Saturday, January 19, 2013

رسالہ شرح المطالب فی مبحث ابی طالب(۱۳۱۶ھ) ( مطالب کی وضاحت ابُوطالب کی بحث میں)

رسالہ
شرح المطالب فی مبحث ابی طالب(۱۳۱۶ھ)
( مطالب کی وضاحت ابُوطالب کی بحث میں)

مسئلہ ۲۱۵ : ازبدایوں ۱۲۹۴ھ بعبارت سوال وثانیا بالاجمال از احمد آباد گجرات، محلہ جمال پور قریب مسجد کانچ مرسلہ جماعت اہل سنت ساکنان احمد آباد ۶ جمادی الاولٰی ۱۳۱۶ ہجری۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید ابوطالب کو کافر اور ابولہب و ابلیس کا مماثل کہتا ہے اور عمرو بدین دلائل اس سے انکار کرتا ہے کہ ا نہوں نے جناب سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی کفالت و نصرت و حمایت و محبت بدرجہ غایت کی اور نعت شریف میں قصائد لکھے حضور نے انکے لیے استغفار فرمائی اور جامع الاصول میں ہے کہ : اہل بیت کے نزدیک وہ مسلمان مرے۔

شیخ محقق علیہ الرحمۃ نے شرح سفر السعادۃ میں فرمایا :کم از ان نہ باشد کہ دریں مسئلہ توقف کنند و صرفہ نگہ دارند۔کم از کم اس مسئلہ میں توقف کرتے ہیں اور احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہیں۔(ت)

اور مواہب لدنیہ میں ایک وصیّت نامہ اُن کا بنام قریشی منقول جو حرفاً حرفاً اُن کے اسلام پر شاہد، اِن دونوں میں کون حق پر ہے، اور ابوطالب کو مثل ابولہب وابلیس سمجھنا کیسا اور اُن کے کفر میں کوئی حدیث صحیح وارد ہوئی یا نہیں، برتقدیرثانی انہیں ضامن وکفیل رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سمجھ کر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہیں یا مثلِ کفار سمجھیں؟بیّنوابسند الکتاب توجروا من الملک الوھاب بیوم القیٰمۃ والحساب ۔ ( کتاب کی سند کے ساتھ بیان فرمائیے قیامت او ر حساب کے دن ملک الوہاب سے اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

الجواب :
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اللّٰھمّ ربناولوجھک الحمد احق ما قال العبدوکلنالک عبد لامانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولارادلما قضیت ولا ینفع ذا الجد منک الجدلک الحمد علٰی ما ھدیت وعفوت وعافیت و منحت واولیت تبارکت وتعالیت سبحٰنک ربّ البیت مستجیرین بجمال وجہک الکریم من عذابک الالیم و شاہدین بان لاحول ولاقوۃ الّا باﷲ العلی العظیم انت العزیز الغالب لایعجزک ھارب ولا یدرک مامنعت طالب ماعلیک من واجب قدرت الاقدار ودو رت الادوارو کتبت فی الاسفار ما انت کاتب، یعمل عامل بعمل الجنان فیظن الظان من الانس والجان ان سید خلہا وکأن قد کان فیغلبہ الکتاب فاذا ھو خائب ویفعل فاعل افعال النیران فیحسب الجیران ومن طلع علیہ النیران ان سیوردھا وکأن قد حان فیدرک القدرفاذاھوتائب ارسلت خیر خلقک وسراج افقک محمدا المبعوث بیسرک ورفقک بشیرا و نذیرا و سراجا منیرا ملأضؤوہ المشارق والمغارب وعم نورہ الاباعد والاقارب وحرم بقرب حضرتہ من حضرۃ قربہ ابوطالب فلک الحجۃ السامیۃ صل علٰی محمد صلاۃ نامیۃ وعلٰی اٰلہ وصحبہ واھلہ وحزبہ صلاۃ ترضیک وترضیہ وتحفظ المصلی عما یردیہ وبارک وسلم ابدا ابدا والحمدﷲ دائما سرمدًا امین اٰمین یا ارحم الراحمین !

اے اﷲ ! ہمارے پروردگار! اور حمد تیری ذات کے زیادہ لائق ہے بنسبت اس کے جو بندے نے کہا۔ اور ہم سب تیرے بندے ہیں، جو تُو نے عطا فرمایا اُسے کوئی روکنے والے نہیں، اور جسے تُو نے روک دیا اُسے کوئی دینے والا نہیں ، اور تیرے فی صلے کو کوئی رَد کرنے والا نہیں اور تیرے سامنے کسی تونگر کی تونگری اُس کے لیے نافع نہیں، اور تیرے سامنے کسی تونگر کی تونگری اسکے لیے نافع نہیں، تیرے لیے ہی حمد ہے اس پر جو تو نے ہدایت دی، معاف فرمایا ، عافیت دی، عطا فرمایا اور والی بنایا، تو برکت والا ہے اور برتر ہے، اے ربِ کعبہ ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیرے درناک عذاب سے تیری ذات کی پناہ مانگتے ہوئے اور اس پر گواہی دیتے ہوئے کہ اﷲ برتر و عظیم کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی قوت تُو عزت والا غالب ہے، کوئی بھاگنے والا تیرے قابو سے باہر نہیں جاسکتا اور جو تُو روک دے کوئی طالب اس کو پا نہیں سکتا تجھ پر کچھ بھی واجب نہیں، تُو نے تقدیریں مقدر فرمائیں اور ادوار کو گردش دی۔ اور جو نے لکھنا تھا کتب تقدیر میں لکھ دیا۔ کوئی آدمی جنتیوں جیسے کام کرتا ہے تو انسانوں اور جِنّوں میں سے کچھ گمان کرنے والے گمان کرنے لگتے ہیں کہ عنقریب یہ جنت میں داخل ہوجائے گا گویا کہ ایسا ہوگیا۔ پھر اس پر لکھا ہوا غالب آجاتا ہے تو وہ ناکام ہوجاتا ہے اور کوئی عامل جنہمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے پڑوسی اور دیگر لوگ سمجھنے لگتے کہ عنقریب یہ اُس میں داخل ہوگا اور گویا کہ اس کا وقت قریب ہوچکا ہے، پھر تقدیر اُس کو پالیتی ہے تو وہ تائب ہوجاتا ہے ، تُو نے اپنی مخلوق میں سے بہترین کو بھیجا جو تیرے افق کا سراج ہے یعنی محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو تیری طرف سے آسانی اور نرمی کے ساتھ مبعوث ہوئے خوشخبری سناتے، ڈر سناتے، چمکادینے والے چراغ جس کی روشن نے مشرقوں اور مغربوں کو بھر دیا، اس کا نور دور و نزدیک والوں کو عام ہے۔ اور ابوطالب اس کی بارگاہ کے قریب کے باوجود اس کی بارگاہ قرب سے محروم رہے۔ چنانچہ تیری ہی حجت بلند ہے۔ محمد مصطفٰی آپ کی آل، آپ کے اصحاب، آپ کے اہلِ خانہ اور آپ کی جماعت پر ایسا پڑھنے والا درود نازل فرما جو تجھے بھی پسند ہو اور انہیں بھی پسند ہو جو درود پڑھنے والے کو ہلاکت سے بچائے اور برکت و سلام نازل فرما ہمیشہ کے لیے ۔ اور ہر حمد ہمیشہ ہمیشہ اﷲ ہی کے لیے ہے۔ اے بہترین رحم فرمانے والے! ہماری دُعا کو قبول فرما(ت)

اس میں شک نہیں کہ ابوطالب تمام عمر حضور سیّد المرسلین سیّدالاولین و الاخرین سیدالابرار صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی آل وسلم الٰی یوم القرار کی حفظ و حمایت و کفایت و نصرت میں مصروف رہے ۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا، اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالم حضور کا دشمنِ جاں ہوگیا تھا، اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزون قریبیوں سے مخالفت گوارا کی، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامرعی نہ رکھا، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اﷲ کے سچے رسول ہیں، ان پر ایمان لانے میں جنت ابدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں قصائدان سے منقول ، اور اُن میں براہ فراست وہ امور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے۔ بعد بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعہ احادیث و مراجعتِ کُتب سیر سے ظاہر، ایک شعر ان کے قصیدے کا صحیح بخاری شریف میں بھی مروی :

وابیض یستسقی الغمام بوجھہ ثمال الیتامٰی عصمۃ للارامل ۱ ؂۔ ( وہ گورے رنگ والے جن کے رُوئے روشن کے توسّل سے مینہ برستا ہے، یتیموں کے جائے پناہ بیواؤں کے نگہبان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ت)

(۱؂صحیح البخاری ابواب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳۷)

محمد بن اسحٰق تابعی صاحبِ سیر و مغازی نے یہ قصیدہ بتما مہما نقل کیا جس میں ایک سو ۱۱۰ دس بیتیں مدحِ جلیل و نعتِ منیع پر مشتمل ہیں۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ، شرح صراطِ مستقیم میں اس قی صدہ کی نسبت فرماتے ہیں :دلالت صریح داروبرکمال محبت ونہایت نبوت او، انتہی۲ ؂۔یہ قصیدہ ابوطالب کی رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت اور آپ کی نبوت کی انتہائی معرفت پر دلالت کرتا ہے۔(ت)

(۲؂ شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

مگر مجردان امور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالتِ اسلام میں صادر ہوتے تو سیّدنا عباس بلکہ ظاہراً سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاعمام حضور افضل الانام علیہ وعلٰی آلہ وافضل الصلوۃ والسلام کہلائے جاتے ۔ تقدیر الہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایافاعتبروایا اولی الابصار۳ ؂۔ (تو عبر ت لو اے نگاہ والو! ت)

(۳؂۔ القرآن الکریم ۵۹/ ۲ )

صرف معرفت گو کیسی ہی کمال کے ساتھ ہوا یمان نہیں، دانستن و شناختن اور چیز ہے اور اذعان و گرویدن اور، کم کافر تھے جنہیں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین نہ تھا۔جحدوا بھا واستیقنتہا انفسھم ۴ ؂ ( اور ان کے منکر ہوئے اور ان کے دلوں میں ان کا یقین تھا ۔ ت)

( ۴ ؂۔ القرآن الکریم ۲۷ /۱۴)

اور علمائے اہلِ کتاب تو عموماً جزمِ کلی رکھتے تھے حتی کہ یہ امران کے نزدیک کالعیان سے بھی زائد تھا معائنہ میں ب صر غلطی بھی کرتی ہے اور یہاں کسی طرح کا شبہ و احتمال نہ تھا۔قال جل وعلا (اﷲ جل وعلا نے فرمایا) :یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم۱؂۔وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔(ت)

( ۱ ؂۔ القرآن الکریم ۲ /۱۴۶)

وقال عزمن قائل :فلما جاء ھم ما عرفوا کفر وا بہ فلعنۃ اﷲ علی الکفرین۲ ؂۔تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس کے منکر ہو بیٹھے تو اﷲ کی لعنت منکروں پر ۔(ت)

وقال جل ذکرہ :یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورٰۃ والانجیل۳؂۔لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں۔ (ت)

( ۲ ؂۔ القرآن الکریم ۲ /۸۹)
( ۳ ؂۔ القرآن الکریم ۷ /۱۵۷)

بعض کو رچشم بدباطن وہابیہ عصر کہ اس میں کلام کرتے اور کہتے ہیں اگر اہل کتاب کے یہاں حضور کا ذکر رسالت ہوتا تو ایمان کیوں نہ لاتے۔ نصوص قاطعہ سے انکار اور خدا و رسول کی تکذیب اور یہودی و نصارٰی کی حمایت و تصدیق کرنے والے ہیں۔اعوذ باﷲ من وسواس الشیطان ( میں شیطان کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ت)

شرح عقائد نفسی میں ہے :لیست حقیقۃ التصدیق ان تقع فی القلب نسبۃ الصدق الی الخبر والمخبر من غیراذعان وقبول بل ھو اذعان وقبول لذٰلک بحیث یقع علیہ اسم التسلیم علی ماصرح بہ الامام الغزالی۳ ۔

حقیقت تصدیق یہ نہیں کہ دل میں خبر یا مخبر کی سچائی کی نسبت واقع ہوجائے بغیر اذعان وقبول کے ، بلکہ وہ تو اذعان اور اس طرح قبول کرنا ہے کہ اس پر اسمِ تسلیم واقع ہو۔ جیسا کہ امام غزالی علیہ الرحمہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔(ت)

( ۴ ؂۔ شرح عقائد النسفی والایمان فی اللغۃ التصدیق دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان ص ۸۹)

اسی میں ہے :بعض القدریۃ ذھب الی ان الایمان ھوالمعرفۃ واطبق علماؤنا علٰی فسادہ لان اھل الکتاب کانوا یعرفون نبوۃ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کما کانوا یعرفون ابناء ھم مع القطع بکفرھم لعدم التصدیق ولان من الکفار من کان یعرف الحق یقینا وانما کان ینکرعناداً اواستکباراً قال اﷲ تعالٰی وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ۱؂۔

بعض قدریہ اس طرف گئے ہیں کہ ایمان فقط معرفت کو کہتے ہیں، اور ہمارے علماء کا اس قول کے فساد پر اجماع ہے ، کیونکہ اہل کتاب محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نبوت کوایسے پہچانتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے ، اس معرفت کے باوجود ان کا کفر قطعی ہے کیونکہ وہاں تصدیق نہیں پائی گی ، اور اس لئے بھی کہ بعض کافر یقینی طور پر حق کو پہچانتے تھے اور محض عنادوتکبر کی وجہ سے انکار کرتے تھے ، اللہ تعالی نے فرمایا؛ حالانکہ ان کےمنکر ہوئے اور ان کے دلوں میں ان کا یقین تھا (ت)

( ۱ ؂ شرح عقائد النسفی والایمان لایزید ولا ینقص دارالاشاعت العربیہ قندھار افغانستان ص ۹۳ و ۹۴)

التلفظ بکلمتی الشھادتین مع القدرۃ علیہ شرط فمن اخل بہ فھو کافر مخلد فی النار ولا تنفعہ المعرفۃ القلبیۃ من غیر اذعان وقبول فان من الکفار من کان یعرف الحق یقینا وکان انکارہ عنادا واستکبارا کما قال اللہ تعالی جحدوا بھا واستیقنتھاانفسھم ظلما و علوا ۲ ؂۔

شہادت ( توحید و رسالت کی شہادت) کے دو کلموں کے ساتھ تلفظ کرنا جب کہ اس پر قادر ہو ایمان کی شرط ہے، تو جس نے اس میں کوتاہی کی تو وہ کافر ہے اور دائمی طور پر جہنم میں رہنے والا ہے، ا ور اذعان و قبول کے بغیر معرفتِ قلبی اس کو نفع نہیں دے گی۔ کیونکہ بعض کافر ایسے ہیں جو یقینی طور پر حق کو پہچانتے تھے۔ ان کا انکار عناد و تکبر کی وجہ سے تھا۔ جیسا کہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا اور ان کے منکر ہوئے حالانکہ ان کے دلوں میں ان کا یقین تھا ظلم اور تکبر کی وجہ سے۔ (ت)

( ۲ ؂ الدوانی العقائد العضدیۃ والکفر عدم الایمان مطبع مجتبائی دہلی ص ۱۰۱)

آیاتِ قرآنیہ و احادیثِ صحیحہ متوافرہ متظافرہ سے ابوطالب کا کفر پر مرنا اور دم واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کا ر اصحاب نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں، ہم یہاں کلام کو سات فصل پر منقسم کریں۔

فصل اوّل ۔۔۔۔۔۔ آیاتِ قرآنیہ

آیتِ اُولٰی : قال اﷲ تبارک و تعالٰی ( اﷲ تبارک و تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :انک لاتھدی من احببت ولکن اﷲ یھدی من یشاء وھو اعلم بالمھتدین۱ ؂۔اے نبی ! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو ہاں خدا ہدایت دیتا ہے جسے چاہے وہ خوب جانتا ہے جو راہ پانے والے ہیں۔

( ۱ ؂۔ القرآن الکریم ۲۸ /۵۶)

مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیہ کریمہ ابوطالب کے حق میں نازل ہوئی۔
معالم التنزیل میں ہے :نزلت فی ابی طالب ۲ ۔ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی۔(ت)

(۲ ؂۔ معالم التنزیل (تفسیر البغوی)تحت آیۃ ۲۸ /۵۶ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۳۸۷)

جلالین میں ہے : نزل فی حرصہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علٰی ایمان عمّہ ا بی طالب۳ ؂۔یہ آیت حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آپ کے چچا ابو طالب کے ایمان لانے کی حر ص میں نازل ہوئی۔(ت)

( ۳ ؂۔ تفسیر جلالین (تفسیرالبغوی) تحت آیۃ ۲۸/ ۵۶ اصح المطابع دہلی ص۳۳۲)

مدارک التنزیل میں ہے :قال الزجاج اجمع المفسرون انھا نزلت فی ابی طالب۴ ؂۔زجاج نے کہا کہ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ ابی طالب کے حق میں نازل ہوئی۔(ت)

( ۴ ؂۔ مدارک التنزیل(تفسیرالنسفی ) تحت آیۃ ۲۸ /۵۶ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۲۴۰)

