹)

اس پر ایک تو شناعت یہ ہوئی،
دوسری شناعت سخت تویہ ہے کہ دین کے نام سے دنیا کماتاہے اوریشترون بایتی ثمنا قلیلا ۱؎ (میری آیات کے ذریعہ قلیل رقم حاصل کرتے ہیں۔ ت) کے قبیل میں داخل ہوتاہے۔

(۱؎ القرآن الکریم ۳/ ۴۱ و ۵/ ۴۳)

تبرکات شریفہ بھی اللہ عزوجل کی نشانیوں سے عمدہ نشانیاں ہیں ان کے ذریعہ سے دنیا کی ذلیل قلیل پونجی حاصل کرنے والاد نیا کے بدلے دین بیچنے والا ہے شناعت سخت تر یہ ہے کہ اپنے اس مقصد فاسد کے لئے تبرکات شریفہ کو شہر بشہر دربدر لئے پھرتے ہیں اور کس و نا کس کے پاس لے جاتے ہیں یہ آثار شریفہ کی سخت توہین ہے۔ خلیفہ ہارون رشید رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے عالم دار الہجرۃ سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کی تھی کہ ان کے یہاں جاکر خلیفہ زادوں کو پڑھا دیا کریں، فرمایا: میں علم کو ذلیل نہ کروں گا انھیں پڑھنا ہے تو خود حاضر ہوا کریں، عرض کی: وہی حاضر ہونگے مگر اور طلباء پر ان کو تقدیم دی جائے، فرمایا: یہ بھی نہ ہوگا سب یکساں رکھے جائیں گے آخر خلیفہ کو یہی منظور کرناپڑا____ یونہی امام شریک نخعی سے خلیفہ وقت نے چاہا تھا کہ ان کے گھر جاکر شہزادوں کو پڑھا دیا کریں، انکار کیا ۔ کہا: آپ امیر المومنین کا حکم ماننا نہیں چاہتے۔ فرمایا: یہ نہیں بلکہ علم کو ذلیل نہیں کرنا چاہتا۔

رہا یہ کہ بے اس کے مانگے زائرین کچھ اسے دیں اوریہ لے۔ اس میں تفصیل ہے شرع مطہر کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہالمعہود عرفا کالمشروط لفظا (عرفا مقررہ چیز لفظا مشروط کی طرح ہے۔ ت) یہ لوگ تبرکات شریفہ شہر بشہر لئے پھرتے ہیں ان کی نیت وعادت قطعا معلوم کہ اس کے عوض تحصیل زر وجمع مال چاہتےہیں یہ قصدنہ ہوتو کیوں دور دراز سفر کی مشقت اٹھائیں، ریلوں کے کرائے دیں، اگر کوئی ان میں زبانی کہے بھی کہ ہماری نیت فقط مسلمانوں کو زیارت سے بہرہ مند کرنا ہے تو ان کا حال ان کے قال کی صریح تکذیب کررہاہے ان میں علی العموم وہ لوگ ہیں جو ضروری ضروری طہارت وصلوٰۃ سے بھی آگاہ نہیں اس فرض قطعی کے حال کرنے کو کبھی دس پانچ کو س یا شہرہی کے کسی عالم کے پاس گھر سے آدھ میل جانا پسند نہ کیا مسلمانوں کو زیارت کرانے کے لئے ہزاروں کوس سفر کرتے ہیں پھر جہاں زیارتیں ہوں اور لوگ کچھ نہ دیں وہاں ان صاحبوں کے غصے دیکھئے پہلا حکم یہ لگایا جاتاہے کہ تم لوگوں کو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کچھ محبت نہیں گویا ان کے نزدیک محبت نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ا ور ایمان اسی میں منحصر ہے کہ حرام طور پر کچھ ان کی نذر کردیا جائے، پھرجہاں کہیں سے ملے بھی مگر ان کے خیال سے تھوڑا ہو ان کی سخت شکایتیں اور مذمتیں ان سے سن لیجئے اگر چہ وہ دینے والے صلحاء وعلماء ہوں اور مال حلال سے دیا ہو اور جہاں پیٹ بھر کے مل گیا وہاں کی لمبی چوڑی تعریفیں لے لیجئے اگر چہ وہ دینے والے فساق فجار بلکہ بد مذہب ہوں اور مال حرام سے دیا ہو قطعا معلوم ہے کہ وہ زیارت نہیں کراتے بلکہ لینے کے لئے اور زیارت کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ ضرو رکچھ دینا پڑے گا تو اب یہ صرف سوال ہی نہ ہوا بلکہ بحسب عرف زیارت شریفہ پر اجارہ ہوگیا اور وہ بچند وجہ حرام ہے ۔

