رسالہ
فتاوٰی
کرامات غوثیہ
مسئلہ
اولٰی: از
اوجین ریاست گوالیار مرسلہ جناب محمد
یعقوب علی خاں صاحب ۱۷ربیع الآخر ۱۳۱۰ھ
مسئلہ
۱۲:کیافرماتے
ہیں علمائے حق الیقین اورمفتیان پابند
شرع متین اس مسئلہ میں کہ عبارت نظم "شام
ازل اورصبح ابد"سے
بیٹھ جانا براق کا وقت سواری آنحضرت صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ثابت ہے۔
"مقولۂ
جبرئیل علیہ السلام"
نظم
مسند
نشین عرش معلٰی یہی تو ہے مفتاح
قفل گنج فاوحٰی یہی تو ہے
مہتاب
منزل شب اسرٰی یہی تو ہے
خورشید
مشرق فتدلّٰی یہی تو ہے
ہمراز
قرب ہمدم اوقاتِ خاصہ ہے ہژدہ
ہزار عالمِ رب کا خلاصہ ہے
سن
کر یہ بات بیٹھ گیا وہ زمیں پر تھامی
رکاب طائرسدرہ نے دوڑکر
رونق
افزائے دیں ہوئے سلطان بحروبر
کی
عرض پھر براق نے یا سید البشر
محشرکو
جب قدم سے گہر پوش کیجئے اپنے
غلام کو نہ فراموش کیجئے
خیرالورٰی
نے دی اسے تسکیں کہا کہ ہاں خوش
خوش وہ سوئے مسجداقصٰی ہوا رواں
صاحب"تحفہ
قادریہ"لکھتے
ہیں کہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایا اوراتنا
بڑا اوراونچا ہوگیا کہ صاحب معراج کا ہاتھ
زین تک اورپاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔ ارباب
معرفت کے نزدیک اس معاملہ میں عمدہ ترحکمت
یہ ہے کہ جس طرح آج کی رات محبوب اپنا
دولت وصال سے فرح (خوشحال
) ہوتاہے
اسی طرح محبوب کا محبوب بھی نعمت قرب خاص
اور دولت اختصاص اورولایت مطلق اورغوثیت
برحق اورقطبیت اصطفاء اورمحبوبیت مجدوعلاسے
آج مالا مال ہی کردیاجائے۔
چنانچہ
صاحب "منازل
اثنا عشریہ"
"تحفہ
قادریہ سے لکھتاہے کہ اس وقت سیدی ومولائی
مرشدی وملجائی ، قطب الاکرم، غوث الاعظم،
غیاث الدارین وغوث الثقلین، قرۃ العین
مصطفوی نوردیدۂ مرتضوی ، حسنی حسینی
سروحدیقہ مدنی، نورالحقیقت والیقین حضرت
شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ
تعالٰی عنہ کی روح پاک نے حاضرہوکر گردن
نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے
نیچے رکھ دی اوراس طرح عرض کیا:
(بیت)برسرودیدہ
ام بنہ اے مہ نازنین قد بودبسر
نوشت من فیض قدم ازیں قدم
(اے
نازنین میرے سر اورآنکھوں پرقدم رکھئے
تاکہ اس کی برکت سے میری تقدیر پر فیضان
قدم ہو۔ت)
خواجہ
عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گردن غوث
الاعظم پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوئے
اوراس روح پاک سے استفسار فرمایا کہ تو
کون ہے؟عرض کیا :
میں
آپ کے فرزندان ذریات طیبات سے ہوں اگر
آج نعمت سے کچھ منزل بخشئے گا توآپ کے
دین کو زندہ کروں گا۔فرمایا :
تو
محی الدین ہے اورجس طرح میرا قدم تیری
گردن پر ہے کل تیرا قدم کُل اولیاء کی گردن
پر ہوگا۔
بیت
قصیدہ غوثیہ:وکل
ولی لہ قدم وانی علٰی
قدم النبی بدرالکمال۱(ہرولی
میرے قدم بقدم ہے اورمیں حضورسید الانبیاء
صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پرہوں جو
آسمان کمال کے بدرکامل ہیں۔ت)
(۱فتوح
الغیب علی ھامش بہجۃ الاسرارالقصیدۃ
الغوثیۃ مصطفٰی البابی مصرص۲۳۱)
پس
ان دونوں عبارت کتب سے کون سی عبارت متحقق
ہے ؟کس پر عمل کیاجائے ؟یا دونوں ازروئے
تحقیق کے درست ہیں؟بیان فرمائیے۔ رحمۃ
اللہ علیہم اجمعین۔
الجواب:
حضورپرنورسیدعالم
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے
وقت براق کا شوخی کرنا ، جبریل امین علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا اسے تنبیہ فرمانا کہ
:
"اے
براق! کیا
محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ
یہ برتاؤ! واللہ
!تجھ
پرکوئی ایسا سوار نہ ہوا جو اللہ عزوجل
کے حضوران سے زیادہ رتبہ رکھتاہو۔"
اس
پر براق کا شرمانا، پسینہ پسینہ ہوکر شوخی
سے باز رہنا، پھر حضور پرنور صلوات اللہ
تعالٰی وسلامہ علیہ کا سوار ہونا، یہ
مضمون تو ابوداود وترمذی ونسائی وابن
حبان وطبرانی وبیہقی وغیرہم اکابر محدثین
کی متعدد احادیث صحاح وحسان وصوالح سے
ثابت ۔کما
بسط اکثرھاالمولی الجلال السیوطی قدس
سرہ فی خصائصہ الکبرٰی۱ وغیرہ من العلماء
الکرام فی تصانیفھم الحسنٰی ۔جیسا
کہ اس میں سے اکثرکی تفصیل امام جلال الدین
سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "الخصائص
الکبرٰی "میں
اوردیگر علماء کرام نےاپی شاندار تصانیف
میں فرمائی ہے ۔(ت)
(۱الخصائص
الکبری باب خصوصیتہ صلی اللہ علیہ وسلم
بالاسراء حدیث ام سلمہ مرکز اہل سنت
برکات رضا گجرات ہند ۱/۱۷۹)
(المواہب
اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی
بیروت۳/ ۴۱)
(السیرۃ
النبویۃ لابن ہشام ذکر الاسراء والمعراج
دارابن کثیر بیروت الجزأین، الاول والثانی
ص۳۹۸)
اوراس
کا حیا کے سبب براہ تذلل وانقیادپست ہوکر
لپٹ جانا بھی حدیث میں وارد ہے ۔ففی
روایۃ عند ابن اسحٰق رفعا الی النبی صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال فارتعشت حتی
لصقت بالارض فاستویت علیہا۲۔اورایک
روایت میں ابن اسحٰق سے مرفوعًا مروی ہے
کہ حضور پرنورصلوات اللہ وسلامہ علیہ
فرماتے ہیں :
جب
جبریل نے اس سے کہا تو براق تھراگیا اورکانپ
کر زمین سے چسپاں ہوگیا،پس مٰیں اس پر
سوار ہوگیا۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی
اٰلہٖ وصحبہ وبارک وسلم ۔
(۲المواہب
اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق المقصد الخامس
المکتب الاسلامی بیروت ۳ /
۳۹)
اوریہ
روایت کہ سوال میں تحفہ قادریہ سے ماثور،اس
کی اصل بھی حضرات مشائخ کرام قدست اسرارہم
میں مذکور ۔۔۔۔۔فاضل عبدالقادر قادری
(عہ)
بن
شیخ محی الدین اربلی، تفریح الخاطر فی
مناقب الشیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی
عنہ میں لکھتے ہیں کہ جامع شریعت وحقیقت
شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں
:ان
لیلۃ المعراج جاء جبرئیل علیہ السلام
ببراق الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم اسرع من البرق الخاطف الظاھر،ونعل
رجلہ کالھلال الباھر،ومسمارہ کالانجم
الظواھر،ولم یأخذ ہ السکون والتمکین
لیرکب علیہ النبی الامین، فقال لہ النبی
صلی اللہ علیہ وسلم ، لم لم تسکن یابراق
حتی ارکب علٰی ظھرک ، فقال روحی فداءً
لتراب نعلک یارسول اللہ اتمنی ان تعاھدنی
ان لاترکب یوم القٰیمۃ علٰی غیر حین دخولک
الجنۃ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
یکون لک ماتمنیت ، فقال البراق التمس ان
تضرب یدک المبارکۃ علٰی رقبتی لیکون علامۃ
لی یوم القٰیمۃ ، فضرب النبی صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم یدہ علٰی رقبۃ البراق،
ففرح البراق فرحا حتی لم یسع جسدہ روحہ
ونمٰی اربعین ذراعامن فرحہ وتوقف فی رکوبہ
لحظۃ لحکمۃ خفیۃ ازلیۃ ،فظھرت روح الغوث
الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وقال یا سیدی
ضع قدمک علٰی رقبتی وارکب،فوضع النبی صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدمہ علٰی رقبتہ
ورکب، فقال قدمی علٰی رقبتک وقدمک علٰی
رقبۃ کل اولیاء اللہ تعالٰی۱ انتہٰی۔یعنی
شب معراج جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام
خدمت اقدس حضور پرنورصلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم میں براق حاضر لائے کہ چمکتی
اُچک لے جانیوالی بجلی سے زیادہ شتاب
روتھا،اوراس کے پاؤں کا نعل آنکھوں میں
چکا جوند ڈالنے والا ہلال اوراس کی کیلیں
جیسے روشن تارے ۔ حضور پُرنور صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے لئے اسے
قراروسکون نہ ہوا، سیدِ عالم صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے سبب پوچھا:
بولا:
میری
جان حضور کی خاکِ نعل پر قربان، میری آرزو
یہ ہے کہ حضور مجھ سے وعدہ فرمالیں کہ روز
قیامت مجھی پر سوارہوکر جنت میں تشریف لے
جائیں ۔ حضور معلّٰی صلوات اللہ تعالٰی
وسلامہ علیہ نے فرمایا :
ایسا
ہی ہوگا ۔ براق نے عرض کی:
میں
چاہتاہوں حضور میری گردن پر دست مبارک
لگادیں کہ وہ روز قیامت میرے لیے علامت
ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
نے قبول فرمالیا۔ دست اقدس لگتے ہی براق
کو وہ فرحت وشادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار
جسم میں نہ سمائی اورطرب سے پھول کر چالیس
ہاتھ اونچا ہوگیا۔حضورپُرنورصلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم کو ایک حکمت نہانی ازلی
کے باعث ایک لحظہ سواری میں توقف ہوا کہ
حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ
کی روح مطہر نے حاضر ہوکر عرض کی :
اے
میرے آقا !
حضور
اپنا قدم پاک میری گردن پر رکھ کر سوار
ہوں ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی
گردن مبارک پر قدم اقدس رکھ کر سوارہوئے
اورارشاد فرمایا :
"میرا
قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیاء
اللہ کی گردنوں پر۔"
عہ:
حضرت
علامہ عبدالقادرقادری بن محی الدین
الصدیقی الاربلی جامع علوم شریعت وحقیقت
تھے ۔ علماء کرام اورصوفیہ عظام میں عمدہ
مقام پایا۔ آپ کے اساتذہ میں الشیخ
عبدالرحمن الطالبانی جیسے اجلّہ فضلاء
شامل ہیں ۔ اورفہ میں ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء
میں وصال پایا۔آپ کی تصانیف میں سے مشہور
کتابیں یہ ہیں :
۱۔
آداب المریدین ونجاۃ المسترشدین
۲۔تفریح
الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر
۳۔
النفس الرحمانیۃ فی معرفۃ الحقیقۃ
الانسانیہ
۴۔الدرالمکنون
فی معرفۃ السرالمصون
۵۔
حدیقۃ الازھار فی الحکمۃ والاسرار
۶۔شرح
الصلاۃ المختصرۃ للشیخ اکبر
۷۔
الدررالمعتبرۃ فی شرح الابیات الثمانیہ
عشرہ
۸۔
شرح اللمعات للفخرالدین العراقی
۹۔القواعد
الجمعیۃ فی الطریق الرفاعیۃ
۱۰۔
مجموعۃ الاشعارفی الرقائق والاثار
۱۱۔مرآۃ
الشہودفی وحدۃ الوجود
۱۲۔مسک
الختام فی معرفۃ الامام ، مختصرفی کراستہ
۱۳۔الالہامات
الرحمانیہ فی مراتب الحقیقۃ الانسانیۃ
۱۴۔حجۃ
الذاکرین وردالمنکرین ۔
۱۵۔الطریقۃ
الرحمانیہ فی الرجوع والوصول الی الحضرۃ
العلیۃ ۔
تفصیل
کے لیے ملاحظہ ہو :
ا۔
معجم المولفین،عمر رضاکحالہ ، الجزء
الخامس ص۳۵۴
ب۔