کشاف زمحشری و تفسیر کبیر میں ہے :قال الزجاج اجمع المسلمون انھا نزلت فی ابی طالب۱ ؂۔زجاج نے کہا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ ابی طالب کے حق میں نازل ہوئی۔(ت)

(۱؂ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت آیۃ ۲۸ /۵۶ المطبعۃ البہیۃ مصر ۲۵/۲)
(تفسیر الکشاف تحت آیۃ ۲۸ /۵۶ دار الکتاب العربی بیروت ۳/ ۴۲۲)

امام نووی شرح صحیح مسلم شریف کتاب الایمان میں فرماتے ہیں :اجمع المفسرو ن علی انما نزلت فی ابی طالب و کذا نقل اجماعھم علی ھذا الزجاج وغیرہ۔۲؂مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی اور جیساکہ زجاج وغیرہ نے اس پر ان کا اجماع نقل کیا ہے (ت)

(۲؂ شرح صحیح مسلم للامام النووی کتاب الایمان باب الدلیل علی صحۃ الاسلام الخ قدیمی کتب خانہ کرچی ۱/ ۴۱)

مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں ہے :لقولہ تعالی فی حقہ باتفاق المفسرین انک لا تھدی من احببت ۳؂۔اللہ تعالی کے اس ارشاد کی وجہ سے جو باتفاق مفسرین اس (ابو طالب) کے بارے میں ہے : اے نبی ! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو ( ت)

(۳؂مرقاۃ المفاتیح کتاب الفتن باب صفۃ النار و اھلھا تحت حدیث ۵۶۶۸ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۹/ ۶۴۰ )

حدیث اول : صحیح حدیث میں اس آیہ کریمہ کا سبب نزول یوں مذکور کہ جب حضور اقدس سید المر سلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ابو طالب سے مرتے وقت کلمہ پڑھنے کو ارشاد فرمایا، صاف انکار کیا اور کھا مجھے قریش عیب لگائیں گے کہ موت کی سختی سے گھبراکر مسلمان ہوگیا ورنہ حضور کی خوشی کردیتا ۔ اس پر رب العزت تبارک و تعالی نے یہ آیت کریمہ اتاری یعنی اے حبیب تم اس کا غم نہ کرو تم اپنا منصب تبلیغ ادا کرچکے ہدایت دینا اور دل میں نور ایمان پیدا کرنا یہ تمھارا فعل نہیں اللہ عزوجل کے اختیار میں ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ کسے یہ دولت دے گا کسے محروم رکھے گا۔

صحیح مسلم شریف کتاب الایمان وجامع ترمذی کتاب التفسیر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ مروی: قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لعمہ (زاد مسلم فی اخری عند الموت ) قل لا الہ الا اللہ اشھد لک بھا یوم القیٰمۃ قال لولا ان تعیرنی قریش یقولون انما حملہ علی ذلک الجزع لاقررت بھا عینک فانزل اللہ عزوجل انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء ۱؂۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ نے اپنے چچا سے فرمایا (مسلم نے دوسری روایت میں یہ اضافہ کیا کہ بوقت موت فرمایا) لاالہ الا اللہ کہہ دو میں تیرے لئے قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا۔ اس نے جواب دیا : اگر یہ بات نہ ہوئی کہ قریش مجھے عار دلائیں گے کہ موت کی شدت کے باعث مسلمان ہوگیا تو میں آپ کی آنکھ ٹھنڈی کردیتا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ : اے نبی ! "تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو، ہاں خدا ہدایت دیتاہے جسے چاہے "۔(ت)

(۱؂ صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی صحۃ الاسلام الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۰)
(جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ القصص امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۵۰)

معالم ومدارک وبیضاوی وارشاد العقل السلیم وخازن و فتوحات الہیہ وغیرھا تفاسیر میں اسی حدیث کا حاصل اس آیت کے نیچے ذکر کیا۔

آیت ثانیہ : قال جل جلالہ ( اللہ جل جلالہ نے فرمایا) : ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولوکانوا اولی قربی من بعد ما تبین لھم انھم اصحٰب الجحیم۔ ۲؂۔روا نہیں نبی اور ایمان والوں کو کہ استغفار کریں مشرکوں کے لئے اگرچہ وہ اپنے قرا بت والے ہوں بعد اس کے کہ ان پر ظاہر ہوچکا کہ وہ بھڑکتی آگ میں جانیوالے ہیں۔

(۲؂القرآن الکریم ۹/ ۱۱۳)

یہ آیت کریمہ بھی ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی۔تفسیر امام نسفی میں ہے :ھم علیہ الصلوۃ والسلام ان یستغفر لابی طالب فنزل ماکان للنبی ۳؂۔ ( ۳؂۔ مدارک التنزیل(تفسیرالنسفی ) تحت آیۃ۹ /۱۱۳ دارالکتاب العربی بیروت ۲ /۱۴۸)

جلالین میں ہے :نزل فی استغفارہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لعمہ ابی طالب۱ ؂۔یہ آیت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اپنے چچا ابو طالب کے لیے استغفار کرنے کے بارے میں نازل ہوئی۔(ت)

امام عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں :قال الواحدی سمعت ابا عثمان الحیری سمعت ابا الحسن بن مقسم سمعت ابا اسحق الزجاج یقول فی ھذہ الایۃ اجمع المفسرون انھا نزلت فی ابی طالب۲ ؂۔یعنی واحدی نے اپنی تفسیر میں بسند خود ابواسحاق زجاج سے روایت کی کہ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت ابوطالب کے حق میں اُتری ۔

اقول : ھکذااثرہ ھٰھنا والمعروف من الزجاج قولہ ھٰذا فی الایۃ الاولٰی کما سمعت والمذکور ھٰھنا فی المعالم وغیرھا فلیراجع تفسیر الواحدی فلعلہ اراد اتفاق الاکثر ین و لم یلق للخلاف بالالکونہ خلاف ماثبت فی الصحیح۔

میں کہتا ہوں یہاں تو وہ ایسا ہی منقول ہے حالانکہ زجاج کا یہ قول پہلی آیت کے بارے میں معروف ہے جیسا کہ تو سُن چکا ہے، اور معالم وغیرہ میں اس مقام پر مذکور ہے کہ آیت کے سبب نزول میں اختلاف ہے چنانچہ تفسیر واحدی کی طرف مراجعت کی جائے ہوسکتا ہے کہ اُس کی مراد اکثر مفسرین کا اتفاق ہو اور اس نے مخالفت کی اس بنیاد پر کوئی پروانہ کی ہو کہ اس کے مخالف ہے جو صحیح میں ثابت ہوچکا ہے۔(ت)
بیضاوی میں پہلا قول اس آیت کا نزول دربارہ ابی طالب لکھا۔

علامہ شہاب خفا جی اُس کی شرح عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی میں فرماتے ہیں:ھوالصحیح فی سبب النزول۳ ؂۔یعنی یہی صحیح ہے۔

( ۱ ؂۔ تفسیر جلالین تحت آیۃ ۹ /۱۱۳ اصح المطابع دہلی ص ۱۶۷)
( ۲ ؂۔ عمدۃ القاری کتاب الجنائز تحت حدیث ۱۳۶۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۷/ ۲۶۲)
( ۳ ؂۔ عنایۃ القاضی حاشیۃ الشہاب علٰی تفسیر البیضاوی تحت الایۃ ۹ /۱۱۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۴ /۶۴۸)

اسی طرح اس کی تصحیح فتوح الغیب و ارشاد الساری میں کی ہے اور فرمایا یہی حق ہے ۔ کما سیأتی وھٰذہ التصحیحات ایضاً اٰیۃ الخلاف کما لیس بخاف ۔(جیسا کہ عنقریب آئے گا اور یہ تصحیحیں بھی مخالفت کی علامت میں جیسا کہ پوشیدہ نہیں ۔ت)

حدیث دوم : صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن نسائی میں ہے :واللفظ محمد قال حدثنا محمود فذکر بسندہ عن سعید بن المسیب عن ابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ان اباطالب لما حضرتہ الوفاۃ دخل علیہا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و عندہ ابوجہل فقال ای عم قال لا الہٰ الا اللہ کلمۃ احاج لک بہا عند اﷲ فقال ابوجہل وعبداﷲ بن امیّۃ یا اباطالب اترغب عن ملّۃ عبدالمطلب فلم یزالا یکلمانہ حتی قال اخرشیئ کلمھم بہ علی ملۃ عبدالمطلب (زادالبخاری فی الجنائز و تفسیر سورۃ القص ص کمثل مسلم فی الایمان وابی ان یقول لا الٰہ الا اﷲ) فقال النبی صلی اللہ عالٰی علیہ وسلم لا ستغفرن لک مالم انہ عنہ، فنزلت ماکان للنبی والذین اٰمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولوا اولی قربٰی من بعد ماتبین لھم انہم اصحب الجحیم ، ونزلت انک لاتھدی من احببت ۱؂۔

اور لفظ محمد کے ہیں، انہوں نے کہا ہم کو حدیث بیان کی محمود نے، پھر اپنی سند کے ساتھ سعید بن مسیب سے اور انہوں نے اپنے باپ سے ذکر کیا۔ رضی ا للہ تعالٰی عنہما ، کہ ابو طالب جب قریب الموت ہوئے تو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے جب کہ ابوجہل اور عبداللہ بن امیّہ وہاں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا اے چچا کلمہ طیبہ لا الہٰ الا اﷲ پڑ ھ لو میں اس کے ذریعے تمہارے لیے جھگڑا کروں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے اعراض کرلو گے؟ وہ دونوں مسلسل ابوطالب سے یہی بات کہتے رہے ، یہاں تک کہ ابوطالب نے جو آخری بات انہیں کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ (امام بخاری نے جنائز اور سورہ قص ص کی تفسیر میں یہ اضافہ کیا جیسا کہ امام مسلم نے کتاب الایمان میں کیا ہے کہ ابو طالب نے لا الہٰ اﷲ کہنے سے انکار کردیا) تو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا میں تیرے لیے ضرور استغفار کروں گا۔، چنانچہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی روا نہیں نبی اور ایمان والوں کو کہ استغفار کریں مشرکوں کے لیے اگرچہ وہ اپنے قرابت والے ہوں بعد اس کے کہ ان پر ظاہر ہوچکا کہ وہ بھڑکتی آگ میں جائیں گے ۔ اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ اے نبی ! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو۔ (ت)

( ۱ ؂صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذاقال المشرک عندالموت لا الہٰ الا اﷲ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۸۱)
( صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)
(صحیح البخاری کتاب التفسیرسورۃ البراء ۃ باب ماکان للنبی والذین اٰمنوا لخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۶۷۵)
(صحیح البخاری کتاب التفسیرسورۃ القصص باب قولہ تعالٰی انک لاتہدی من احببت قدیمی کتب خانہ ۲ /۷۰۳)
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان باب الدلیل علی صحۃ الاسلام من حضر الموت قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰)
(سنن النسائی کتاب الجنائز النہی عن الاستغفار للمشرکین نور محمد کارخانہ تجارت کراچی ۱ /۲۸۶)

اس حدیث جلیل سے واضح کہ ابو طالب نے وقتِ مرگ کلمہ طیبہ سے صاف انکار کردیا اور ابوجہل لعین کے اغوا سے حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد قبول نہ کیا۔ حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس پر بھی وعدہ فرمایا کہ جب تک اﷲ عزوجل مجھے منع نہ فرمائے گا میں تیرے لیے استغفار کروں گا۔ مولٰی سبحنہ و تعالٰی نے یہ دونوں آیتیں اتاریں اور اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ابوطالب کے لیے استغفار سے منع کیا اور صاف ارشاد فرمایا کہ مشرکوں دوزخیوں کے لیے استغفار جائز نہیں۔

نسأل اﷲالعفو والعافیۃ، اماتزییف الزمخشری نزول الایۃ فیہ بان موت ابی طالب کان قبل الھجرۃ و ھذااٰخر مانزل بالمدینۃ ۲؂اھ فمردود بما فی ارشاد الساری عن الطیبی عن التقریب انہ یجوزان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان یستغفر لا بی طالب الٰی حین نزولہا والتشدید مع الکفار انما ظہرفی ھذہ السورۃ۳ ؂اھ، قال اعنی القسطلانی قال فی فتوح الغیب وھذاھوالحق وروایۃ نزولہا فی ابی طالب ھی الصحیحۃ ۱؂ اھ وکذاردہ الامام الرازی فی الکبیر وقال العلامۃ الخفاجی فی عنایۃ القاضی بعد نقل کلام التقریب اعتمدہ من بعدہ، من الشراح ولاینا فیہ قولہ فی الحدیث فنزلت لامتداداستغفار ہ لہ الی نزدلھا اولان الفاء للسببیۃ بدون تعقیب ۲؂ اھ۔

ترجمہ ہم اللہ تعالٰی سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ، رہا زمخشری کا ابو طالب کے بارے میں اس آیت کے نزول کو اس بنیاد پر ضعیف قراردینا کہ ابو طالب کی موت ہجرت سے پہلے ہوئی،جبکہ یہ آیت کریمہ آخری مرحلہ پر مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ، تو وہ مردود ہے اس دلیل کی وجہ سے جو ارشاد الساری میں طیبی سے بحوالہ تقریب مذکور ہے کہ ہوسکتا ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی وسلم اس آیت کےنزول تک ابو طالب کے لئے استغفار کرتے رہے ہوں ۔کافروں کے ساتھ شدت پسندی تو اس سورۃمیں ظاہر ہوئی ہے ۔ اھ امام قسطلانی نے فرمایا کہ فتوح الغیب میں ہے کہ یہی حق ہے اور اس کے ابوطالب کے بارے میں نزول والی روایت ہی صحیح ہے اھ امام رازی نے تفسیر کبیر میں یونہی زمخشری کا رد کیا ہے، اور علامہ خفا جی نے عنایۃ القاضی میں تقریب کا کلام نقل کرنے کے بعد کہا کہ بعد والے تمام شارحین نے اس پر اعتماد کیا ہے اور یہ حدیث میں وارد راوی کے قول فنزلت کے منافی نہیں اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نزول آیتِ تک ابوطالب کے لیے استغفار میں استمرار فرمایا یا اس لیے کہ فاء سببیت کے لیے ہے نہ کہ تعقیب کے لیے ا ھ (ت)

( ۲ ؂۔ الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل تحت آیۃ ۹ /۱۱۳ مکتبۃ الاعلام الاسلامی فی الحورۃ العلمیۃ قم ایران ۲ /۳۱۵)
( ۳ ؂ و ۱؂ ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ توبہ دارالکتاب العربیۃ بیروت ۷ /۱۵۸)
( ۲؂ عنایۃ القاضی حاشیۃ الشھاب علی تفسیر البیضاوی تحت آیۃ ۹/ ۱۱۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴ /۶۴۸)

اقول : والدلیل علی الاستمرار واستدامۃ الاستغفار قول سیدالابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لا ستغفرن لک مالم انہ عنہ ۳؂ فھذا مقام الجزم دون التجویز والاستظہار، علا ان الامام الجلیل الجلال السیوطی فی کتاب الاتقان ۴؂عقد فصلالبیان مانزل من اٰیات السور المکیۃ بالمدینۃ وبالعکس وذکر فیہ عن بعضھم ان اٰیۃ ماکان للنبی اٰیۃ مکیۃ نزلت فی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لا بی طالب لا ستغفرن لک مالم انہ عنہ واقرہ ۱؂ علیہ فعلی ھذا یزھق الاشکال من راسہ ثم ان لفظ البخاری فی کتاب التفسیر فانزل اﷲ بعد ذلک قال الحافظ فی فتح الباری الظاھر نزولہا بعدہ بمدۃ الروایۃ التفسیر ۲؂ ا ھ وھذاایضا یطیع الشبھۃ من راسھا افادھٰذین العلامۃ الزرقانی فی شرح المواہب وبعد اللتیا والتی اذقدافصح الحدیث الصحیح بنزولہا فیہ فکیف ترد الصحاح بالھوسات ۔

میں کہتا ہوں کہ استغفار کے استمرار و دوام پر دلیل سید الابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ میں تیرے لیے ضرور استغفار کروں گا جب تک مجھے منع نہ کیا گیا۔ لہذا یہ مقام جزم ہے نہ کہ مقام تجویز و تائید ، علاوہ ازیں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے کتاب الاتقان میں یہ بیان کرنے کے لیے ایک فصل قائم فرمائی ہے کہ مکی سورتوں کی کون سی آیات مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور اس کے برعکس ( یعنی مدنی سورتوں کی کون سی آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہیں) اور اس میں بعض مفسرین کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ آیتِ کریمہ ماکان للنبی مکی ہے اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں نازل ہوئی جو آپ نے ابو طالب سے فرمایا کہ جب تک مجھے منع نہ کیا گیا میں تیرے لیے استغفار کروں گا اور امام سیوطی نے اس کو برقرار رکھا اس بنیاد پر تو اشکال سرے سے ہی دفع ہوجائے گا ، ۔ پھر کتاب التفسیر میں بخاری کے لفظ یہ ہیں کہ اس کے بعد اﷲ تعالٰی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، حافظ نے فتح الباری میں کہا روایت تفسیر کی بنیاد پر ظاہر یہ ہے کہ اس کا نزول سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشادِ مذکور سے کچھ مدت کے بعد ہوا ا ھ یہ بھی سرے سے شبہہ کا ازالہ کردیتا ہے ، علامہ زرقانی نے شرح مواہب میں ان دونوں کا افادہ فرمایا ، اس لمبی اور مختصر گفتگو کے بعد جب حدیث صحیح نے ابوطالب کے بارے میں نزول آیت کی تصریح کردی تو خواہشات کے ساتھ صحیح حدیثوں کو کیسے رَد کیا جاسکتا ہے۔(ت)