اولا زیارت آثار شریفہ کی کوئی ایسی چیز نہیں جو زیر اجارہ داخل ہوسکے۔کما صرح بہ فی ردالمحتار وغیرہ ان مایؤخذ من النصاری علی زیارۃ بیت المقدس حرام ۱؎۔ وہذا اذا کان حراما اخذہ من کفار دور الحرب کالروس وغیرہم فکیف من المسلمین ان ہو الا ضلال مبین۔جس طرح اس کی تصریح ردالمحتار وغیرہ میں ہے کہ بیت المقدس کی زیارت کے عوض عیسائیوں سے وصولی حرام ہے یہ حربی کافروں اور سرداروں وغیرہ سے وصولی حرام ہے تو مسلمانوں سے وصولی کیسے حرام نہ ہوگی یہ نہیں مگر کھلی گمراہی۔ (ت)

ثانیا; اجر ت مقرر نہیں ہوئی کیا دیاجائے گا اور جو اجارے شرعا جائز ہیں ان میں بھی اجرت مجہول رکھی جانا اسے حرام کردیتاہے نہ کہ جو سرے سے حرام ہے کہ حرام درحرام ہوا، اوریہ حکم جس طرح گشتی صاحبوں کو شامل ہے مقامی حضرات بھی اس سے محفوظ نہیں جبکہ اس نیت سے زیارت کراتے ہوں اور ان کا یہ طریقہ معلوم ومعروف ہو، ہاں اگر بندہ خدا کے پاس کچھ آثار شریفہ ہوں اور وہ انھیں بہ تعظیم اپنے مکان میں رکھے اور جو مسلمان اس کی درخواست کرے محض لوجہ اللہ اسے زیارت کرادیا کرے کبھی کسی معاوضہ نذرانہ کی تمنا نہ رکھے، پھر اگر وہ آسودہ حال نہیں اور مسلمان بطور خود قلیل یا کثیر بنظر اعانت اسے کچھ دے تو اس کے لے لینے میں اس کو کچھ حرج نہیں باقی گشتی صاحبوں کو عموما اور مقامی صاحبوں میں خاص ان کو جو ا س امر پر اخذ نذور کے ساتھ معروف ومشہور ہیں شرعا جوا ز کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی مگر ایک وہ یہ کہ خدائے تعالٰی ان کو توفیق دے نیت اپنی درست کریں اور اس شر ط عرفی کے رد کے لئے صراحۃ اعلان کے ساتھ ہر جلسے میں کہہ دیا کریں کہ مسلمانو! یہ آثار شریفہ تمھارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا فلاں ولی معزز ومکرم کے ہیں کہ محض خالصا لوجہ اللہ تعالٰی تمھیں ان کی زیارت کرائی جاتی ہے ہر گز ہر گز کوئی بدلہ یا معاوضہ مطلوب نہیں، اس کے بعد اگر مسلمان کچھ نذر کریں تو اسے قبول کرنے میں کچھ حرج نہ ہوگا،

فتاوی قاضی خاں وغیرہا میں ہے:ان الصریح یفوق الدلالۃ ۲؎ (کہ صراحت کودلالت پر فوقیت ہے۔ ت)

(۲؎ ردالمحتار کتاب النکاح ۲/ ۳۵۷ وکتاب الدعوٰی ۴/ ۴۳۷)