ہدیۃ العارفین ، اسماعیل باشاالبغدادی
جلد اول ص۶۰۵
(۱تفریح
الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادرالمنقبۃ
الاولی سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ فیصل
آباد ص۲۵ ،۲۴)
نوٹ:
زیر
نظرنسخہ حضرت مولانا ابوالمنصورمحمد
صادق قادری فاضل جامعہ رضویہ فیصل آبادکے
ترجمہ کے ساتھ شائع ہوا ہے ۔)
اس
کے بعد فاضل عبدالقادر اربلی فرماتے ہیں
:فایاک
یااخی ان تکون من المنکرین المتعجبین من
حضور روحہ لیلۃ المعراج لانہ وقع من غیرہ
فی تلک اللیلۃ کما ھو ثابت بالاحادیث
الصحیحۃ کرؤیتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم ارواح الانبیاء فی السمٰوٰت وبلالا
فی الجنۃ واویسا القرنی فی مقعدالصدق
وامرأۃ ابی طلحۃ فی الجنۃ ، وسماعہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم خشخشۃ الغمیصاء
بنت ملحان فی الجنۃ کما ذکرنا قبل ھذا ،
یعنی
اے برادر! بچ
اور ڈر اس سے کہ کہیں تُو انکار کر بیٹھے
اورشعب معراج حضورغوث پاک رضی اللہ تعالٰی
عنہ کی حاضری پر تعجب کرے کہ یہ امر توصحیح
حدیثوں میں اوروں کے لئے وارد ہواہے ،
مثلاً حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے آسمانوں میں ارواح انبیاءعلیہم
الصلوٰۃ والسلام(عہ۱)
کو
ملاحظہ فرمایا، اورجنت میں بلال رضی اللہ
تعالٰی عنہ(عہ۲)
کو
دیکھا اورمقعد صدق میں اویس قرنی اوربہشت
میں زوجۂ ابوطلحہ(عہ۱)
کو
اورجنت میں غمیصاء بنت ملحان کی پہچل
(عہ۲)
سنی،
جیسا کہ ہم اس سے قبل ذکر کرچکے ہیں ۔
عہ۱:
تفصیل
کے لئے ملاحظہ ہو:
الشفاء
بتعریف حقوق المصطفٰی فصل فی تفضیلہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم المطبعۃ الشرکۃ
الصحافیۃ ۱ /۱۴۵
عہ۲:
حدیث
شریف میں ہے : قال
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
لبلال صلوٰۃ الغداۃ یا بلال حدثنی بارجی
عمل عملتہ عندک فی الاسلام منفعۃ فانی
سمعت اللیلۃ خشف نعلیک بین یدی فی الجنۃ
۱،الحدیث
ایک
اورحدیث میں یوں ہے :
عن
ابن عباس قال لیلۃ اسری برسول اللہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم دخل الجنۃ فسمع فی
جانبہا خشفا فقال یاجبریل من ھذا فقال
ھذا بلال المؤذن فقال قدافلح بلال رأیت
لہ کذاکذا۲۔
(۱صحیح
مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ام سلیم،
ام انس بن مالک وبلال ۲ /۲۹۲)
(۲منتخب
کنزالعمال علی ہامش مسند احمد بن حنبل
المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۶۹)
حضرت
ابو امامہ کی روایت میں مرفوعاً ہے :
فقیل
ھذا بلال یمشی امامک۳۔
(۳
الکامل لابن عدی ترجمہ یحیٰی بن ابی حیۃ
ابوجناب الکلبی دارالفکر بیروت ۷ /۲۶۷۰)
مذکورہ
روایات اوراحادیث کا مفہوم یہ ہے کہ شب
معراج حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ
کو جنت میں ملاحظہ فرمایا۔
عہ۱:
حدیث
میں ہے : عن
جابر بن عبداللہ ان رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم قال رأیت الجنۃ فرأیت
امرأۃ ابی طلحۃ الحدیث۱۔
جابر
بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت
ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے فرمایا :
مجھے
جنت دکھائی گئی تو میں نے جنت میں ابوطلحہ
کی زوجہ کو دیکھا۔
عہ۲:
حدیث
شریف میں ہے : عن
انس عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