(۳؂ صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصہ ابی طالب ۱ /۵۴۸ و سورۃ التوبۃ ۲/ ۶۷۵ وسورۃ القصص ۲/ ۷۰۳ )
( صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی صحۃ الاسلام من حضر الموت الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰)
(۴؂ الاتقان فی علوم القرآن فصل فی ذکر ما استثنی من المکی والمدنی دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۷۳)
(۱؂ ۲؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ ذکر وفاۃ خدیجۃ وابی طالب دارالمعرفہ بیروت ۱/ ۲۹۳)

آیت ثالثہ : قال عزّ مجدہ ( اﷲ عزّمجدہ نے فرمایا ۔ت):وھم ینھون عنہ وینأون عنہ وان یھلکون الا انفسھم و مایشعرون ۱ ؂۔وہ اس نبی سے اوروں کو روکتے اور باز رکھتے ہیں اور خود اس پر ایمان لانے سے بچتے اور دور رہتے ہیں اور اس کے باعث وہ خود اپنی ہی جانوں کو ہلاک کرتے ہیں اور انہیں شعور نہیں۔

( ۱ ؂۔ القرآن الکریم ۶ / ۲۶)

یعنی جان بوجھ کر جو بے شعوروں کے سے کام کرے اس سے بڑھ کر بے شعور کون ،
سلطان المفسرین سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما اور اُن کے تلمیذ رشید سیدنا امام اعظم کے استاد مجید امام عطاء بن ابی رباح و مقاتل وغیرہم مفسرین فرماتے ہیں، یہ آیت ابو طالب کے باب میں اُتری ۔

تفسیر امام بغوی محی السنہ میں ہے :قال ابن عباس و مقاتل نزلت فی ابی طالب کان ینہی الناس عن اذی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ویمنعھم وینأی عن الایمان بہ ای یبعد۲ ؂۔ابن عباس و مقاتل نے فرمایا کہ یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی، وہ لوگوں کو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تکلفی دینے سے روکتا تھا اور انہیں منع کرتا تھااور خود حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لانے سے دور رہتا ۔(ت)

( ۲ ؂۔ معالم النتزیل (تفسیر بغوی)تحت آیۃ ۶/ ۲۶ دارالکتب بیروت ۲ /۷۵)

انوارالتنزیل میں ہے :ینھون عن التعرض الرسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وینأون عنہ فلا یؤمنون بہ کابی طالب ۳ ؂۔ وہ لوگوں کو رسول پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تعاقب کرنے سے روکتے اور خود آپ سے دور رہتے چنانچہ آپ پر ایمان نہیں لاتے جیسے ابوطالب (ت)

( ۳ ؂۔ انوار التنزیل (تفسیر البیضاوی ) تحت آیۃ ۶/ ۲۶ دارالفکر بیروت ۲ /۴۰۱)

حدیث سوم : فریابی اور عبدالرزاق اپنے مصنف اور سعید بن منصور سنن میں اور عبد بن حمید اور ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم و طبرانی وا بوا لشیخ وابن مردویہ اور حاکم مستدرک میں بافادہ تصحیح اور بہیقی دلائل النبوۃ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کی تفسیر میں راوی :قال نزلت فی ابی طالب کان ینھٰی عن المشرکین ان یؤذوا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یتباعد عما جاء بہ ۱ ؂۔

یعنی یہ آیت ابوطالب کے بارے میں اُتری کہ وہ کافروں خو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایذا سے منع کرتے باز رکھتے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لانے سے دور رہتے۔

( ۱ ؂ الدرالمنثور بحوالہ الفریابی و عبدالرزاق وغیرہ تحت آلایۃ ۶ /۲۶ داراحیاء التراث العربی ۳ /۲۳۷)
(جامع البیان ( تفسیر طبری) تحت آیۃ ۶ /۲۶ داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۲۰۲)
(دلائل النبوۃ للبیھقی جماع ابواب المبعث باب وفاۃ ابی طالب ، دارالکتب العلمیہ بیروت۲ /۳۴۰)
(تفسیر ابن ابی حاتم تحت آیہ ۶/ ۲۶ مکتبہ نزار مصطفٰی البازمکہ مکرمہ ریاض ۴ /۱۲۷۷)

قال فی مفاتیح الغیب فیہ قولان منھم من قال المراد انھم ینھون عن التصدیق نبوتہ والاقرار برسالتہ وقال عطاء ومقاتل نزلت فی ابی طالب کان ینھی قریشا عن ایذاء النبی علیہ الصلوۃ والسلام ثم یتباعد عنہ ولا یتبعہ علی دینہ، و القول الاول اشبہ لوجہین الاول ان جمیع الایات المتقدمۃ علی ھٰذہ الایۃ تقتضی ذم طریقتھم فلذلک قولہ وھم ینہون عنہ ینبغی ان یکون محمولا علی امر مذموم فلوحملناہ علی ان ابا طالب کان ینھٰی عن ایذاءہ لما ح صل ھذاالنظم، والثانی انہ تعالٰی قال بعد ذلک "وان یہلکون الا انفسھم" یعنی بہ ما تقدم ذکرہ ولا یلیق ذلک ان یکون المراد من قولہ "وھم ینہون عنہ" النھی عن اذیتہ لانّ ذلک حسن لایوجب الھلاک ۱؂۱ھ۔

مفاتیح الغیب میں فرمایا اس میں دو قول ہیں ان میں سے بعض نے کہا مراد یہ ہے کہ وہ حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق اور آپ کی رسالت کے اقرار سے روکتے ہیں جب کہ عطاء اور مقاتل نے کہا کہ وہ یہ آیت کریمہ ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی وہ قریش کو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے روکتے تھے پھر خود آپ سے دور رہتے اور دین میں آپ کی اتباع نہیں کرتے تھے، قولِ اوّل دو وجہ سےزیادہ مناسب ہے۔ وجہ اوّل : یہ ہے کہ اس آیۃ کریمہ سے ماقبل والٰی تمام آیتِ قریش کے طریقہ کی مذمت کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ اﷲ تعالٰی کا قول وھم ینہون عنہ( یعنی وہ اس سے روکتے ہیں) بھی امر مذموم پر محمول ہونا چاہیے اگر ہم اس کو اس معنی پر محمول کریں کہ ابو طالب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایذا رسانی سے روکتے تھے تو یہ نظم مذکور حاصل نہ ہوگا۔ وجہ ثانی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کے بعد فرمایا ہے کہ وہ خود اپنی ہی جانوں کو ہلاک کرتے ہیں۔اس سے مراد وہی ہے جس کا پہلا ذکر ہوچکا ہے ۔ اور یہ مناسب نہیں کہ اللہ تعالٰی کے ارشاد "اور وہ اس سے روکتے ہیں " سے مراد نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایذاء رسانی سے روکنا ہو اس لیے کہ یہ تو حسن ہے جو موجبِ ہلاکت نہیں ہوتا اھ (ت)

( ۱ ؂ مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر) تحت آلایۃ ۶ /۲۶ المطبعۃ البہیۃ مصر ۱۲/ ۱۷۹)

اقول : اصل الذم النسائی وقد تشدد بالنھی فان الذنب بعد العلم اشد منہ حین الجہل فذکر النھی لا بانۃ شدۃ ما یلحقہ من الذم فی ذلک و عظمۃ ما یعتریہ من الوزر فیما ھنالک فان العلم حجۃ اﷲ مالک وعلیک الا تری الٰی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی ابی طالب ولو لا انا لکان فی الدرک الا سفل من النار۲ ؂کما سیأتی مع ما علم من حمایتہ وکفالتہ ونصرتہ ومحبتہ للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم طول عمرہ فانما کادیکون فی الدرک الاسفل لولا شفاعۃ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما ابی الایمان مع کما العرفان فالایۃ" علی وزان قولہ تعالیاتامرون الناس بالبروتنسون انفسکم و انتم تتلون الکتب افلا تعقلون ۱ ؂"۔

میں کہتا ہوں اصل مذمت تو نأی یعنی دور رہنے کی وجہ سے ہے جونہی کے سبب سے شدید ہوگئی، کیونکہ علم کے بعد گناہ اس گناہ سے زیادہ شدید ہوجاتا ہے جو زمانہ جہالت میں کیا گیا ہو۔ چنانچہ نہی کا یہاں ذکر اس شدت و عظمت کے اظہار کے لیے جو اس سے ملحق گناہ اور بوجھ سے متعلق ہوتی ہے کیونکہ علم اﷲ۱ تعالٰی کی حجرت ہے تیرے حق میں اور تیرے خلاف کیا تو ابو طالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نہیں دیکھا دیکھا کہ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتا۔ جیسا کہ عنقریب آئے گا ابوطالب کی طرف سے تمام عمر نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت نہ ہوتی تو ابوطالب جنہم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے کیونکہ کمال معرفت کے باوجود نے انہوں سے انکار کیا۔ چنانچہ آیت مذکورہ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کی طرف پر ہے کہ کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنے جان کوکو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔

(۲؂صحیح البخاری مناقب الانصار باب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)
( صحیح مسلم باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵)
(۱؂القرآن الکریم ۲/ ۴۴)

فذکر فی سیاق الذم امرھم بالبر وتلاوتھم الکتاب وانما القصد الٰی وتلاوتھم الکتاب وانما القصد الٰی نسیانھم انفسھم وذکرھٰذین للتسجیل بل قال جل ذکرہ :یا ایھا الذین امنوا لم تقولون ما لا تفعلون کبر مقتاعند اﷲ ان تقولوا ما لاتفعلون۲؂۔فشدد النکیر علی القول من دون عمل وان کان القول خیرا فی نفسہ قال فی معالم التنزیل : قال المفسرون ان المؤمنین قالو ا لونعلم ای الاعمال احب الی اﷲ عزوجل لعملناہ ولبذلنافیہ اموالنا وانفسنا فانزل عزوجل ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفافابتلوا بذلک یوم احد فولوا مدبرین فانزل اﷲ تعالٰی : لم تقولون ما لا تفعلون ۳ ؂۔ اھ وبہ ینحل الوجہان لمن انصف لاجرم ان قال الخفاء جی فی العنایۃ بعد نقلہ کلام الامام فیہ نظر اھ۱؂۔ بالجملۃ فعطاء اعلم منا ومنکم باسالیب القرآن ونظمہ فضلا عن ھذا الحبرالعظیم الذی قد فاق اکثر الامۃ فی علم القرآن وفھمہ واﷲ تعالٰی اعلم۔

ان کے نیکی کا حکم دینے اور کتاب پڑھنے کو مذمت کے سیاق میں ذکر کیا۔ مقصود تو ان کا اپنی جانوں کو بھلانا ہے اور ان دونوں باتوں کا ذکر بطور تمہید ہے بلکہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا : اے ایمان والو ! کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے۔ کیسی سخت ناپسند ہے اﷲ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔ تو یہاں پر قول بلا عمل پر ستخ نفرت کا اظہار فرمایا اگرچہ فی نفسہ قول اچھا ہو۔ معالم التنزیل میں کہا کہ مفسرین نے فرمایا کہ مومنوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہوجائے کہ اﷲ تعالٰی کی بارگاہ میں محبوب ترین عمل کون سا ہے تو ہم اس کو ضرور کریں گے اور اس میں اپنے مال و جان قربان کردیں گے۔ تو اﷲ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ بے شک اﷲ دوست رکھتا ہے انہیں جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں پراباندھ کر پھر غزوہ اُحد میں انہیں اس میں مبتلا کردیا گیا تو پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو اﷲ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ہو۔ اور اس سے منصف کے لیے دونوں وجہیں کھل گئیں۔ علامہ خفا جی نے عنایۃ میں امام کا کلام نقل کرنے کے بعد کہا ۔ اس میں نظر ہے۔ اھ خلاصہ یہ کہ عطاء قرآن مجید کے اسالیب و نظم کو ہم سے اور تم سے زیادہ جاننے والا ہے۔ چہ جائیکہ یہ عظیم عالم متجر جو قرآن مجید کے علم و فہم میں اکثر امت پر فوقیت رکھتا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم ۶۱/ ۲ و۳) (۳؂معالم التنزیل (تفسیر بغوی) تحت آیۃ ۶۱/ ۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/ ۳۰۷)
( ۱ ؂۔ عنایۃ القاضی حاشیۃ الشہاب علی تفسیر البیضاوی تحت الایۃ ۶ /۲۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت۴ /۶۵)

فصل دوم ۔۔۔۔۔۔ احادیث

حدیث چہارم : صحیحین و مسند امام احمد میں حضرت سیدنا عباس عمِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے۔

انہ قال للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ما اغنیت عن عمک فواﷲ کان یحوطک ویغضب لک قال ھو فی ضحضاح من نارولولا انا لکان فی الدرک الاسفل من النار۲ ؂۔ وفی روایۃ وجدتہ غمرات من النار فاخرجتہ الٰی ضحضاح۳ ؂۔یعنی انہوں نے خدمت ِ اقدس حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کی حضور نے اپنے چچا ابوطالب کو کیا نفع دیا؟ خدا کی قسم وہ حضور کی حمایت کرتا اور حضور کے لیے لوگوں سے لڑتا جھگڑتا تھا۔ فرمایا میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا ہوا پایا تو اُسے کھینچ کر پاؤں تک آگ میں کردیا اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوتا۔

( ۲ ؂۔ صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصۃ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)
( صحیح البخاری کتاب الادب باب کنیۃ المشرک قدیمی کتب خانہ کراچی۲ /۹۱۷)
( صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۱۱۵)
(مسند احمد بن حنبل عن العباس المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۰۷ و ۲۱۰)
( ۳ ؂۔ صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب ۱ /۱۱۵)

امام ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں :یؤید الخصوصیۃ انہ بعد ان امتنع شفع لہ جتی خفف لہ العذاب بالنسبۃ لغیرہ ۱ ؂۔یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خصوصیت سے ہوا کہ ابو طالب نے باآنکہ ایمان لانے سے انکار کیا پھر بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت نے اتنا کام دیا کہ بہ نسبت باقی کافروں کے عذاب ہلکا ہوگیا۔

(۱ ؂ فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ القصص باب قولہ انک لاتہدی مصطفٰی البابی مصر۱۰/ ۱۲۳)

حدیث پنجم : صحیحین و مسند امام احمد میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : ان رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ذکر عندہ عمہ ابوطالب فقال لعلہ تنفعہ شفاعتی یوم القیمۃ فیجعل فی ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغلی منہ دماغہ۲ ؂۔یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے ابو طالب کا ذکر آیا فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ روزِ قیامت میری شِاعت اسے یہ نفع دے گی کہ جہنم میں پاؤں تک کی آگ میں کردیا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک ہوگی جس سے اس کا دماغ جوش مارے گا۔

( ۲ ؂ مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخدر ی المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۵۰)
( صحیح البخاری کتاب مناقب الانصارباب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۴۸)

یونس بکر بکیر نے حدیث محمد بن اسحق سے یوں روایت کیا:یعلی منہ دماغہ حتی یسیل علٰی قدمیہ ۳؂۔اس کا بھیجا اُبل کر پاؤں پر گرے گا۔

( ۳ ؂۔ المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحق ا/۲۶۴ وارشاد الساری بحوالہ ابن اسحق تحت الحدیث ۳۸۸۵ , ۸ /۳۵۱)

عمدۃ القاری وارشاد الساری شروح صحیح بخاری و مواہب الدنیا وغیرہا میں امام سہیلی سے منقول :الحکمۃ فیہ ان اباطالب کان تابعا لرسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لجملتہ الا انہ استمرثابت القدم علٰی دین قومہ فسلط العذاب علٰی قدمیہ خاصۃ لتثبیتہ ایا ھما علی دین قومہ۴ ؂۔یعنی ابو طالب کے پاؤں تک آگ رہنے میں حکمت یہ ہے کہ اللہ عزوجل جزا ہمشکل عمل دیتا ہے ابوطالب کا سارا بدن حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حمایت میں صرف رہا، ملتِ کفر پر ثابت قدمی نے پاؤں پر عذاب مسلط کیا۔

( ۴ ؂۔ عمدۃ القادری شرح صحیح البخاری مناقب الانصار باب قصہ ابی طالب حدیث ۳۸۸۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۷ /۲۴)
(ارشاد الساری بحوالہ السہیلی تحت الحدیث ۳۸۸۵ ، ۸ /۳۵۱ والمواہب اللدنیہ بحوالہ السہیلی ۱ /۲۶۴)