اور اس کی صحت نیت پر دلیل یہ ہوگی کہ کم پر ناراض نہ ہو بلکہ اگر جلسے گزرجائیں لوگ فو ج فوج زیارتیں کرکے یوں ہی چلے جائیں اور کوئی پیسہ نہ دے جب بھی اصلا دل تنگ نہ ہو اور اسی خوشی وشادمانی کے ساتھ مسلمانوں کو زیارت کرایا کرے، اس صورت میں یہ لینا دینا دونوں جائز وحلال ہوں گے اور زائرین و مزدور دونوں اعانت مسلمین کا ثواب پائیں گے اس نے سعادت وبرکت دے کر ان کی مدد کی انھوں نے دنیا کی متاع قلیل سے فائدہ پہنچایا، اوررسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ رواہ مسلم فی صحیحہ عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔تم میں سے جس سے ہوسکے کہ اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچائے، پہنچائے (اسے مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

(۱؎ صحیح مسلم باب استحباب الرقیۃ من العین الخ نورمحمد اصح المطابع کراچی ۲/ ۲۲۴)

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:اﷲ فی عون العبد مادام العبد فی عون اخیہ۔ رواہ الشیخان ۲؎۔اللہ اپنے بندہ کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہے (اسے امام بخاری ومسلم نے روایت کیا۔ ت)

(۲؎صحیح مسلم کتاب الذکر والدعا باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن نورمحمد اصح المطابع کراچی ۲/ ۳۴۵)

علی الخصوص جب یہ تبرکات والے حضرات سادات کرام ہوں تو اب کی خدمت اعلٰی درجہ کی برکت وسعادت ہے۔
حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں ''جو شخص اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اس کا صلہ دنیا میں نہ پائے میں بہ نفس نفیس رو ز قیامت اس کا صلہ عطا فرماؤں گا'' اوراگر زیارت کرانے والے کو اس کی توفیق نہ ہو تو زیارت کرنے والے کو چاہئے خود ان سے صاف صراحۃ کہہ دے کہ نذر کچھ نہیں دی جائے گی خالصا لوجہ اللہ اگر آپ زیارت کراتے ہیں کرائے اس پر اگر وہ صاحب نہ مانیں ہر گز زیارت نہ کرے کہ زیارت ایک مستحب ہے اوریہ لین دین حرام، کسی مستحب شے کے حاصل کرنے کے واسطے حرام کو اختیار نہیں کرسکتے، اشباہ والنظائر وغیرہا میں ہے:ماحرم اخذہ حرم اعطاؤہ ۳؎۔جس چیز کا لینا حرام اس کا دینا بھی حرام ہے۔ (ت)

(۳؎ الاشباہ والنظائر الفن الاول ۱/ ۱۸۹ و ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ ۲/ ۵۶)

درمختار میں ہے:الاٰخذ والمعطی اٰثمان ۱؎ (لینے اور دینے والے دونوں گنہ گار ہوں گے۔ ت)

(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۷۳)

اسی درمختار میں تصریح ہے کہ جو تندرست ہو اور کسب پر قادر ہو اسے دینا حرام ہے کہ دینے والے اس سوال حرام پر اس کی اعانت کرتے ہیں اگرنہ دیں خواہی نخواہی عاجز ہو اور کسب کرے اور اگر اس کی غرض زیارت کرنے والے صاحب نے قبول کرلی تو اب سوال واجرت کاقدم درمیان سے اٹھ گیا بے تکلف زیارت کرے دونوں کے لئے اجر ہے اس کے بعد حسب استطاعت ان کی نذر کردے، یہ لینا دینا دونوں کے لئے حلال او ر دونوں کے لئے اجرہے۔ بحمداللہ فقیر کا یہی معمول ہے اور توفیق خیر اللہ تعالٰی سے مسئول ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