قال دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت من ھذا
قالوا ھٰذہ الغمیصاء بنت ملحان ام انس بن
مالک ۲۔
ایک
اور روایت میں یوں بیان ہوا:
عن
انس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم دخلت الجنۃ فسمعت خشخشۃ
بین یدی فاذا ھی الغمیصاء بنت ملحان ام
انس بن مالک۳۔
مسند
احمد کی دوسری روایت یوں ہے :
عن
انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم دخلت فسمعت بین یدی خشفۃ فاذا
انا بالغمیصاء بنت ملحان۴۔
(۱
صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ام
سلیم، ام انس بن مالک وبلال ۲/۲۹۲)
(۲
صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ام
سلیم، ام انس بن مالک وبلال ۲/۲۹۲)
(۳
مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ
المکتب الاسلامی بیروت ۳/۹۹)
(۴
مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ
المکتب الاسلامی بیروت۳/۱۰۶)
ان
روایات کا مفہوم یہ ہے کہ حضور اکرم صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضر ت انس بن
مالک کی والدہ حضرت غمیصاء بنت ملحان رضی
اللہ تعالٰی عنہماکی جنت میں پہچل سنی۔
نوٹ:
یاد
رہے کہ غمیصاء بنت ملحان یہی زوجۂ ابوطلحہ
ہیں ۔ فاعلم ذٰلک
(حاشیہ
منجانب امام احمد رضا محدث بریلوی رضی
اللہ تعالٰی عنہ )
وذکرفی
حرز العاشقین وغیرہ من الکتب ان نبینا
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقی لیلۃ
المعراج سیدنا موسٰی علیہ السلام فقال
موسٰی مرحبابالنبی الصالح والاخ الصالح
انت قلت علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل،
ارید ان یحضراحد من علماء امتک لیتکلم
معی فاحضر النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم روح الغزالی رحمہ اللہ تعالٰی الٰی
موسٰی علیہ السلام (وساق
القصۃ ثم قال)،
وفی کتاب رفیق الطلاب لاجل العارفین الشیخ
محمد الجشتی نقلا عن شیخ الشیوخ قال قال
النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انی رأیت
رجالا من امتی فی لیلۃ المعراج ارانیھم
اللہ تعالٰی (الخ
ثم قال) وقال
الشیخ نظام الدین الکنجوی کان النبی صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم راکبا علی البراق
وغاشیتہ علی کتفی انتھی
اورحرز
العاشقین وغیرہ کتابوں میں کہ حضرت سیدنا
موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی درخواست
پر حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
نے روح امام غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
کو حکم حاضری دیا ۔ روحِ امام نےحاضرہوکر
موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کلام
کیا۔(عہ۱)
اورعارف
اجل شیخ محمد چشتی نے کتاب رفیق الطلاب
میں حضرت شیخ الشیوخ قدست اسرارہم سے نقل
کیاکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے فرمایا:
میں
نے شب معراج کچھ لوگ اپنی امت کے ملاحظہ
فرمائے(عہ۲)
اورشیخ
نظام الدین گنجوی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے
تھے: جب
حضورپُرنورصلوات اللہ تعالٰی وسلامہ
علیہ رونق افروز پشت براق پر تھے اوربراق
کا زین پوش میرے کندھے پرتھا۔
عہ۱:
(الف)
نبر
اس شرح شرح عقائد، علامہ عبدالعزیز پرہاروی
، ص۳۸۸
(ب)
مقابیس
المجالس اردوترجمہ از واحد بخش سیال ص۲۵۵
(ج)
معراج