اسی طرح تیسیرشرح جامع صغیر وغیرہ میں ہے۔
حدیث ششم : بزارو ابویعلٰی وابن عدی و تمام حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :قیل للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھل نفعت اباطالب قال اخرجتہ من غمرۃ جھنم الٰی ضحضاح منہا۱ ؂۔یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی گئی حضور نے ابوطالب کو کچھ نفع دیا۔ فرمایا میں نے اسے دوزخ کے غرق سے پاؤں کی آگ میں کھینچ لیا۔

( ۱ ؂ مسندابویعلی الموصلی عن مسند جابر بن عبداللہ حدیث ۲۰۴۳ موسسۃ علوم القرآن بیروت ۲ /۳۹۹)

امام عینی عمدہ میں فرماتے ہیں۔فان قلت اعمال الکفرۃ ھباء منثورا لافائدۃ فیھا قلت ھذاالنفع من برکۃ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وخصائصہ۲ ؂۔اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ ابو طالب کو یہ نفع ملنا صرف حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی برکت سے ہے ورنہ کافروں کے اعمال تو غبار ہیں ہوا پر اڑائے ہوئے۔

( ۲ ؂ عمدۃ القاری کتاب مناقبالانصار تحت الحدیث۳۸۸۳ ، دارالکتب العلمیہ ۱۷ /۲۳)

حدیث ہفتم : طبرانی حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :ان الحارث بن ہشام اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یوم حجۃ الوداع فقال یارسول اﷲ انی کنت علی صلۃ الرحم والاحسان الی الجاروایواء الیتیم واطعام الضیف واطعام المسکین وکل ھذا قدن کا یفعلہ ھشام بن المغیرۃ فماظنک بہ یارسول اﷲ فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کل قبر ای لایشہد صاحبہ ان لا الہٰ الا اﷲ فہوجذوۃ من النار، وقدوجدت عمی اباطالب فی طمطام من النار فاخرجہ اﷲ لمکانہ منی واحسانہ الی فجعلہ فی ضحضاح من النّار۱ ؂۔یعنی حارث بن ہشام رضی اللہ تعالٰی نے روز حجۃ الوداع حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی۔ یارسول اﷲ ! میں ان باتوں پر عمل کرتا ہوں۔

( ۱ ؂ المعجم الکبیر عن ام سلم حدیث ۹۷۲ المکتبۃ الفی صلیۃ بیروت ۲۳ /۴۰۵)
(المعجم الاوسط حدیث ۷۳۸۵ مکتبۃ المعارف ریاض ۸/ ۱۹۰)

رشتہ داروں سے نیک سلوک ، ہمسایہ سے اچھا برتاؤ، یتیم کو جگہ دینا، مہمان کو مہمانی دینا، محتاج کو کھانا کھلانا اور میر اباپ ہشام یہ سب کام کرتا تھا تو حضور کا اس کی نسبت کیا گمان ہے ؟ فرمایا جو قبر بنے جس کا مردہلاالٰہ الا اللہنہ مانتا ہو وہ دوزخ کا انگارا ہے میں نے خود اپنے چچا ابوطالب کو سر سے اونچی آگ میں پایا ، میری قرابت و خدمت کے باعث اﷲ تعالٰی نے اُسے وہاں سے نکال کر پاؤں تک آگ میں کردیا۔

مجمع نجار الانوار میں بعلامت کاف امام کرمانی شارح بخاری سے منقول :نفع اباطالب اعمالہ ببرکتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وان کان اعمال الکفرۃ ھباء منثورا۲ ؂۔یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی برکت سے ابوطالب کے اعمال نفع دے گئے ورنہ کافر وں کے کام تو نِرے برباد ہوتے ہیں۔

( ۲ ؂۔ مجمع بحار الانوار)

حدیث ہشتم : امام احمد مسند اور امام بخاری و مسلم اپنی صحاح میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :اھون اھل النار عذابا ابوطالب وھو منتعل بنعلین من ناریغلی منھما دماغہ ۳ ؂ ۔بے شک دوزخیوں میں سب سے کم عذاب ابوطالب پر ہے وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوئے ہے جس سے اس کا دماغ کھولتا ہے۔

( ۳ ؂ صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ص۱۱۵)

نیز صحیحین میں نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت سے ہی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :ان اھون اھل النار عذابا من لہ نعلان و شراکان من ناریغلی منھما دماغہ کما یغلی المرجل مایرٰی ان احدااشد منہ عذابا وانہ لاھونھم عذابا۴ ؂۔دوزخ میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ ہے جسے آگے کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ دیگ کی طرح جوش مارے گا وہ یہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی پر ہے حالانکہ اس پر سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔

( ۴ ؂ صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵)

اسی حدیث میں امام احمد کی ر وایت یوں ہے : یوضع فی اخمص قدمیہ جمر تان یغلی منہما دماغہ۱ ؂۔اس کے تلوؤں میں انگارے رکھے جائیں گے جس سے بھیجا اُبلے گا۔

( ۱ ؂ مسندا حمد بن حنبل عن نعمان بن بشیر المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۷۴)

اور صحیحین میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت سے ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :یقول اﷲ لاھون اھل النار عذابا یوم القیمۃ لو ان لک مافی الارض من شیئ اکنت تفتدی بہ فیقول نعم فیقول اردت منک اھون من ھذا وانت فی صلب اٰدم ان لاتشرک لی شیئا فابیتہ ان لاتشرک بی۲ ؂۔دوزخیوں میں سب سے ہلکے عذاب والے سے اللہ عزوجل فرمائے گا تمام زمین میں جو کچھ ہے اگر تیری مِلک ہوتا تو کیا اسے اپنے فدیہ میں دے کر عذاب سے نجات مانگنے پر راضی ہوگا ؟ وہ عرض کرے گا ہاں فرمائے گا میں نے تو تجھ سے روزِ میثاق جب کہ تو پشت آدم میں تھا اس سے بھی ہلکی اور آسان بات چاہی تھی کہ کسی کو میرا شریک نہ کرنا مگر تو نے نہ مانا بغیر میرا شریک ٹھہرائے ہوئے۔

( ۲ ؂ صحیح البخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ والنار قدیمی کتب خانہ کراچی۲ /۹۷۰)
( صحیح مسلم کتاب صفۃ المنافقین باب فی الکفار قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۷۴)
(مشکوۃ المصابیح باب صفۃ النار واھلھا الفصل الاول قدیمی کتب خانہ کراچی ص ۵۰۲)

اس حدیث سے بھی ابو طالب کا شرک پر مرنا ثابت ہے۔
کتا ب الخمیس فی احوال انفس نفیس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ہے :قبل ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مسح اباطالب بعد موتہ وانسی تحت قدمیہ ولذاینتعل بنعلین من النار۳ ؂۔یعنی کہا گیا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعد مرگ ابوطالب کے بدن پر دستِ اقدس پھیر دیا تھا مگر تلوؤں پر ہاتھ پھیرنا یاد نہ رہا اس لیے ابو طالب کو روزِ قیامت آگ کے دو جوتے پہنائے جائیں گے۔( باقی جسم بہ برکتِ دستِ اقدس محفوظ رہے گا۔)

( ۳ ؂ تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس وفاۃ ابی طالب موسسۃ شعبان بیروت ۱ /۳۰۰)

حدیث نہم : امام شافعی و امام احمد و امام اسحق بن راہویہ و ابوداؤد و طیالسی اپنی مسانید اور ابن سعد طبقات اور ابوبکر بن ابی شیبہ مصنف اور ابوداؤد و نسائی سنن اور ابن خزیمہ اپنی صحیح اور ابن الجارود منتقی اور مروزی کتاب الجنائز اور بزار و ابویعلٰی مسانید اور بیھقی سنن میں بطریقِ عدیدہ حضرت سیدنا امیر المومنین مولا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے راوی :قال قلت للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان عمّک الشیخ الضال قد مات قال اذھب فوار اباک ۱ ؂۔یعنی میں نے حضورِ اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی: یارسول اﷲ ! حضور کا چچا وہ بُڈھا گمراہ مرگیا ، جا، اسے دبا آ۔

( ۱ ؂۔ نصب الرایۃ بحوالۃ الشافعی واسحق بن راہو یہ وابی داؤد الطیالسی وغیرھم کتاب الصلوۃفصل فی الصلوۃ علی المیت الحدیث الحادی العشرالنوریۃ الرضویۃ پبلشنگ کمپنی لاہور ۲ /۲۸۹ و ۲۹۰)
(سُنن ابی داؤدکتاب الجنائز باب الرجل یموت لہ قرابۃ مشرک آفتاب عالم پریس ۲ /۱۰۲)
(مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۲۹ و۱۳۰)
(السنن الکبری کتاب الجنائزباب المسلم یغسل ذاقرابتہ دارصادر بیروت ۳ /۳۵۸)

ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے مولا علی نے عرض کی :ان عمّک الشیخ الکافرقدمات فما تری فیہ، قال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اری ان تغسلہ وامرہ بالغسل۲ ؂۔حضور کا چچا وہ بڈھا کافر مر گیا اس کے بارے میں حضور کی کیا رائے ہے یعنی غسل وغیرہ دیا جائے یا نہیں؟ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا نہلا کر دبا دو۔

( ۲ ؂۔ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الجنائزباب فی الرجل یموت لہ قرابۃ المشرک ادارۃ القرآن کراچی ۳ /۳۴۸)

امام شافعی کی روایت میں ہے : فقلت یارسول اﷲ انہ مات مشرکا قال اذھب فوارہ۳ ؂۔میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ ! وہ تو مشرک مرا، فرمایا : جاؤ ، دبا آؤ۔

(۳ ؂ نصف الرایہ بحوالۃ الشافعی کتاب الصلوۃ فصل فی الصلوۃ علی ا لمیت النوریہ الرضویہ الخ ۳ /۲۹۰)

امام الائمہ ابن خزیمہ نے فرمایا : حدیث صحیح ہے۔
امام حافظ الشان اصابہ فی تیمیز الصحابہ میں فرماتے ہیں:صححہ ابن خزیمہ ۴ ؂۔ ( ابن خزیمہ نے اس کی تصحیح کی ہے۔ت)

( ۴ ؂۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

اس حدیث جلیل کو دیکھئے ابوطالب کے مرنے پر خود امیر المومنین علی کرم اﷲ وجہہ الکریم حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں کہ حضور کا وہ گمراہ کافر چچا مر گیا۔ حضور اس پر انکار نہیں فرماتے نہ خود جنازے میں تشریف لے جاتے ہیں۔ ابو طالب کی بی بی امیر المومنین کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جب انتقال کیا ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی چادر وقمیص مبارک میں انہیں کفن دیا۔ اپنے دستِ مبارک سے لحد کھودی، اپنے دستِ مبارک سے مٹی نکالی، پھر ان کے دفن سے پہلے خود ان کی قبر مبارک میں لیٹے اور دعا کی۔

اﷲ الذی یحیی ویمیت وھو حیّ لایموت اغفرلاُمّی فاطمۃ بنت اسد و وسّع علیہا مدخلہا بحق نبیک والانبیاء الذین من قبل، فانّک ارحم الراحمین رواہ الطبرانی ۱؂ فی الکبیر والاوسط وابن حبان والحاکم وصححہ وابونعیم فی الحلیۃ عن انس ونحوہ ابن ابی شیبۃ عن جابروالشیرازی فی الالقاب وابن عبدالبر وابونعیم فی المعرفۃ ، والدیلمی بسند حسن عن ابن عباس و ابن عساکر عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔

اللہ جِلاتا ہے اور مارتا ہے اور خود زندہ ہے کہ کبھی نہ مرے گا، میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اُن کی قبر وسیع کر صدقہ اپنے نبی کا اور مجھ سے پہلے انبیاء کا ، تو سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(روایت کیا اس کو طبرانی نے کبیرواوسط میں، ابن حبان نے حاکم نے اور اس نے اس کی تصحیح کی، ابونعیم نے حلیہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، اور اس کی مثل ابن ابی شیبیہ نے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، شیرازی نے القاب میں، ابن عبدالبر نے ، ابونعیم نے معرفہ میں، ویلمی نے سند حسن کے ساتھ ابن عباس سے اور ابن عساکر نے حضرت علی سے ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔ت)

( ۱ ؂ مجمع الزوائد کتاب المناقب باب مناقب بنت اسد دارالکتاب بیروت ۹ /۲۵۷)
(کنزالعمال حدیث ۳۴۴۲۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۴۷ )

کاش ابوطالب مسلمان ہوتے تو کیا سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُن کے جنازہ میں تشریف نہ لے جاتے ۔ صرف اتنے ہی ارشاد پر قناعت فرماتے کہ جاؤ اسے دباء آو امیر المومنین کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم کی قوتِ ایمان دیکھئے کہ خاص اپنے باپ نے انتقال کیا ہے اور خود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غسل کا فتوٰی دے رہے ہیں، اور یہ عرض کرتے ہیں کہ یارسول اﷲ! وہ تو مشرک مرا۔ ایمان ان بندگانِ خدا کے تھے کہ اﷲ و رسول کے مقابلہ میں باپ بیٹے کسی سے کچھ علاقہ نہ تھا، اﷲ و رسول کے مخالفوں کے دشمن تھے اگرچہ وہ اپنا جگر ہو، دوستانِ خدا و رسول کے دوست تھے اگرچہ اُن سے دنیوی ضرر ہو۔

اولٰئک کتب فی قلوبھم الایمان و ایدھم بروح منہ ویدخلہم جنت تجری من تحتہا الانھٰر خٰلدین فیہا رضی اللہ عنہم ورضواعنہ اولئک حزب اﷲ الا ان حزب اﷲ ھم المفلحون o ( ۱ ؂۔جعلنا اﷲ منھم بھم ولھم بفضل رحمۃ بھم انہ ھو الغفور الرحیم ، والحمدﷲ رب العلمین وصلی اللہ تعالٰی علیہ سیدنا ومولٰینا محمد وٰلہ واصحابہ اجمعین اٰمین ۔

یہ ہیں جن کے دلوں میں اﷲ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے انکی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں، ان میں ہمیشہ رہیں۔ اﷲ ان سے راضی اوروہ اﷲ سے راضی۔ یہ اﷲ کی جماعت ہے، سنتا ہے اﷲ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ اﷲ تعالٰی ہمیں ان کے صدقے میں ان میں سے کردے۔ بے شک وہ ہی بہت بخشنے والا مہربان ہے، اور سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا، اور درود نازل فرمائے اﷲ تعالٰی ہمارے آقا محمد مصطفٰی ! آپ کی آل اورآپ کے تمام صحابہ پر، اے اﷲ ! ہماری دُعا قبول فرما ! (ت)

(۱؂القرآن الکریم ۵۸/ ۲۲)

حدیث دہم : بخاری و مسلم اپنی صحاح اور ابن ماجہ اپنی سنن اور طحاوی شرح معانی آلاثار اور اسماعیلی مستخرج علٰی صحیح البخاری میں بطریق امام علی بن حسین زین العابدین عن عمر و بن عثمان الغنی رضی اللہ تعالٰی عنہم سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :انہ قال یارسول اﷲ این تنزل فی دارک بمکۃ فقال وھل ترک عقیل من رباع او دور وکان عقیل ورث اباطالب ھو وطالب ولم یرثہ جعفر ولا علی رضی اللہ تعالٰی عنہما شیئا لانھما کان مسلمین وکان عقیل وطالب کافرین فکان عمرین الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ یقول لایرث المؤمن الکافر ۱ ؂۔ ولفظ ابن ماجۃ والطحاوی فکان عمر من اجل ذٰلک یقو ل ۱؂۔ الخ ولفظ الاسماعیلی فمن اجل ذٰلک کان عمر یقول۳ ؂۔یعنی انہوں نے خدمتِ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کی کہ یارسول اﷲ ! حضور کل مکہ معظمہ میں اپنے محلے کے کون سے مکان میں نزول اجلال فرمائیں گے۔ فرمایا ،کیا ہمارے لیے عقیل نے کوئی محلہ یا مکان چھوڑ دیا ہے۔ امام زین العابدین نے فرمایا : ہوا یہ تھا کہ ابوطالب کا ترکہ عقیل اور طالب نے پایا، اور جعفر و علی رضی اللہ تعالٰی عنہما کوکچھ نہ ملا۔ یہ دونوں حضرات وقتِ موت ابی طالب مسلمان تھے اور طالب کافر تھا اور عقیل رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ا س وقت تک ایمان نہ لائے تھے۔ اسی بناء پر امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے کہ کافر کا ترکہ مسلمان کو نہیں پہنچتا۔

( ۱ ؂ صحیح البخاری کتاب المناسک باب توریث دور مکۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۱۶)
( صحیح مسلم کتاب الحج باب النزول بمکۃ وتوریث دورہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۳۶)
( ۲ ؂ سُنن ابن ماجہ ابو اب الفرائضباب میراث اھل الاسلام من اہل الشرک الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۰۰)
( ۳ ؂ )

تنبیہ : لاشک ان قولہ وکان عقیل ورث اباطالب مدرج فی الحدیث ولم یبین قائلہ فی الکتب الذی ذکرنا واخترت انا انہ الامام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ و قال الامال العینی فی العمدۃ قولہ وکان عقیل ادراج من بعض الرواۃ ولعلہ من اسامۃ کذا قال الکرمانی۴ ؂ اھ والصواب ما ذکرتہ وقد کتبت علٰی ھامش العمدۃ ما نصہ ۔