مسئلہ ۱۷۱: بتاریخ ۹/ جمادی الاولٰی ۱۳۱۸ھ
جناب من! ایک نئی بات سنی گئی ہے اس کی بابت عرض کرتاہوں اطمینان فرمائے۔
سوال: نقل روضۃ منورہ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور نقل روضہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور تعزیہ میں کیا فرق ہے شرعا کس کی تعظیم کم وبیش کرنا چاہئے، اعنی کون افضل ہے۔ اور زیارت کرنا روضہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی درست ہے یانہیں، یعنی نقل روضہ منورہ کو جو مقبول حسین کے یہاں ہے بعض لوگ یوں کہتے ہیں کہ کاریگر کی کاریگری دیکھ لو۔ لفظ زیارت کا کہنا اور وقت زیارت درود شریف پڑھنا اور مثل اصل کے تعظیم کرنادرست ہے ہر گز نہیں چاہئے، اتنا کہنا تومثل؛ نسبت در ست کہتے ہیں الا بالکل تعظیم کرنا محض برا بتاتے ہیں اور ایسا کرنے والے کو مثل ہنود کے جانتے ہیں اس کا کیا جواب ہے؟

الجواب : روضہ منورہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نقل صحیح بلا شبہہ معظمات دینیہ سے ہے اس کی تعظیم وتکریم بروجہ شرعی ہر مسلمان صحیح الایمان کا مقتضاء ایمان ہے۔ عاے گل بتو خرسندم تو بوئے کسے داری (اے پھول میں تجھے اس لئے سونگھتاہوں کہ تجھ میں کسی کی خوشبو ہے۔ ت)
اس کی زیارت بآداب شریعت اور اس وقت درود شریف کی کثرت ہر مومن کی شہادت قلب وبداہت عقل مستحب ومطلوب ہے۔

علامہ تاج فاکہانی فجر منیر میں فرماتے ہیں:من فوائد ذلک ان من لم یمکنہ زیارۃ الروضۃ فلیبرز مثالہا ولیلثمہ مشتاقا لانہ ناب مناب الاصل کما قد بان مثال نعلہ الشریفۃ مناب عینھا فی المنافع والخواص بشہادۃ التجربۃ الصحیحۃ ولذا جعلوالہ من الاکرام والاحترام مایجعلون للمنوب عنہ ۱؎۔

یعنی روضہ مبارک سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نقل میں ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے اصل روضہ اقدس کی زیارت نہ ملے وہ اس کی زیارت کرے اور شوق دل کے ساتھ اسے بوسہ دے کہ یہ نقل اسی اصل کے قائم مقام ہے جیسے نعل مبارک کا نقشہ منافع وخواص میں یقینا خود اس کا قائم مقام ہے جس پر صحیح تجربہ گواہ ہے ولہذا علمائے دین نے اس کی نقل کا اعزاز واکرام وہی رکھا جو اصل کا رکھتے ہیں۔

(۱؎ فجر منیر)

اسی طرح دلائل الخیرات ومطالع المسرات وغیرہما معتبرات میں ہے اس بحث کی تفصیل جمیل فقیر کے رسالہشفاء الوالہ فی صور الحبیب ومزارہ ونعالہ (۱۳۱۵ھ)میں ہے یہاں لفظ زیارت کی ممانعت محض جہالت ہے اور معاذاللہ درود شریف کی ممانعت اور سخت حماقت اور صراحۃشریعت مطہرہ پر افتراء ہے۔

علامہ طاہر فتنی مجمع البحار میں اپنے استاد امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی سے نقل فرماتے ہیں:من استقیظ عنداٰخذ الطیب وشمہ الی ماکان علیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من محبتہ للطیب فصلی علیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لما وقر فی قلبہ من جلالتہ واستحقاقہ علی کل امۃ ان یلحظوا بعین نہایۃ الاجلال عند رؤیۃ شیئ من اٰثارہ او مایدل علیہا فہو اٰت بمالہ فیہ اکمل الثواب الجزیل وقد استحبہ العلماء لمن رأی شیئا من اٰثارہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ولا شک ان من استحضر ماذکرتہ عند شمہ للطیب یکون کالرائی شیئ من اٰثارہ الشریفۃ فی المعنی فلیس بہ الااکثار من الصلوٰۃ والسلام علیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حینئذٍ ۱؎ اھ مختصرا۔