النبی از علامہ سید احمد سعید کاظمی ص۲۸
اورمابعد
(د)
عرفان
شریعت(مجموعہ
فتاوٰی امام احمد رضا)
مرتبہ
مولانا محمد عرفان علی حصہ سوم ص۸۴تا۹۱
عہ۲:
رفیق
الطلاب مجتبائی دہلی ص۲۸
عہ۳:
عمدۃ
الفضلاء المحققین امام نجم الدین غیطی
فرماتے ہیں:
واماالرفرف
فیحتمل ان المراد بہ السحابۃ التی غشیتہ
وفیھا من کل لون التی رواھا ابن ابی حاتم
عن انس وعندما غشتہ تاخرعنہ جبریل۔(کتاب
المعراج (مؤلفہ
رجب ۹۹۹ھ) مطبوعہ
مصر،ص۸۹)
وقال
عمدۃ المحدثین الامام نجم الدین الغیطی
فی کتاب المعراج ثم رفع الی سدرۃ المنتہٰی
فغشیہ سحابۃ فیہا من کل لون فتأخر جبریل
علیہ السلام ثم عرج لمستو سمع فیہ صریف
الاقلام ورأی رجلا مغیبا فی نور العرش
فقال من ھذا أملک؟ قیل :
لا
۔ قال : أنبی؟
قیل: لا،
ھذا رجل کان فی الدنیالسانہ رطب من ذکر
اللہ تعالٰی وقلبہ معلق بالمساجد ولم
یستسب لوالدیہ قط۱ الخ مافی التفریح
ملخصا۔
اورعمدۃ
المحدثین امام نجم الدین غیطی کتاب المعراج
میں فرماتے ہیں :
جب
حضورمعلی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرۃ
المنتہٰی تک تشریف لے گئے اس پر ایک ابر
چھایا(عہ۳)جس
میں ہر قسم کا رنگ تھا ، جبریل امین علیہ
الصلوٰۃ والسلام پیچھے رہ گئے ۔ سید عالم
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مستوٰی پر جلوہ
(عہ۱)
فرماہوئےوہاں
قلموں کے لکھنےکی آواز گوشِ اقدس میں
آئی اورایک شخص کو ملاحظہ فرمایا کہ
نورعرش میں چھپاہوا ہے ،حضور نے دریافت
فرمایا : کیا
یہ فرشتہ ہے ؟جواب ہوا۔ :
نہیں
۔پوچھاکیا یہ نبی ہے ؟کہا :
نہیں
بلکہ یہ ایک مرد ہے کہ دنیا میں اس کی زبان
یا دخدا میں تررہتی اوردل مسجدوں میں لگا
رہتا۔کبھی کسی کے ماں باپ کو بُراکہہ کر
اپنے والدین کو بُرا نہ کہلوایا (عہ۲)
انتہی۔
(۱تفریح
الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر المنقبۃ
الاولٰی سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ فیصل
آباد ص۲۸تا۲۵)
عہ۱:
امام
نجم الدین غیطی فرماتے ہیں :
ثم
عرج بہ حتی ظھر لمستوی سمع فیہ صریف
الاقلام۔(کتاب
المعراج ، مطبوعہ مصر،ص۸۷،۸۹)
عہ۲:
تفصیل
کے لئے ملاحظہ ہو:
کتاب
المعراج ص۹
یعنی
جب معراج میں اتنے لوگوں کی ارواح کا حاضر
ہونااحادیث واقوال علماء واولیاء سے ثابت
ہے تو روح اقدس حضور پرنورسید الاولیاء
غوث الاصفیاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی
حاضری، کیا جائے تعجب وانکار ہے بلکہ ایسی
حالت میں حاضرنہ ہونا ہی محل استعجاب ہے
اک ذرا انصاف واندازہ قدرقادریت درکار
ہے ۔
اقول
وباللہ التوفیق :
(میں
کہتاہوں اوراللہ ہی کی طرف سے توفیق
ہے۔ت)فقیر
غفرلہ المولی القدیر نے اپنے رسالہ ''ھدی
الحیران فی نفی الفئی عن سیدالاکوان''میں
بعونہ تعالٰی ایک فائدہ جلیلہ لکھا کہ
مطالب چند قسم ہیں،ہر قسم کا مرتبہ جدااورہر
مرتبہ کا پایہ ثبوت علیحدہ ۔ اس قسم مطالب
احادیث میں ظہورنہ ہونا مضر نہیں،بلکہ
کلمات علماء ومشائخ میں ان کاذکر کافی ۔
امام
خاتمۃ المحدثین جلال الملۃ والدین سیوطی
قدس سرہ الشریف نے "مناھل
الصفاء فی تخریج احادیث الشفاء "میں
اس روایت کی نسبت کہ امیر المومنین عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضو رپُرنور
صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کے وصال
اقدس کے بعد کلام طویل میں حضور کو ہرجملہ
پر بکلمہ "بابی