تنبیہ : اس میں شک نہیں کہ اس قول اور عقیل وارث ہوا ابوطالب کا حدیث میں داخل کیا گیا اس کا قائل ان کتابوں میں مذکور نہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور میں نے اختیار کیا ہے کہ وہ امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ امام عینی نے عمدۃ القاری میں کہا کہ اس کا قول وکان عقیل بعض راویوں کی طرف سے حدیث میں داخل کیا گیا ہے ، ممکن ہے یہ ادراج و ادخال اسامہ کی طرف سے ہو۔کرمانی نے یوں ہی کہا ہے اھ ، اور درست وہی ہے جو میں نے ذکر کیا، اور میں نے عمدۃ القاری پر حاشیہ لکھا جس کی صراحت یہ ہے۔ (ت)

( ۴ ؂۔ عمدۃ القاری کتاب المناسک باب توریث دور مکہ الخ تحت الحدیث ۱۵۸۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۹ /۳۲۴)

اقول : بل ھو من علی بن حسین بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم ، بیّنہ مالک فی مؤطاہ فانہ اسند اولا عن ابن شہاب بالسند المذکور فی الکتاب اعنی صحیح البخاری ان رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لایرث المسلم الکافر اھ ۱ ؂۔ ثم قال مالک عن ابن شہاب عن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب انہ اخبرہ انما ورث اباطالب عقیل وطالب ولم یرثہ علی قال علی فلذٰلک ترکنا نصیبنا من الشعب اھ وھٰکذا رواہ محمد فی مؤطاہ عن مالک مفرقا مصرحا فقد بین واحسن احسن اﷲ الیہ والینا بہ امین ۔

میں کہتا ہوں بلکہ وہ علی بن حسین بن علی ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اس کو امام مالک نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے، پہلے اس کو امام مالک نے ابن شہاب سے ذکر یعنی صحیح بخاری میں مذکور سند کے ساتھ ذکر کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا ا ھ پھر کہا مالک نے ابن شہاب سے روایت کی اس نے علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب سے، اس نے خبر دی کہ عقیل اور طالب ابو طالب کے وارث بنے جب کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے وارث نہ بنے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا یہی وجہ ہے کہ ہم نے شعب ابی طالب سے اپنا حصہ ترک کردیا۔ اسی طرح امام محمد نے اپنی کتاب مؤطا میں امام مالک سے صراحتاً روایت کیا انہوں نے خوب ظاہر کیا اور احسان کیا، اﷲ تعالٰی ان پر اور ہم پر احسان فرمائے ۔امین (ت)

( ۱ ؂ مؤطا امام مالک کتاب ا لفرائض باب میراث اہل الملل میر محمد کتب خانہ کراچی ص ۶۶۶)
( ۲ ؂ مؤطا امام مالک کتاب ا لفرائض باب میراث اہل الملل میر محمد کتب خانہ کراچی ص ۶۶۶)

حدیث یاز دہم : عمر بن شبہ کتاب مکہ میں اور ابویعلٰی وابوبشر اور سمویہ اپنے فوائد اور حاکم مستدرک میں بطریق محمد بن سلمہ بن ہشام بن حسان عن محمد بن سیرین قصہ اسلام ابی قحافہ والد امیر المومنین صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہما میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : قال فلما مدیدہ یبایعہ بکی ابوبکر فقال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ما یبکیک قال لان تکون ید عمّک مکان یدہ ویسلم ویقراﷲ عینک احب الیّ من ان یکون ۱ ؂۔یعنی جب حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنا دست انور ابوقحافہ سے بیعت اسلام لینے کے لیے بڑھایا ، صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ روئے، حضور پرُنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں روتے ہو؟ عرض کی : ان کے ہاتھ کی جگہ آج حضور کےچچاکا ہاتھ ہوتا اور ان کے اسلام لانے سے اﷲ تعالٰی حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی آنکھ ٹھنڈی کرتا تو مجھی اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے زیادہ یہ بات عزیز تھی۔

( ۱ ؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃبحوالہ عمر بن شیبہ وغیرہ ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۶)

حاکم نے کہا : یہ حدیث برشرطِ شیخین صحیح ہے۔ حافظ الشان نے اصابہ میں اسے مسلم رکھا اور فرمایا :سندہ صحیح۲ ؂۔ (اس کی سند صحیح ہے۔ت)

( ۲ ؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃبحوالہ عمر بن شیبہ وغیرہ ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۶)

حدیث دوازدہم : ابوقرہ موسٰی بن طارق وہ موسٰی بن عبید ہ وہ عبداﷲ بن دینار وحضور عبدا ﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :قال جاء ابوبکر یابی قحافۃ یقودہ یوم فتح مکۃ فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا ترک الشیخ حتی نأتیہ قال ابوبکر ادرت ان یأجرہ اﷲ والذی بعثک بالحق لانا کنت اشد فرحا باسلام ابی طالب لوکان اسلم منی بابی۳ ؂۔یعنی صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فتح مکہ کے دن ابو قحافہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر لائے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اس بوڑھے کو وہیں کیوں نہ رہنے دیا کہ ہم خود اس کے پاس تشریف فرما ہوتے،صدیق نے عرض کی کہ میں نے چاہا کہ اُن کو اجر دے قسم اس کی جس نے حضور کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے زیادہ ابوطالب کے مسلمان ہونے کی خوشی ہوتی اگر وہ ا سلام لے آتے۔(ت)

( ۳ ؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃبحوالہ ابی قرۃ وغیرہ ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

اﷲ اﷲ یہ محبوب میں فنائے مطلق کا مرتبہ ہے ،صدق اﷲ والذین اٰمنوا اشد حبّاﷲ۴؂۔ ( اﷲ تعالٰی نے سچ فرمایا اور ایمان والوں کو اﷲ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ت)

( ۴ ؂ القرآن الکریم ۲ /۱۶۵)

اسی طرح امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ عَمِّ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کہا :انا باسلامک اذا اسلمت افرح منی باسلام الخطاب، ذکرابن اسحق ۱؂ فی سیرتہ ۔مجھے آپ کے اسلام کی جتنی خوشی ہوئی اپنے باپ خطاب کے اسلام کی اتنی نہ ہوتی۔ (اس کو ابواسحق اس کی سیرت میں ذکر کیا۔ت)

(۱؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃبحوالہ ابن اسحاق ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

حدیث سیزدہم : یونس بن بکیر فی زیادات مغازی ابن اسحق عن یونس بن عمرو عن ابی السفر : قال بعث ابوطالب الی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال اطعمنی من عنب جنتک فقال ابوبکر ان اﷲ حرمھا علی الکافرین۳ ؂۔یعنی ابو طالب نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کر بھیجی کہ مجھے اپنی جنت کے انگور کھلائے۔ اس پر صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : بے شک اﷲ نے انہیں کافروں پر حرام کیا ہے۔

( ۳ ؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ بحوالہ ابن اسحاق ذکر ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

حدیث چہار دہم : الواحدی من حدیث موسٰی بن عبیدۃ قال اخبرنا محمد بن کعب القرظی قال بلغنی انہ لما اشتکی ابوطالب شکواہ التی قبض فیہا قالت لہ قریش ارسل الٰی ابن اخیک یرسل الیک من ھٰذہ الجنۃ التی ذکرھا یکون لک شفاء فارسل الیہ فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان اﷲ حرمھا علی الکافرین طعامھاوشرابہا ثم اتاہ فعرض علیہ الاسلام ، فقال لولاان تعیربھا فیقال جزع عمّک من الموت لاقررت بہا عینک واستغفرلہ بعد مامات فقال المسلمون مایمنعنا ان نستغفر لآبائنا ولذوی قرابتنا قداستغفر ابراہیم علیہ السلام لابیہ ومحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لعمہ فاستغفر وا للمشرکین حتی نزلت ما کان للنبی والذین اٰمنوا الاٰیۃ ۔

یعنی ابو طالب کے مرض الموت میں کافرانِ قریش نے صلاح دی کہ اپنے بھتیجے (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) سے عرض کرو کہ یہ جنت جو وہ بیان کرتے ہیں اس میں سے تمہارے لیے کچھ بھیج دیں کہ تم شفاء پاؤ۔ ابوطالب نے عرض کر بھیجی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اﷲ تعالٰی نے جنت کا کھانا پانی کافروں پر حرام کیا ہے، ۔ پھر تشریف لا کر ابو طالب پر اسلام پیش کیا۔ ابو طالب نے کہا : لوگ حضور پر طعنہ کریں گے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا چچا موت سے گھبرا گیا اس کا خیال نہ ہوتا تو میں حضور کی خوشی کردیتا۔ جب وہ مر گئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انکے لیے دعا ئے مغفرت کی ، مسلمانوں نے کہا ہمیں اپنے والدوں قریبوں کےلیےدعائے بخشش سے کون مانع ہے،ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نےاپنےباپ کے لیے استغفار کی، محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے چچا کے لیے استغفار کررہے ہیں، یہ سمجھ کر مسلمانوں نے اپنے اقارب مشرکین کے واسطے دعائے مغفرت کی، اﷲ عزوجل نے آیت اتاری کہ مشرکوں کے لیے یہ دعا نہ نبی کو روا نہ مسلمانوں کو، جب کہ روشن ہولیا کہ وہ جہنمی ہیں۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی

( ۱ ؂۔ )

حدیث پانزدہم : ابونعیم حلیہ میں امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : کانت مشیّۃ اﷲ عزوجل فی اسلام عمی العباس و مشیتی فی اسلام عمی ابی طالب فغلبت مشیۃ اﷲ مشیتی ۲ ؂۔اﷲ تعالٰی نے میرے چچا عباس کا مسلمان ہونا چاہا اور میری خواہش یہ تھی کہ میرا چچا ابوطالب مسلمان ہو، اﷲ تعالٰی کا ارادہ میری خواہش پر غالب آیا کہ ابو طالب کا فر رہا اور عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ مشرف با سلام ہوئے ۔فللّٰہ الحجۃ البالغۃ

( ۲ ؂۔کنزالعمال برمز ابی نعیم عن علی حدیث ۳۴۴۳۹ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۵۲)

فصل سوم :

چون ۵۴ اقوال ائمہ کرام و علمائے اعلام اُوپر گزرے اور بعد کلام خدا و رسول جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا حالتِ منتظرہ باقی ہے خاتمہ کا حال خدا و رسول سے زیادہ کون جانے، عزمجدہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،
مگر تکثیر فوائد و تسکین زائد کے لیے بعض اور بھی کہ سردست پیش نظر ہیں اضافہ کیجئےکہ زیادت خیر زیادت خیر ہے۔ وباﷲ التوفیق۔

امام الائمہ، مالک الازمّہ ، کاشف الغمہ، سراج الائمہ ، سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فقہ اکبرمیں فرماتےہیں :ابوطالب عمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مات کافرا ۱؂۔نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی موت کُفر پر ہوئی۔ والعیاذباﷲ

( ۱ ؂ الفقہ الاکبر مع وصیّت نامہ ملک سراج الدین اینڈ سنز پبلشرز کشمیری بازار لاہور ص ۲۱)

امام برہان الدین علی بن ابی بکر فرغانی ہدایہ میں فرماتے ہیں :اذا مات الکافر ولہ ولی مسلم فانہ یغسلہ ویکفنہ ویدفنہ بذلک امر علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فی حق ابیہ ابی طالب لکن یغسل غسل الثوب النجس ویلف فی خرقۃ و یحفر حفیرۃ من غیر مراعاۃ سنۃ التکفین واللحد ولایوضع فیہ بل یلقی۲ ؂۔جب کافر مرجائے اور اس کا کوئی مسلمان رشتہ دار موجود ہو تو وہ اس کو غسل دے، کفن پہنائے اور دفن کرے، حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کے باپ ابو طالب کے بارے میں ایسا ہی حکم دیا گیا ۔ لیکن اس کو غسل ایسے دیا جائے جیسے پلیڈ کپڑے کو دھویا جاتا ہے اور کسی کپڑے میں لپیٹ دیا جائے اور اس کے لیے گڑھا کھودا جائے، کفن پہنانے اور لحد بنانے کی سنت ملحوظ نہ رکھی جائے اور نہ ہی اس کو گڑھے میں رکھا جائے بلکہ پھینکا جائے۔(ت)

( ۲ ؂ الہدایہ باب الجنائز فصل فی الصلوۃ علی المیت المکتبۃ العربیۃ دستگیر کالونی کراچی ۱ /۶۲۔۱۶۱)

امام ابوالبرکات عبداﷲ نسفی کافی شرح وافی میں فرماتے ہیں :مات کافر یغسلہ ولیہ المسلم ویکفنہ ویدفنہ، والاصل فیہ انہ لما مات ابوطالب اتی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وقال انّ عمّک الشیخ الضال قد مات فقال اغسلہ واکفنہ وادفنہ و لاتحدث حدثا حتی تلقانی ای لاتصل علیہ۱ ؂۔کافر مرجائے تو اس کا مسلمان رشتہ دار اس کو غسل دے، کفن پہنائے اور دفن کرے، اس میں اصل یہ ہے کہ جب ابوطالب مرگئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا بوڑھا گمراہ چچا مرگیا ہے، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اس کو غسل دو، کفن پہناؤ اور دفن کرو اور کوئی نئی چیز نہ کرنا یہاں تک کہ مجھے آملو یعنی اس کی نمازِ جنازہ مت پڑھنا الخ ۔(ت)

( ۱ ؂الکافی شرح الوافی)

علامہ ابراہیم حلبی غنیہ شرح منیہ میں فرماتے ہیں :مات للمسلم قریب کافر لیس لہ ولی من الکفار یغسلہ غسل الثوب الجنس ویلفہ فی خرقۃ ویحفرلہ حفرۃ ویلفیہ فیہا من غیر مراعاۃ السنۃ فی ذلک لماروی ان اباطالب لما ھلک جاء علیّ فقال یارسول انّ عمّک الضال قدمات ۲ ؂۔ الخمسلمان کا کوئی قریبی کافر رشتہ دار مر گیا۔ اس کا کافروں میں کوئی وارث موجود نہیں ہے تو وہ مسلمان اُسے غسل دے جیسے پلید کپڑے کو دھویا جاتا ہے، ایک کپڑے میں لپیٹے اور ایک گڑھا کھود کر اس میں پھینک دے اور اس سلسلے میں سنت کا لحاظ نہ کرے کیونکہ مروی ہے کہ جب ابوطالب کا انتقال ہوا تو حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آکر کہا یارسول اﷲ ! آپ کا گمراہ چچا مرگیا ہے۔الخ

( ۲ ؂۔ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الجنائز سہیل اکیڈمی لاہور ص ۶۰۳)

علامہ ابراہیم طرابلسی برہان شرح مواہب الرحمن پھر علامہ سیّد احمد طحطاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں زیر قول نور الایضاحان کان للکافر قریب مسلم غسلہ ( اگر کسی کافر کا کوئی قریبی رشتہ دار مسلمان ہو تو وہ اس کو غسل دے ۔ ت) فرماتے ہیں :الاصل فیہ ما رواہ ابوداؤد وغیرہ عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لما مات ابوطالب۳ ؂۔ الحدیث ۔اصل اس میں وہ حدیث ہے جس کو ابوداؤد وغیرہ نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ جب ابوطالب مرگیا تو انہوں نے کہا ۔(الحدیث ۔ ت)

( ۳ ؂ حاشیۃ الطحطاوی علٰی مراقی الفلاح باب احکام الجنائز فصل السلطان احق بصلٰوتہ نور محمد کارخانہ کراچی ص ۳۲۹ و ۳۳۰)

علامہ زین بن نجیم مصری بحرالرائق میں فرماتے ہیں :یغسل ولی مسلم الکافر ویکفنہ ویدفنہ بذلک امر علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ان یفعل بابیہ حین مات۱ ؂۔مسلمان رشتہ دار کا فر کو غسل دے، کفن پہنائے اور دفن کرے، حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا جب اُن کا باپ مرگیا۔(ت)

( ۱ ؂بحرالرائق کتاب الجنائز فصل السلطان احق بصلٰوتہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۹۰)

ان سب عبارتوں کا حاصل یہ ہےکہ مسلمان اپنے قرابت دار کا فر مردہ کو نہلاسکتا ہے کہ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، نے اپنے باپ ابوطالب کو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اجازت سے نہلایا۔

فتح القدیر وکفایہ وبنایہ وغیرہا تمام شروح ہدایہ میں اس مضمون کو مقبول و مقرر رکھا۔ کتبِ فقہ میں اس کی عبارات بکثرت ملیں گی سب کی نقل سے اطالت کی حاجت نہیں، واضح ہوا کہ سب علمائے کرام ابوطالب کو کافر جانتے ہیں۔ یونہی امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں"باب الرجل یموت لہ قرابۃ مشرک" ۲ ؂وضع فرمایا یعنی "باب اُس شخص کا جس کا کوئی قرابت دار مشرک مرے،" اور امام نسائی نے"باب مواراۃ المشرک" ۳؂یعنی "دفن مشرک کا باب"، اور دونوں نے اس میں یہی حدیث موتِ ابی طالب ذکر کی،