خوشبو والے کے پاس خوشبو دیکھ کر متوجہ ہوا اور اسے سونگھا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام خوشبو کو پسند فرماتے تھے تو اس وقت درود شریف پڑھا اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جلالت شان کا دل میں وقار پایا اور تمام امت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ استحقاق جانتے ہوئے کہ آپ کے آثار مبارکہ کو دیکھتے ہوئے ان کی تعظیم واہتمام کو ملحوظ رکھیں تو خوشبو سونگھنے پر درود شریف پڑھنے والے نے اس پر کامل اور بھاری ثواب پایا جبکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آثار کو دیکھنے والے کے لئے علماء کرام نے اس کو مستحب قرار دیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ خوشبو سونگھنےپر مذکورہ امور کو مستحضر کرنے والے نے گویا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے آثار شریفہ کو معنی دیکھا تو اس وقت صرف درود شریف کی کثرت ہی اس کو مناسب ہے اھ مختصرا (ت)

(۱؎ مجمع بحارالانوار فصل فی تعیین بعض الاحادیث المشتہرۃ علی الالسن مکتبہ الایمان المدینۃ المنورۃ ۵/ ۲۳۷)

اسی ارشاد جمیل میں صاف تصریح جلیل ہے کہ تمام امت پررسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا حق ہے کہ جب حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آثار شریفہ سے کوئی چیز دیکھیں یا وہ شے دیکھیں جو حضو رکے آثار شریفہ سے کسی چیز پر دلالت کرتی ہو تواس وقت کمال ادب وتعظیم کے ساتھ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا تصور لائیں اور درود وسلام کی کثرت کریں ولہذا جو خوشبو لیتے یا سونگھتے وقت یاد کرے کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسے دوست رکھتے تھے وہ بھی گویا معنی آثار شریفہ کی زیارت کررہا ہے اسے اس وقت درود پڑھنے کی کثرت مسنون ہونی چاہئے تو نقل روضہ مبارک کہ صاف صاف مایدل علیہا میں داخل ہے اس کی زیارت کے وقت حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعطیم وتکریم اور حضور پردرود وتسلیم کیوں نہ مستحب ہوگی ایسی تعظیم کرنے والے کو معاذاللہ کفار ومشرکین کے مثل بتانا سخت ناپاک کلمہ بیباک ہے قائل جاہل پر توبہ فرض ہے بلکہ از سر نو کلمہ اسلام کی تجدید کرکے اپنی عورت سے نکاح دوبارہ کرے کہ اس نے بلاوجہ مسلمانوں کو مثل کفار بتایا، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من دعا رجلا بالکفر ا وقال عدواﷲ ولیس کذٰلک الا حار علیہ رواہ الشیخان ۲؎۔ عن ابی ذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

جس نے کسی کو کفر کے ساتھ پکارا یا اس کو عدواللہ کہا حالانکہ وہ شخص ایسا نہ تھا تو وہ کلمہ کہنے والے کی طرف لوٹے گا۔ اس کو شیخین (بخاری ومسلم) نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

(۲ ؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ یاکافر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۷)