انت وامی یارسول اللہ"(یارسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم !میرے
ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ت)
نداکرکے
فضائل جلیلہ وخصائص جمیلہ بیان کئے ،
تحریر فرمایا :لم
اجدہ فی شیئ من کتب الاثرلکن صاحب اقتباس
الانوار وابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی
ضمن حدیث طویل وکفٰی بذلک سندا لمثلہ فانہ
لیس ممایتعلق بالاحکام۱۔یعنی
میں نے یہ روایت کسی کتابِ حدیث میں نہ
پائی مگر صاحب اقتباس الانوار اورامام
ابن الحاج نے اپنی مدخل میں اسے ایک حدیث
طویل کے ضمن میں ذکر کیا اورایسی روایت
کو اسی قدر سند کفایت کرتی ہے کہ انہیں
کچھ باب احکام سے تعلق نہیں انتہٰی۔
علامہ
شہاب الدین خفاجی مصری رحمۃ اللہ تعالی
علیہ نے نسیم الریاض۲ شرح شفاء قاضی عیاض
میں نقل کیا اور مقرررکھا۔
(۱و۲
نسیم الریاض بحوالہ مناہل الصفا فی تخریج
احادیث الشفاء الفصل السابع برکات رضا
گجرات ہند ۱/
۲۴۸)
بالجملہ
روح مقد س کا شب معراج کوحاضر ہونا اورحضور
اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حضرت
غوثیت کی گردن مبارک پر قدم اکرم رکھ کر
براق یا عرش پر جلوہ فرمانا، اورسرکارابدقرارسے
فرزند ارجمند کو اس خدمت کے صلہ میں یہ
انعام عظیم عطاہونا ۔۔۔۔ ان میں کوئی امر
نہ عقلاً اورشرعاً مہجور اورکلماتِ مشائخ
میں مسطور وماثور،کتبِ حدیث میں ذکر معدوم
، نہ کہ عدم مذکور، نہ روایات مشائخ اس
طریقہ سند ظاہری میں محصور، اورقدرت قادر
وسیع وموفور، اورقدر قادری کی بلندی مشہور
پھر ردوانکارکیا مقتضائے ادب وشعور۔
اب
یہ رہا کہ اس حدیث میں کہ براق برق رفتار
زمین سے لپٹ گیا ۔ اوراس روایت میں کہ حضور
اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گردنِ
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ پر قدم
رکھ کر زیب پشتِ براق ہوئے ، بظاہر تنافی
ہے ۔
اقول
اصلاً منافات نہیں، بلکہ جب اسی روایت
میں مذکور کہ براق فرط فرحت سے چالیس ہاتھ
اونچا ہوگیا اورپُرظاہر کہ جو مَرۡکَب(عہ۱)
اس
قدر بلند ہووہ کیسا ہی زمین سے ملصق (عہ۲)
ہوجائے
تاہم قامتِ انسان سے بہت بلند رہے گا اوراس
پر سواری کے لئے ضرور حاجتِ نردبان(عہ۳)
ہوگی۔
اب ایک چھوٹے سے جانور فیل(عہ۴)
ہی
کو دیکھئے کہ جب ذرا بلند وبالاہوتاہے
اسے بٹھا کر بھی بے زینہ سواری قدرے دقت
رکھتی ہے ۔ تو اگر براق بوجہ حیاء وتذلل
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی
سواری کے لئے زمین سے لپٹ گیا ہو اورپھر
بھی بوجہ طول ارتفاع حاجت زینہ ہو جس کے
لئے روح سرکار غوثیت مدار رضی اللہ تعالٰی
عنہ سے حاضر ہوکر اپنے مہربان باپ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زیر قدم اکرم
اپنا شانہ مبارک رکھا ہو ، کیا جائے
استعجاب (عہ۵)
ہے۔
عہ۱:
مرکب
بمعنی سواری
عہ۲:
ملصق
ہونا : چمٹ
جانا،مل جانا
عہ۳:
سیڑھی
عہ۴:
ہاتھی
عہ۵:
تعجب
وصلی
اللہ تعالٰی علی الحبیب الاکرم واٰلہٖ
وصحبہ اھل الکرم وابنہ الکریم الغوث
الاعظم وعلینا بجاھھم وبارک وسلم۔اللہ
تعالٰی اپنے حبیب اکرم ، آپ کے کرم والے
آل واصحاب ، آپ کے کریم بیٹے غوث اعظم
اور ان کے صدقے میں ہم پر رحمت، برکت اور
سلام نازل فرمائے ۔(ت)
واللہ
سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم
واحکم۔
No comments:
Post a Comment