( ۲ ؂ سُنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب الرجل یموت لہ الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۱۰۲)
(۳ ؂سُنن النسائی کتاب الجنائز باب مواراۃ المشرک نور محمد کارخانہ کراچی ۱ /۲۸۳)

انہیں نسائی کے اسی مجتبٰی میں ایک باب" النھی عن الاستغفار للمشرکین" ۴ ؂ہے اس میں حدیث دوم روایت کی، ابن ماجہ نے سُنن میں باب میراث"اھل الاسلام من اھل الشرک " ۵؂لکھا یعنی مشرک کا ترکہ مسلم کو ملے گا یا نہیں۔ اس میں حدیث دوم وارد کی۔

(۴ ؂ سنن النسائی کتاب الجنائز باب النہی عن الاستغفار للمشرکین نور محمد کارخانہ کراچی ۱ /۲۸۶)
(۵ ؂سنن ابن ماجہ ابواب الفرائض باب میراث اہل الاسلام من اھل الشرک ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۰۰)

امام اجل صاحب المذہب سیّدنا امام مالک نے مؤطا شریف میں باب"التوارث بین اھل الملل"۶؂منعقد فرمایا یعنی مختلف دین والوں میں ایک کو دوسرے کا ترکہ ملنے کا حکم، اور اس میں حدیثیں مسلم و کافر کے عدمِ توارث کی روایت فرمائیں جن میں یہ حدیث امام زین العابدین دربارہ ترکہ ابوطالب مذکور حدیث دہم بھی ارشاد کی ۔

(۶ ؂ مؤطا الامام مالک کتاب الفرائض باب میراث اہل الملل میرمحمد کتب خانہ کراچی ص ۶۶۶)

یونہی امام محرر المذہب سیّدنا امام محمد نے مؤطا شریف میں باب"لایرث المسلم الکافر" ۷؂منعقد فرما کر حدیث مذکور ایراد کی۔

( ۷؂ مؤطا الامام محمد کتاب الفرائض باب لایرث المسلم کافر نور محمد کارخانہ کراچی ص ۳۱۹ و۳۲۰)

امام اجل محمد بن اسمعیل بخاری نے جامع صحیح کتاب الجنائز میں ایک باب وضع فرمایا :"باب اذاقال المشرک عندالموت لا الٰہ الاّ اﷲ" ۱ ؂۔یعنی باب اس کے بیان کا کہ مشرک مرتے وقت لا الٰہ الا اﷲ کہے تو کیا حکم ہے اور اس میں حدیث دوم روایت فرمائی۔اُسی کی کتاب الادب میں لکھا"باب کنیۃ المشرک"۲ ؂۔

( ۱ ؂صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذاقال المشرک عندالموت الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۸۱ )
( ۲؂صحیح البخاری کتاب الادب باب کنیۃ المشرک قدیمی کتب خانہ کراچی۲ /۹۱۶)

اس میں حدیث چہارم روایت اور حدیث مذکور :سمعت النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول وھو علی المنبر ان بنی ھاشم بن المغیرۃ استاذنونی ان ینکحو ا ابنتھم علی بن ابی طالب۳ ؂۔میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا جب کہ آپ منبر پر تشریف فرما تھے کہ بنی ہاشم بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب کے ساتھ کردیں۔(ت)

( ۳ ؂صحیح البخاری کتاب النکاح باب ذب الرجل عن ابنتہ فی الغیرہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی۲ /۷۸۷)

ذکر کی______ امام قسطلانی نے تطبیقِ حدیث و ترجمہ میں لکھا"فذکرابا طالب المشرک بکنیۃ"نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابو طالب مشرک کو کنیت سے یاد فرمایا۔

پھر لکھا :قد جوزواذکر الکافر بکنیتہ اذا کان لایعرف الا بہا کما فی ابی طالب اوکان علٰی سبیل التالف رجاء اسلامھم اوتحصیل منفعۃ منھم لا علی سبیل التکریم فانا ما مورون بالاغلاظ علیھم۴ ؂۔علماء نے کافر کو کنیت سے ذکر کرنا ناجائز رکھا جب کہ وہ اور نام سے نہ پہچانا جائے جیسے ابو طالب یا بامیدِ اسلام تالیف مقصود یا کام نکالنا ہو مگر بطورِ تکریم جائز نہیں کہ ہمیں ان پر سختی کرنے کا حکم ہے۔

( ۴ ؂ ارشاد الساری کتاب الادب باب کنیۃ المشرک تحت الحدیث ۶۲۰۸ بیروت ۲۳ /۲۰۷ و ۲۱۰)

عمدۃ القاری میں ہے :قال ابن بطال فیہ جواز تکنیۃ المشرک۵ ؂۔امام ابن بطال نے فرمایا: اس حدیث سے مشرک کو بلفظ کنیت یاد کرنے کا جواز معلوم ہوا۔

( ۵ ؂عمدۃ القاری شرح البخاری کتاب الادب تحت الحدیث ۶۲۰۸ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲۲ /۳۳۹)

اُسی میں ہے :فیہ دلالۃ انّ اﷲ تعالٰی قد یعطی الکافر عوضاً من اعمالہ التی مثلھا یکون قربۃ لا ھل الایمان باﷲ تعالٰی لانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اخبر ان عمہ نفعتہ تربیتہ ایاہ وحیاطتہ لہ التخفیف ۱ ؂۔ الخ

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اﷲ عزوجل کافر کو بھی اس کے اعمال کا کچھ عوض دیتا ہے، جو اہلِ ایمان کریں تو قرُب الہٰی پائیں ۔ دیکھو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر دی کہ حضور کے چچا کو حضور کی خدمت و حمایت نے تخفیف عذاب کا فائدہ دیا الخ۔

( ۱؂عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الادب باب کنیۃ المشرک تحت الحدیث ۶۲۰۸ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲۲ /۳۳۹)

امام عارف باﷲ سیدّی علی متقی مکی قدس سرہ الملکی نے اپنی کتبِ جلیلہ منہج العمال وکنزالعمال و منتخب کنزالعمال میں ایک باب منعقد فرمایا :الباب السادس فی اشخاص لیسوا من الصحابۃ۲ ؂۔اُن شخصوں کے ذکر میں جوصحابی نہیں، اور اسی باب میں ابو طالب و ابوجہل وغیرہما ذکر کیا۔

(۲ ؂ کنز العمال الباب السادس فی فضل اشخاص لیسوا من الصحابۃ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۵۰)

اسی طرح علامہ عبدالرحمن بن شیبا نے تیسیرا الوصول الٰی جامع الاصول میں احادیث ذکر ابی طالب کو فصل غیر صحابہ میں وارد کیا اور اس میں صرف حدیث دوم و چہارم و پنجم کو جلوہ دیا۔ اگر ابوطالب کو اسلام نصیب ہوتا تو کیا وہ شخص صحابہ سے خارج ہوسکتا جس نے بچپن سے حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو گود میں پالا اور مرتے دم تک حضر و سفر کی ہمرکابی سے بہرہ یابی کا غلغلہ ڈالا۔

یونہی امام حافظ الحدیث ابوالفضل شہاب الدین ابن حجر عسقلانی نے کتاب اصابہ فی تمییز الصحابہ میں ابو طالب کو باب الکنی حرف الطاء المہملہ کی قسم رابع میں ذکر کیا۔ یعنی وہ لوگ جنہیں صحابی کہنا مردود ؤغلط و باطل ہے۔

اسی میں فرماتے ہیں : ورد من عدۃ طرق فی حق من مات فی الفترۃ ومن ولد مجنونا ونحوذٰلک ان کلامنھم یدلی بحجۃ ویقول لوعقلت اوذکرت لآمنت فترفع لھم نار ویقال لھم ادخلوھا فمن دخلہا کانت علیھم بردًا وسلاماً ومن امتنع ادخلہا کرھا ونحن نرجو ان یدخل عبدالمطلب واٰل بیتہ فی جملۃ من یدخلہا طائعا فینجو، لکن وردفی ابی طالب ما یدفع ذلک وھو ما تقدم من اٰیۃ براء ۃ وما فی الصحیح انہ فی ضحضاح من النار، فھٰذ شان من مات علی الکفرفلوکان مات علی التوحید لنجامن النار اصلاو الاحادیث الصحیۃ والاخبار المتکاثرۃ طافحۃ بذلک ۱ ؂۔ اھ مختصراً۔

یعنی بہت اسانید سے حدیث آئی کہ جو زمانہ فترت میں اسلام آنے سے پہلے مرگیا یا مجنون پیدا ہوا اور جنون ہی میں گزر گیا اور اسی قسم کے لوگ جنہیں دعوتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نہ پہنچی ان میں ہر ایک روزِ قیامت ایک عزر پیش کرے گا کہ الٰہی ! میں عقل رکھتا یا مجھے دعوت پہنچتی تو میں ایمان لاتا ، ان کے امتحان کو ایک آگ بلند کی جائے گی اور ارشاد ہوگا اس میں جاؤ جو حکم مانے گا اور اس میں داخل ہوگا وہ اس پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی ، اور جو نہ مانے گا جبراً آگ میں ڈالا جائے گا، اور ہمیں امید ہے کہ عبدالمطلب اور انکے گھر والے کہ قبل ظہورِ نور اسلام انتقال کرگئے وہ سب انہیں لوگوں میں ہوں گے جو اپنی خوشی سے اس امتحانی آگ میں جا کر نا جی ہوجائیں گے، مگر ابوطالب کے حق میں وہ وارد ہو لیا جو اسے دفع کرتا ہے ، سورہ توبہ شریف کی آیت اور حدیث صحیح کا ارشاد کہ وہ پاؤں تک کی آگ میں ہے۔ یہ حال اس کا ہے جو کافر مرے، اگر اخیر وقت اسلام لاکر مرنا ہوتا تو دوزخ سے نجات کُلی چاہیے تھی، صحیح وکثیر حدیثیں کفر ابی طالب ثابت کررہی ہیں۔ اھ مختصر۔

(۱؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸)

پھر فرمایا :وقد فخر المنصور علی محمد بن عبداﷲ بن الحسن لما خرج بالمدینۃ وکاتبہ المکاتبات المشہورۃ ومنہا فی کتاب المنصور وقد بعث النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولہ اربعۃ اعمام فاٰمن بہ اثنان احدھما ابی وکفر بہ اثنان احدھما ابوک۲ ؂۔

یعنی جب امام نفس زکیہ محمد بن عبداﷲ بن حسن مجتبٰی رضی اللہ تعالٰی عنہم نےخلیفہ عباسی عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما مشہور بہ منصور و وانیقی پر خروج فرمایا اور مدینہ طیبہ پر تسلط کرکے خلیفہ و امیر المومنین لقب پایا اُن میں اور خلیفہ مذکور منصور میں مکاتبات مشہورہ ہوئے ازاں جملہ منصور نے ایک نامہ میں لکھا جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نبوت ظاہر ہوئی حضور کے چار چچا زندہ تھے حمزہ و عباس و ابوطالب وابولہب دو حضور پر ایمان لائے ایک ان میں میرے باپ ہیں یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ، اور دو کافر رہے ایک ان میں آپ کے باپ ہیں یعنی ابو طالب ۔

(۲؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸)

یہ منصور علاوہ خلیفہ و اہلبیت ہونے کے خود بھی علمائے تبع تابعین و فقہاء محدثین سے ہیں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے تاریخ الخلفاء میں انہیں فقیہ النفس و جید المشآرکہ فی العلم لکھا اور فرمایا :ولد سنۃ خمس وتسعین وادرک جدّہ ولم یروعنہ وروی عن ابیہ و عن عطاء بن یسار و عنہ ولدہ المھدی ۱ ؂۔وہ؁ ۹۵ ھ میں پیدا ہوا، اپنے دادا کو پایا مگر ان سے روایت نہیں کی، اپنے باپ اور عطا ء بن یسار سے روایت کی اور اس سے اس کے بیٹے مہدی نے روایت کی ۔ (ت)

(۱؂ تاریخ الخلفاء احوال المنصور ابو جعفر عبداللہ مطبع مجتبائی دہلی ص۱۸۰)

اور امام اجل نفس زکیہ کو یوں بے تامل لکھ بھیجنا اور امام کا اس پر رد نہ فرمانا بھی بتارہا ہے کہ کفر ابی طالب واضح و مشہور بات تھی، اصابہ میں اس کے بعد فرمایا : ومن شعر عبداﷲ بن المعتزیخاطب الفاطمین۔ع
وانتم بنوبنتہ دوننا ونحن بنو عمہ المسلم۲؂یعنی عبداﷲ بن محمد بن جعفر بن محمد بن ہارون بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما، یا یوں کہیے کہ چھ خلفاء کے بیٹے عبداللہ بن المعتزباﷲ ابن المتوکل ابن المعتصم ابن الرشید ابن المہدی ابن المنصور کا ایک شعر بعض ساداتِ کرام کے خطاب میں ہے کہ : "تم حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نواسے ہو ہم نہیں، اور ہم حضور کے مسلمان چچا کے بیٹے ہیں"۔

(۲؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء ترجمہ ۶۸۵ ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸)

اِس میں بھی کفرِ ابی طالب پرصاف تعریض موجود ہے عبداللہ اہل علم و فضل سے ہیں، حدیث میں علی بن حرب معاصر امام بخاری و مسلم کے شاگرد نیز امام ممدوح کتاب الاحکام پھر امام قسطلانی مواہب میں فرماتے ہیں :نحن نرجوان یدخل عبدالمطلب واٰل بیتہ الجنۃ الاابا طالب فانہ ادرک البعثۃ ولم یؤمن ۱ ؂ اھ باختصار۔ہم امید کرتے ہیں کہ عبدالمطلب اور ان کے اہلبیت سب جنت میں جائیں گے سوا ابوطالب کے کہ زمانہ اسلام پایا اور اسلام نہ لائے۔

( ۱ ؂ المواھب اللدنیۃ قضیۃ نجاۃ والدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رای المصنف فی المسئلۃ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۸۳)
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء ترجمہ ۶۸۵ ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸)

نیز فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:من عجائب الاتفاق ان الذین ادرکھم الاسلام من اعمام النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اربعۃ لم یسلم منھم اثنان واسلم اثنان وکان اسم من لم یسلم ینافی اسامی المسلمین وھما ابوطالب و اسمہ عبد مناف وابولھب و اسمہ عبدالعزّی بخلاف من اسلم وھما حمزۃ والعباس۲ ؂۔عجائب اتفاق سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چار چچا زمانہ ئ اسلام میں زندہ تھے، دو اسلام نہ لائے اور دو مشرف باسلام ہوئے، وہ دو کے اسلام نہ لائے ان کے نام بھی پہلے ہی سے مسلمانوں کے نام کے خلاف تھے۔ ابو طالب کا نام عبدمناف تھا اور ابولہب کا عبدالعزی ، اور دو کہ مسلمان ہوئے انکے نام پاک وصاف تھے حمزہ و عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔

( ۲ ؂۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصہ ابی طالب مصطفٰی البابی مصر ۸ /۱۹۶)
(شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ عام الحزن وفاۃ خدیجہ وابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۶)

وکذا اثرہ الزرقانی فی شرح المواہب۔

امام احمد بن محمد خطیب قسطلانی مواہب الدنیہ و منح محمدیہ میں فرماتے ہیں:کان العباس اصغر اعمامہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولم یسلم منھم الا ھو وحمزۃ۳ ؂۔عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سب میں چھوٹے چچا تھے ، حضور کے اعمام میں صرف یہ اور حضرت حمزہ مسلمان ہوئے و بس۔

( ۳ ؂۔ المواہب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابعالمکتب الاسلامی بیروت ۲ /۱۱۱)

امام محمد محمد محمد ابن امیر الحاج حلیہ شرح منیہ اواخرصلوۃ اس مسئلہ کے بیان میں کہ کافر کے لیے دعائے مغفر ت ناجائز ہے، آیت دوم تلاوت کرکے فرماتے ہیں :ثبت فی الصحیحین ان سبب نزول الایۃ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابی طالب لاستغفرن لک مالم انہ عنک۱ ؂۔صحیحین میں ثابت ہوچکا ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابوطالب کے لیے دعائے مغفرت کی تھی ۔ (یعنی یہ کہا تھا کہ جب تک مجھے منع نہ کیا گیا میں تیرے لیے استغفار کروں گا) اس پر یہ آیت اتری۔

(۱؂حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

امام محی السنہ بغوی معالم شریف اول رکوع سورہ بقر میں زیر قولہ تعالٰیان الذین کفروا سواء علیہم ، پھر قاضی حسین بن محمد دیار بکری مالکی مکی کتاب الخمیس میں فرماتے ہیں، کفر چار قسم ہے کفر انکار و کفر حجود و کفر عناد و کفر نفاق، کفر انکار یہ کہ اﷲ عزوجل کو نہ دل سے جانے اور نہ زبان سے مانے مگر دل میں نہ جانے۔وکفر العناد ان یعرف اﷲ بقلبہ ویعترف بلسانہ ولایدین بہ ککفر ابی طالب حیث یقول۲ ؂۔
ولقدعلمت بان دین محمد من خیرادیان البریۃ دینا
لولا الملامۃ اوحذار مسبۃ لوجدتنی سمحابذاک مبینا ۲ ؂۔یعنی کفر عنادیہ کہ اﷲ تعالٰی کو دل سے بھی جانے اور زبان سے بھی کہے مگر تسلیم و گریدگی سے باز رہے جیسے ابو طالب کا کفر کہ یہ شعر کہے۔
واﷲ ! میں جانتا ہوں کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دین تمام جہان کے دین سے بہتر ہے، اگر ملامت یا طعنے سے بچنانہ ہوتا تو تُو مجھے دیکھتا کہ میں کیسی اہل دلی کے ساتھ صاف صاف اس دین کو قبول کرلیتا۔