یونہی اگر روضہ مبارک حضرت شہزادہ گلگوں قباحسین شہید ظلم وجفا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علی جدہ الکریم وعلیہ کی صحیح نقل بناکر محض بہ نیت تبرک بے آمیزش منکرات شرعیہ مکان میں رکھتے تو شرعا کوئی حرج نہ تھا، مگرحاشا تعزیہ ہر گز اس کی نقل نہیں، نقل ہونا درکنار بنانے والوں کو نقل کا قصد بھی نہیں، ہر جگہ نئی تراش نئی گھڑت جسے اس اصل سے نہ کچھ علاقہ نہ نسبت پھر کسی میں پریاں کسی میں براق کسی میں اور بیہودہ طمطراق پھر کوچہ بکوچہ ودشت بدشت اشاعت غم کے لئے ان کا گشت، اور اس کے گرد سینہ زنی ماتم سازشی کی شور افگنی، حرام مرثیوں سے نوحہ کنی، عقل ونقل سے کٹی چھنی، کوئی ان کھپچیوں کو جھک جھک کر سلام کررہا ہے کوئی مشغول طواف کوئی سجدہ میں گرا ہے کوئی اس مایہ بدعات کو معاذاللہ جلوہ گاہ حضرت امام عالی مقام سمجھ کر اس ابرک پنی سے مرادیں مانگتا منتیں مانتاہے۔ عرضیاں باندھتا حاجت رواجانتا۔ پھر باقی تماشے باجے تاشے مردوں عورتوں کا راتوں کو میل اور طرح طرح کے بیہودہ کھیل ان سب پر طُرہ ہیں، غرض عشرہ محرام الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت ومحل عبادت ٹھہرا ہوا تھا، ان بیہودہ رسموں نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کردیا، پھر وبال ابتداع کا وہ جوش ہوا کہ خیرات کو بھی بطور خیرات نہ رکھا، ریا، وتفاخر علانیہ ہوتا ہے پھر وہ بھی یہ نہیں کہ سیدھی طرح محتاجوں کودیں بلکہ چھتوں پر بیٹھ کر پھینکیں گے، روٹیاں زمین پر گررہی ہیں، رزق الٰہی کی بے ادبی ہوتی ہے ۔ پیسے ریتے میں گر کر غائب ہوتے ہیں، مالک کی اضافت ہو رہی ہے مگر نام تو ہوگیا کہ فلاں صاحب لنگر لٹارہے ہیں اب بہار عشرہ کے پھو ل کھلے، تاشے باجے، بجتے چلے۔ رنگ رنگ کے کھیلوں کی دھوم، بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم، شہوانی میلوں کی پوری رسوم، جشن فاسقانہ، یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ ڈھانچ بعینہاحضرات شہدائے کرام علیہم الرضوان کے پاک جنازے ہیں :ع اے مومنو! اٹھاؤ جنازہ حسین کا
گاتے ہوئے مصنوعی کر بلا پہنچے، وہاں کچھ نوچ اتار باقی توڑتاڑ دفن کردئے، یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم ووبال جدا گانہ رہے اللہ تعالٰی صدقہ حضرات شہدائے کرام کربلا علیہم الرضوان والثناء کا مسلمانوں کو نیک تو فیق بخشے اور بدعات سے توبہ دے اٰمین اٰمین!

تعزیہ داری کہ اس طریقہ نا مرضیہ کانام ہے قطعا بدعت وناجائز وحرام ہے۔ ان خرافات کے شیوع نے اس اصل مشروع کو بھی اب مخدور ومحظور کردیاکہ اس میں اہل بدعت سے مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہل اعتقاد کے لئے ابتلائے بدعات کا اندیشہ ہےوما یؤدی الی محظور محظور (جو چیزیں ممنوع تک پہنچائے وہ ممنوع ہے۔ ت) ۔

حدیث میں ہےاتقوا مواضع التہم ۱؎ (تہمت کے مواقع سے بچو۔ ت)

(۱؎ کشف الخفاء حدیث ۸۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۳۷)
(اتحاف السادۃ المتقین کتاب عجائب القلب دارالفکر بیروت ۷/ ۲۸۳)

اور وار دہوا:من کان یومن باﷲ والیوم الاٰخر فلا یقفن مواقف التہم ۲؎۔جو شخص اللہ تعالٰی اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے وہ تہمت کے مواقع میں ہر گز نہ کھڑا ہو۔ (ت)

(۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلوٰۃ باب ادراک الفریضۃ نورمحمد کارخانہ تجارت کراچی ص۲۴۹)

لہذا دربارہ کربلا ئے معلی اب صرف کاغذ پرصحیح نقشہ لکھا ہوا محض بقصد تبرک بے آمیزش منہیات پاس رکھنے کی اجازت ہوسکتی ہےوالسلام علی من اتبع الہدٰی ، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
(ختم شد رسالہ بدر الانوار فی اٰداب الاثار)