(۲؂تاریخ الخمیس وفاۃ ابی طالب موسسۃ شعبان بیروت ۱ /۳۰۱)
(معالم التنزیل تفسیر البغوی تحت الآیۃ ۲/ ۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۱)

امام ممدوح یہ چار وں قسمیں بیان کرکے فرماتے ہیں :جمیع ھٰذہ الاصناف سواء فی ان من لقی اﷲ تعالٰی بواحد منھا لایغفرلہ ۳ ؂۔یہ سب قسمیں اس حکم میں یکسا ں ہیں کہ جو ان میں سے کسی قسم کا کفر کرکے اﷲ عزوجل سے ملے گا وہ کبھی اسے نہ بخشے گا۔

(۳؂معالم التنزیل تفسیر البغوی تحت الآیۃ ۲/ ۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۱)

امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ادریس قرآنی نے شرح التنقیح پھر امام قسطلانی نے مواہب میں کفار کی ایک قسم یوں بیان فرمائی : من اٰمن بظاہرہ وباطنہ وکفر بعدم الاذعان للفروع کما حکی عن ابی طالب انہ کان یقول انی لاعلم ان مایقولہ ابن اخی لحق ولو لا انی اخاف ان تعیرنی نساء قریش لا تبعتہ وفی شعرہ یقول؂
لقد علموا ان ابننا لامکذب یقیناً ولا یعزی لقول الاباطل
فھذا تصریح باللسان و اعتقاد بالجنان غیرانہ لم یذعن۱ ؂

یعنی ایک کافر وہ ہے جو قلب سے عارف زبان سے معترف ہو مگر اذعان نہ لائے جیسے ابو طالب سے مروی کہ بے شک میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو کچھ میرے بھتیجے (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) فرماتے ہیں ضرور حق ہے اگر اس کا اندیشہ نہ ہوتا کہ قریش کی عورتیں مجھے عیب لگائیں گی تو ضرور میں اُن کا تابع ہوجاتااور اپنے ایک شعر میں کہا : ؂ خدا کی قسم کافران قریش خوب جانتے ہیں کہ ہمارے بیٹے (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) یقیناً سچے ہیں اور معاذ اﷲ کوئی کلمہ خلاف حق کہنا، ان کی طرف نسبت نہیں کیا جاتا۔ تو یہ زبان سے تصریح اور دل سے اعتقاد سب کچھ ہے مگر اذعان نہ ہوا۔

( ۱ ؂ المواہب اللدنیہ عالم الحزن وفاۃ ابی طالب المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۶۵)

امام ابن اثیر جزری نہایہ ، پھر علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :کفر عناد ھو ان یعرفہ بقلبہ ویعترف بلسانہ ولا یدین بہ کابی طالب۲ ؂۔کفر عنادیہ ہے کہ دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے مگر تسلیم و انقیاد سے باز رہے جیسے ابو طالب۔

( ۲ ؂ شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ وفاۃ خدیجہ و ابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۵)

علامہ مجدد الدین فیروز آبادی سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں :چوں عمِ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو طالب بیمار شد باوجود آنکہ مشرک بود او راعیادت فرمود و دعوتِ اسلام کرو ابو طالب قبول نہ کرو اھ ملخصاً۱ ؂۔جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بیمار ہوگئے تو ان کے کافر ہونے کے باوجود حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی عیادت کی اور اسلام لانے کی دعوت دی جسے ابو طالب نے قبول نہ کیا۔(ت)

( ۱ ؂ شرح سفر السعادت فصل در بیان عیادت بیماراں و نماز جنازہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

شیخ محقق مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں :حدیث صحیح اثبات کردہ است برائے ابو طالب کفر را۲ ؂۔حدیثِ صحیح نے کفرِ ابوطالب کو ثابت کردیا ہے۔(ت)

( ۲ ؂ مدارج النبوۃ وفات یافتن ابو طالب مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲ /۴۸)

پھر بعد ذکر احادیث فرمایا :و در روضۃ الاحباب نیز اخبار موت ابوطالب برکفر آوردہ الخ۳ ؂۔روضۃ الاحباب میں بھی ابو طالب کے کفر پر مرنے کی احادیث لائی گئی ہیں۔ الخ (ت)

( ۳ ؂۔ مدارج النبوۃ وفات یافتن ابو طالب مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲ /۴۹)

بحرالعلوم ملک العلماء مولانا عبدالعلی فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت میں فرماتے ہیں :احادیث کفرہ شھیرۃ وقد نزل فی حق رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی شان عمہ ابی طالب "انک لاتھدی من احببت" کمافی صحیح مسلم وسنن الترمذی وقد ثبت فی الخبر الصحیح عن الامام محمد ن الباقر کرم اﷲ تعالٰی وجھہ الکریم ووجوہ اٰبائہ الکرام ان رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورث طالبا وعقیلا اباھما ولم یورث علیا وجعفر ا قال علی ولذا ترکنا نصیبنا فی الشعب کذا فی مؤطا الامام مالک۴ ؂۔حدیثیں اُس کے کفر کی مشہور ہیں، نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ان کے چچا ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اے نبی ! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو جیسا کہ صحیح مسلم اور ترمذی میں ہے تحقیق امام محمد باقر، "اﷲ تعالٰی نے ان کے اور ان کے آباء و اجداد کے چہرے کو مکرم بنایا"، سے خبر صحیح میں ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے طالب و عقیل کو ان کے باپ کا وارث بنایا مگر علی و جعفر کو وارث نہیں بنایا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے فرمایا : اسی وجہ سے ہم نے شعب ابی طالب سے اپنا حصہ ترک کردیا۔ مؤطا امام مالک میں یونہی ہے۔(ت)

( ۴ ؂۔ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفٰی منشورات الشریف رضی قم ایران ۱/ ۱۵۳و۱۵۴)

یعنی کفر ابوطالب کی حدیثیں مشہور ہیں پھر اس کے ثبوت میں آیت اولٰی کا اترنا اور حدیث دہم کفرا بی طالب کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علی و جعفر کو ترکہ نہ دلانا بیان فرمایا۔

اقول : وذکرالا مام الباقر رضی اللہ تعالٰی عنہ وقع زلۃ من القلم وانما ھو الامام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ کما اسمعنا ک من المؤطا والصحیحین وغیرھا۔

میں کہتا ہوں امام محمد باقر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکر قلم کی لغزش سے واقع ہوا۔ درحقیقت وہ امام زین العابدین ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ، جیسا کہ ہم تجھے بحوالہئ مؤطاوصحیحین وغیرہ بتاچکے ہیں۔ت)

نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض فصل الوجہ الخامس من وجوہ السب امام ابن حجر مکی سے نقل فرمایا : حدیث مسلم ان ابی وابا ک فی النار اراد بابیہ عمہ ابا طالب لان العرب تسمی العم ابا (ملخصاً) ۱ ؂۔حدیث مسلم میں کہ میرا اور تیرا باپ جہنم میں ہیں، باپ سے مراد آپ کے چچا ابو طالب ہیں کیونکہ عرب چچا کو باپ کہہ دیتے ہیں۔( ملخصاً) ( ت)

( ۱ ؂ نسیم الریاض کی شرح شفاءالقاضی عیاض فصل الوجہ خامس مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۴ /۴۱۴)

یعنی عرب کی عادت ہے کہ باپ کو چچا کہتے ہیں، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی اسی عادت پر اس حدیث میں اپنے چچا ابوطالب کو باپ کہہ کر فرمایا کہ وہ دوزخ میں ہے۔

امام خاتم الحفاظ جلال الملۃ والدین سیوطی مسالک الحنفاء فی والدی المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں اسی حدیث کی نسبت فرماتے ہیں :ماالمانع ان یکون المرادبہ عمہ ابوطالب فکانت تسمیۃ ابی طالب ابا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شائعۃ عندھم لکونہ عمہ وکونہ رباہ وکفلہ من صغرہ اھ ملخصاً۲ ؂۔کون مانع ہے کہ اس حدیث میں ابوطالب مراد ہو کہ وہ دوزخ میں ہے، اُس زمانہ میں شائع تھا کہ ابو طالب کو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا باپ کہا جاتا ۔ چچا ہونے اور بچپن سے حضور اقدس کی خدمت و کفالت کرنے کے باعث۔

( ۲ ؂ الحاوی للفتاوٰی مسالک الحنفاء فی والدالمصطفٰی دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۲۷ و ۲۲۸)

اقول : جس طرح ابھی ابو طالب کے شعر سے گزرا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابو طالب کی بی بی حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اپنی ماں فرمایا۔

اسی میں فرماتے ہیں :اخرج تمام الرازی فی فوائدہ بسند ضعیف عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا کان یوم القیٰمۃ شفعت لا بی و امّی وابی طالب واخ لی کان فی الجاھلیۃ اوردہ المحب الطبری وھو من الحفاظ والفقہاء فی کتابہ ذخائر العقبٰی فی مناقب ذوی القربٰی وقال ان ثبت فہو مؤول فی ابی طالب علی ماورد فی الصحیح من تخفیف العذاب عنہ بشفاعتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انتہٰی وانما احتاج الٰی تاویلہ فی ابی طالب دون الثلٰثۃ ابیہ وامہ واخیہ یعنی من الرضاعۃ لان ابا طالب ادرک البعثۃ ولم یسلم والثلٰثۃ ماتوافی الفترۃ ۱ ؂۔یعنی تمام الرازی نے بسند ضعیف ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : میں روزِ قیامت اپنے والدین اور ابو طالب اورا پنے ایک رضاعی بھائی کہ زمانہ جاہلیت میں گزرا شفاعت فرماؤں گا۔ امام محب طبرنی نے کہ حافظان حدیث و علمائے فقہ سے ہیں ذخائر العقبٰی میں فرمایا یہ حدیث اگر ثابت بھی ہو تو ابوطالب کے بارے میں اس کی تاویل وہ ہے جو صحیح حدیث میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت سے عذاب ہلکا ہوجائے گا۔ امام سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ خاص ابوطالب کے باب میں تاویل کی حاجت یہ ہوئی کہ ابوطالب نے زمانہ اسلام پایا اور کفر پر اصرار رکھا بخلاف والدین کریمین وبرادر رضاعی کہ زمانہ فترت میں گزرے۔

( ۱ ؂ الحاوی للفتاوٰی مسالک الحنفاء فی والدالمصطفٰی دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۲۰۸)

یعنی ایک حدیث ضعیف میں آیا کہ میں روز قیامت اپنے والدین اور ابو طالب اور اپنے ایک رضاعی بھائی کہ زمانہ جاہلیت میں گزرا شفاعت فرماؤں گا۔

اقول : یہاں تاویل بمعنی بیان مراد و معنی ہے جس طرح شرح معانی قرآن کو تاویل کہتے ہیں ، کفار سے تخفیف عذاب بھی حضور سیدالشافعین صلی اللہ تعالٰی کی اقساط شفاعت سے ہے شفاعت کبرٰی کہ فتح باب حساب کے لیے ہے تمام جہان کو شامل وعام ہے۔ امام نووی نے باآنکہ ابوطالب کو بالیقین کافر جانتے ہیں تبویب صحیح مسلم شریف میں حدیث چہارم و پنجم کا باب یوں لکھا۔

باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب والتخفیف عنہ بسببہ۲ ؂۔نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ابو طالب کے لیے شفاعت اور اس کے عذاب میں تخفیف کا باب ۔

( ۲ ؂ صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵)

امام بدر الدین زرکشی نے خادم میں ابن دحیہ سے نقل کیا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اقسام شفاعت سے وہ تخفیف عذاب ہے جو ابولہب کو بروز دو شنبہ ملتی ہے۔لسرورہ بولادۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واعتاقہ ثویبۃ حین بشربہ قال وانما ھی کرامۃ لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔اس لیے کہ اس نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی تعالٰی علیہ وسلم کے میلاد مبارک کی خوشی کی اور اس کا مژدہ سن کر ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ یہ حضور ہی کا فضل ہے جس کے باعث اس نے تخفیف پائی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ،نقلہ فی المسالک ایضاً ۱ ؂۔( اسے مسالک میں بھی نقل کیا گیا ۔ت)

( ۱ ؂ الحاوی للفتاوٰی بحوالہ الزرکشی مسالک الحنفاء فی والدالمصطفٰی دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۲۰۸)

نیز مسالک الحنفا پھر شرح مواہب علامہ زرقانی میں ہے : قدثبت فی الصحیح واخبر الصادق المصدوق صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ابا طالب اھون اھل النار عذاب ۲؂ ا ھ ملتقطا۔بے شک صحاح میں ثابت ہے اورصادق مصدوق صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر دی کہ ابو طالب پر سب دوزخیوں سے کم عذاب ہے۔

( ۲ ؂ شرح الرزقانی علی المواہب اللدنیہ وفات خدیجہ و ابی طالب ۱ /۲۹۴ والحاوی للفتاوی ۲ /۲۲۸)

اللھم اجرنا من عذابک الالیم بجاہ نبیّک الرؤف الرحیم علیہ وعلٰی اٰلہ افضل الصلوۃ و ادوم التسلیم امین والحمد ﷲ رب العٰلمین۔اے اﷲ ! ہمیں اپنے درد ناک عذاب سے بچا رؤف و رحیم نبی کے صدقے میں، آپ پر اور آپ کی آل پر بہترین درود اور دائمی سلام ہو۔ اے اﷲ ہماری دعا قبول فرما۔ اور سب تریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)

فصل چہارم :

علامہ عبدالرؤف منادی تییسر پھر علامہ علی بن احمد عزیزی سراج المنیر شروح جامع صغیر میں زیر حدیث ہشتم فرماتے ہیں :ھٰذا یؤذن بموتہ علٰی کفرہ وھو الحق ووھم البعض۳ ؂۔یعنی یہ حدیث بتاتی ہے کہ ابو طالب کی موت کفر پر ہوئی اور یہی حق ہے اور اس کا خلاف وہم ہے۔

( ۳ ؂ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث اھون اھل النار عذابا الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۳۸۴)

امام عینی زیر حدیث دوم وچہارم فرماتے ہیں :ھذا کلہ ظاھر انہ مات علی غیر الاسلام فان قلت ذکر السہیلی انہ رای فی بعض کتب المسعودی ا نہ اسلم قلت مثل ھذا لایعارض ما فی الصحیح ۱ ؂۔ان سب حدیثوں سے ظاہر ہے کہ ابوطالب کی موت غیر اسلامی پر ہوئی، اگر تُو کہے کہ سہیلی نے ذکر کیا کہ انہوں نے مسعودی کی کسی کتاب میں دیکھا کہ ابو طالب اسلام لے آئے میں کہوں گا ایسی بے سروپا حکایت احادیث صحیح بخاری کی معارض نہیں ہوسکتی۔

( ۱ ؂ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار تحت حدیث ۳۸۸۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۷ /۲۴)

اقول : علاوہ بریں اگر یہ مسعودی علی بن حسین صاحبِ مروج ہے تو خود رافضی ہے اس کی کتاب مروج الذھب خلفائے کرام وصحابہ عظام عشرہ مبشرہ وغیرھم رضی اللہ تعالٰی عہنم پر صریح تبراسے جا بجا آلودہ و ملوث ہے

لوط بن یحیٰی ابو مخنف رافضی خبیث ہالک کے اقوال و نقول بکثرت لاتا ہے جس کے مردود و تالف ہونے پر آئمہ جرح و تعدیل کا اجماع ہے اسی طرح اور رفاض و فساق وہالکین کے اخبار پر اس کی کتاب کا مدار ہے جیسا کہ اس کے مطالعہ سے واضح و آشکار ہے، فقیر غفر اﷲ تعالٰی نے اپنے نسخہ مروج الذھب کے ہامش پر اِس کی تنبیہ لکھ دی ہے۔

شاہ عبدالعزیز صاحب تحفہ اثنا عشریہ میں فرماتے ہیں : ہشام کلبی مفسر کہ رافضی غالی ست وہمچنیں مسعودی صاحبِ مروج الذہب وابوالفرح اصبہانی صاحبِ کتاب الاغالی وعلٰی ہذا القیاس امثال اینہارا ایں فرقہ دراعداد اہلسنت داخل کنند وبمقولات ومنقولات ایشاں الزام اہلسنت خواہند۲ ؂۔ہشام کلبی مفسر جو کہ غالی رافضی ہے، اسی طرح مروج الذھب کا مصنف مسعودی اور ابوالفرح اصبہانی صاحبِ کتاب الاغالی اور علٰی ہذا القیاس ان جیسے دیگر رافضیوں کو یہ فرقہ، اہل سنت میں داخل کرتا ہے اور ان کے اقوال و منعقولات سے اہل سنت کو الزام دینا چاہتا ہے۔ت)

( ۲ ؂تحفہ اثنا عشریہ باب دوم فصل دوم کیدبست وسوم سہیل اکیڈمی لاہور ص ۴۱)

علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :القول باسلام ابی طالب لایصح قالہ ابن عساکر وغیرہ۳ ؂۔ابو طالب کا اسلام ماننا غلط ہے امام ابن عساکر وغیرہ نے اس کی صریح کی۔

( ۳ ؂ شرح الرزقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصدالثانی الفصل الرابع دارالمعرفۃ بیروت۳ /۲۸۶)

اسی طرح اصابہ میں ہے کماسیأتی ( جیسا کہ آگے آئے گا۔ت)
علامہ شہاب نسیم الریاض میں فرماتے ہیں :من الغریب مانقلہ بعضھم ان اﷲ تعالٰی احیاہ لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فامن بہ کابویہ واظنہ من افتراء الشیعۃ۱ ؂۔غرائب سے ہے یہ جو بعض نے نقل کیا کہ اﷲ تعالٰی نے والدین رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح ابو طالب کو بھی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے زندہ کیا کہ بعد مرگ جی کر مشرف باسلام ہوئے میرے گمان میں یہ رافضیوں کی گھڑت ہے۔

( ۱ ؂ نسیم الریاض القسم الاول الباب الاول الفصل الخامس مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۲۱۰)

اقول : وضّاع کذاب رافضیوں ہی میں منح صر نہیں مگر یہ اُن کے مسلک کے موافق ہے لہذا اس کی وضع کا گمانِ انہیں کی طرف جاتا ہے پھر بھی بے تحقیق جزم کی کیا صورت ممکن کہ کسی اور نے وضع کی ہو، اس بنا پر لفظ ظن فرمایا ، ورنہ اس کے موضوع ومفتری ہونے میں تو شُبہ نہیں، کما لایخفٰی ( جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ت)

علامہ صبان محمد بن علی مصری کتاب اسعاف الراغبین میں فرماتے ہیں : اما اعمامہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاثنا عشرۃ حمزۃ العباس وھما المسلمان وابوطالب والصحیح انہ مات کافرا ؂۲ ۔حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارہ۱۲چچا تھے، حمزہ وعباس رضی اللہ تعالٰی عنہما اور یہی دو مشرف با سلام ہوئے اور ابو طالب اور صحیح یہی ہے کہ یہ کافر مرے۔

( ۲ ؂ اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی علٰی ھامش نور الابصار دارالفکر بیروت ص ۹۴)

فصل پنجم :

شرح مقاصد و شرح تحریر پھر ردالمحتار حاشیہ درمختار باب المرتدین میں ہے : المصر علی عدم الاقرار مع المطالبۃ بہ کافر وفاقا لکون ذلک من امارات عدم التصدیق ولہذا اطبقوا علٰی کفر ابی طالب ۱ ؂۔جس سے اقرارِ اسلام کا مطالبہ کیا جائے اور وہ اقرار نہ کرنے پر اصرار رکھے بالاتفاق کافر ہے کہ یہ دل میں تصدیق نہ ہونے کی علامت ہے۔ اسی واسطے تمام علماء نے کفرِ ابی طالب پر اجماع کیا ہے۔

( ۱ ؂ردالمحتار کتاب السیر باب المرتد دار احیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۲۸۳ و ۲۸۴)

مولانا علی قاری شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں :اذا امربھا وامتنع وابٰی عنہا کابی طالب فھو کافر بالاجماع۲ ؂۔جسے شہادت کلمہ اسلام کا حکم دیا جائے اور وہ باز رہے اور ادائے شہادت سے انکار کرے جیسے ابو طالب، تو وہ بالا جماع کافر ہے۔

(۲؂)

مرقاۃ شرح مشکوۃ میں اُس شخص کے بارے میں جو قلب سے اعتقاد رکھتا تھا اور بغیر کسی عذر و مانع کے زبان سے اقرار کی نوبت نہ آئی ، علماء کا اختلاف کہ یہ اعتقاد بے اقرار اُسے آخرت میں نافع ہوگا یا نہیں ، نقل کرکے فرماتے ہیں۔قلت لکن بشرط عدم طلب الاقرار منہ فان ابی بعد ذٰلک فکافراجماعا لقضیۃ ابی طالب۳ ؂۔یعنی یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ اس سے اقرار طلب نہ کیا گیا ہو اور اگر بعد طلب باز رہے جب تو بالا جماع کافر ہے۔ ابو طالب کا واقعہ اس پر دلیل ہے۔

(۳؂)

اُسی کی فصل ثانی باب اشراط الساعۃ میں ہے :ابوطالب لم یؤمن عنداھل السنۃ۴ ؂۔اہل سنت کے نزدیک ابوطالب مسلمان نہیں۔

(۴؂ مرقات المفاتیح شرح مشکٰوۃ المصابیح کتاب الفتن حدیث ۵۴۵۸ المکتبۃ الحبیبیۃ کوئٹہ ۹/ ۳۶۰ )

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی شرح سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں :مشائخ حدیث وعلمائے سنت بریں اند کہ ایمان ابو طالب ثبوت نہ پذیر فتہ و در صحاح احادیث ست کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم در وقتِ وفات وے برسردے آمد و عرض اسلام کرد وے قبول نہ کرد۱ ؂۔مشائخ حدیث اور علماءِ اہلسنت کا مؤقف یہ ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے،صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ ابو طالب کی وفات کے وقت رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسکے پاس تشریف لائے اور سلام پیش فرمایا مگر اس نے قبول نہیں کیا۔ت)

( ۱ ؂ شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں و نماز جنازہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

فصل ششم :

امام ابن حجر مکی افضل القرٰی القراء ام القرٰی میں ابو طالب کی بیت مروی صحیح بخاری کہ ہم نے شروع جواب میں ذکر کی لکھ کر فرماتے ہیں :ھذا البیت من جملۃ قصیدۃ لہ فیھا مدح عجیب لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حتی اخذا الشیعۃ منھا القول باسلامہ۲ ؂۔یہ بیت ابوطالب کے ایک قصیدہ کا ہے جس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عجب نعت ہے، یہاں تک کہ رافضیوں نے اس سے ابوطالب کا مسلمان ہونا اخذ کرلیا۔

( ۲ ؂ افضل القرٰی القراء ام القرٰی تحت البیت ۴۵ المجمع الثقانی ابوظہبی ۱ /۲۸۶)

پھر فرماتے ہیں :صرائح الاحادیث المتفق علٰی صحتہا ترد ذٰلک۳ ؂۔لیکن صاف اور روشن حدیثیں جن کی صحت پر اتفاق ہے اسلام ابوطالب کو رَد کررہی ہیں۔

( ۳ ؂ افضل القرٰی القراء ام القرٰی تحت البیت ۴۵ المجمع الثقانی ابوظہبی ۱ /۲۸۶)

علامہ محمد بن عبدالباقی شرح مواہب میں روایت ضعیفہ ابن اسحٰق کہ اِن شاء اﷲ تعالٰی عنقریب مع اپنے جوابوں کے آتی ہے ذکر کرکے فرماتے ہیں : بھذا احتج الرفضۃ ومن تبعھم علٰی اسلامہ۴ ؂۔رافضی اور جو اُن کے پیرو ہوئے وہ اسی روایت سے ابو طالب کے اسلام پر سند لاتے ہیں۔

( ۴ ؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ عام الحزن وفاۃ خدیجہ وابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۱)

انوار التنزیل وارشاد العقل میں زیر آیہ کریمہ"انک لاتھدی من احببت"فرمایا :الجمھور علی انھا نزلت فی ابی طالب۵؂۔جمہور آئمہ کے نزدیک یہ آیت دربارئہ ابوطالب اُتری۔

( ۵؂ انوارالتنزیل (تفسیر البیضاوی) تحت آلایۃ ۲۸ /۵۶ دارالفکر بیروت ۴ /۲۹۸)

علامہ خفا جی اِس کے حاشیہ میں فرماتے ہیں: اشارۃ الی الردعلی بعض الرفضۃ اذ ذھب الٰی اسلامہ۱ ؂۔یہ اشارہ ہے بعض رافضیوں کے رَد کی طرف کہ وہ اسلامِ ابوطالب کے قائل ہیں۔

( ۱ ؂ عنایۃ القاضی حاشیۃ الشہاب علٰی تفسیر البیضاوی تحت آلایۃ۲۸ /۵۶ دارالکتب العلمیہ بیروت ۷ /۳۰۹)

اصابہ میں ہے : ذکر جمع من الرفضۃ انہ مات مسلما،۲؂ قال ابن عساکر فی صدر ترجمتہ قیل انہ اسلم ولایصح اسلامہ مختصر۳ ؂۔رافضیوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ابو طالب مسلمان مرے۔ امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں شروع تذکرئہ ابوطالب میں فرمایا بعض اسلام ابو طالب کے قائل ہوئے اور یہ صحیح نہیں مختصر۔

( ۲ ؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاءالقسم الرابع ابوطالب دار صادربیروت ۴ /۱۱۶)
( ۳ ؂ تاریخ دمشق الکبیرترجمہ ۸۹۴۰ ابوطالب داراحیاء التراث العربی ۷۰ /۲۲۸)

زرقانی میں ہے :الصحیح ان ابا طالب لم یسلم، و ذکر جمع من الرفضۃ انہ مات مسلما وتمسکواباشعار واخبار واھیۃ تکفل بردھافی الاصابۃ۴ ؂۔صحیح یہ ہے کہ ابوطالب مسلمان نہ ہوئے ، رافضیوں کی ایک جماعت نے اُن کا اسلام پر مرنا مانا اور کچھ شعروں اور واہیات خبروں سے تمسک کیا جن کے رَد کا امام حافظ الشان نے اصابہ میں ذمہ لیا۔

( ۴ ؂۔ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابع دارالمعرفتہ بیروت ۳ /۲۷۴)

نسیم فصل کیفیۃ الصلوۃ علیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم والتسلیم میں ہے :ابو طالب توفی کافرا وادعاء بعض الشیعۃ انہ اسلم لا اصل لہ ۵؂۔ ابوطالب کی موت کفر پر ہوئی اور بعض رافضیوں کا دعوٰی باطلہ کہ وہ اسلام لائے محض بے اصل ہے۔

( ۵ ؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۳ /۴۸۴)

شیخ محقق شرح صراط مستقیم میں فرماتے ہیں :شیخ ابن حجر در فتح الباری میگوید معرفت ابوطالب بہ نبوت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم د ربسیاری از اخبار آمدہ و تمسک کردہ بدان شیعہ بر اسلام وے و استدلال کردہ اند بردعوی خود بچیزے کہ دلالت ندارد برآں ۱ ؂۔شیخ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں ابو طالب کو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نبوت کی معرفت حاصل تھی۔ اس بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں جن کو شیعہ اسلامِ ابوطالب کی دلیل بتاتی ہیں اور انے دعوٰی پر جس چیز اسے استدلال کرتے ہیں وہ اُن کے دعوٰی پر دلالت نہیں کرتی ۔ت)

( ۱ ؂ سفر السعادت فصل دربیان عیادت بیماراں الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)

اسی میں ہے :مخفی نماند کہ صحتِ اسلام ابوین بلکہ سائر آبائے دے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مشہورست و شیعہ اسلامِ ابو طالب رانیز ازیں قبیل دانند ۲ ؂ اھ مختصراً ۔پوشیدہ نہ رہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین بلکہ تمام آباء واجداد کے اسلام کا صحیح ہونا مشہور ہے، اور شیعہ اسلامِ ابوطالب کو بھی اسی قبیل سے سمجھتے ہیں ا ھ اختصار (ت)

( ۲ ؂ سفر السعادت فصل دربیان عیادت بیماراں الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۵۰۔۲۴۹)

فصل ہفتم :

الحمدُ ﷲ کلام اپنی نہایت کو پہنچا بعد اس قدر نصوص علیہ وجلیہ قرآن و حدیث و ارشاداتِ صحابہ و تابعین و تبع تابعین و آئمہ قدیم و حدیث کے منصف کو چارہ نہیں مگر تسلیم اور شبہات کا حصہ نہیں مگر فنائے عمیم پھر بھی تبیین مرام و تسکین اوہام مناسب مقام ، عمرو نے آٹھ شبہے ذکر کیے اور نواں کہ اگر شبہہ کہنے کے بھی کچھ قابل ہے تو وہی ہے اس سے متروک ہوا ہم اُن سب کو ذکر کرکے بتوفیق اﷲ تعالٰی اظہار جواب وابانتِ صواب کریں۔

شبہہ اولٰی __کفالت__

اقول (میں کہتا ہوں ۔ ت) ہاں بالیقین مگر کفالت نبی مستلزم اطاعتِ نبی نہیں ،

قال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :فالتقطہ اٰل فرعون لیکون لھم عدوا وحزنا الایۃ۳ ؂۔تو اُسے اٹھالیا فرعون کے گھر والوں نے کہ وہ ان کا دشمن اور ان پر غم ہو الآیۃ(ت)

( ۳ ؂ القرآن الکریم ۲۸ /۸)

قال تعالٰی( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت) : قال الم نربک فینا ولیدا ولبثت فینا من عمرک سنین۱ ؂۔بولا کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن میں نہ پالا اور تم نے ہمارے یہاں اپنی عمر کے کئی برس گزارے۔(ت)

( ۱ ؂ القرآن الکریم۲۶ /۱۸)

شبہہ ثانیہ _____ نصرتِ وحمایت _____

نقول : ضرور مگر مدعا سے دور، رافضی اس سے دلیل لائے اور علمائے سنت جواب دے چکے ۔

اصابہ میں فرمایا :استدل الرافضی بقول اﷲ تعالٰی "فالذین اٰمنوا بہ و عزروہ و نصروہ واتبعواالنور الذی معہ اولئک ھم المفلحون" قال وقد عزرہ ابوطالب بما اشتھرو علم ونابذقریشا وعاداھم بسبلبہ مما لایدفعہ احد من نقلۃ الاخبار فیکون من المفلحین انتھی وھذا مبلغھم من العلم وانانسلم انہ نصرہ وبالغ فی ذلک لکنہ لم یتبع النور الذی معہ وھو الکتاب العزیز الداعی الی التوحید ولا یحصل الفلاح الا بحصول مارتب علیہ من الصفات کلہا۲؂ ۔

یعنی اسلامِ ابی طالب پر رافضی اس آیت سے دلیل لایا کہ اﷲ عزوجل فرماتا ہے "جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے اور اس کی نصرت و مدد کی اور جو نورِ اس نبی کے ساتھ اتارا گیا اس کے پیرو ہوئے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں"۔ رافضی نے کہا : ابوطالب کی مدد و نصرت مشہور و معروف ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیچھے قریش سے مخالفت کی عداوت باندھ لی جس کا کوئی راوی اخبار انکار نہ کرے گا تو وہ فلاح پانے والوں میں ٹھہرے۔ رافضیوں کے علم کی رسائی یہاں تک ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ابوطالب نے ضرور نصرت کی اور بدرجہ غایت کی مگر اس نور کا اتباع نہ کیا جو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اترا یعنی قرآن مجید داعی توحید اور فلاح تو جب ملے کہ جتنی صفات پر اسے مرتب فرمایا ہے سب حاصل ہوں۔

( ۲ ؎الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء ترجمہ ۶۸۵ ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸)

اقول: اولاً یہ نصرت وحمایت کا قصہ بارگاہِ رسالت میں پیش ہوچکا، عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی: یارسول اﷲ ! ابو طالب چنیں و چنان کرتا اسے کیا نفع ملا ؟ جواب جو ارشآد ہوا۔ حدیث چہارم میں گزرا۔
ثانیاً بلکہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما پر خود رب العزت جواب دے چکا کہ اوروں کو نبی کی ایذا سے روکتے اور خود ایمان لانے سے بچتے ہیں، دیکھو آیت وحدیث سوم۔
ثالثاً اعتبار خاتمہ کا ہے"انما الاعمال بالخواتیم"۱؂ ۔ ( اعمال کا دارو مدار خاتموں پر ہے۔ت)

(۱؂مسند احمد بن حنبل حدیث سہل بن سعد المکتب الاسلامی بیروت ۵/ ۳۳۵)

جب ابوطالب کا کفر پر مرنا قرآن وحدیث سے ثابت تو اب اگلے قصّے سنانا اور گزشتہ کفالت و نصرت سے دلیل لانا محض ساقط ۔ صحاح ستہّ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود سے ایک حدیثِ طویل میں ہے ، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :" فواﷲ الذی لا الٰہ غیرہ ان احدکم لیعمل بعمل اھل الجنۃ حتی مایکون بینہ وبینہا الاذراع فیسبق علیہ الکتاب فیعمل بعمل اھل النار فید خل النار "۔۲؂قسم اﷲ کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں تم میں کوئی شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور جنت میں صرف ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہی اتنے میں تقدیر غالب آجاتی ہے کہ وہ دوزخیوں کے کام کرکے دوزخ میں جاتا ہے۔ (والعیاذ باﷲ رب العالمین)۔

(۲؂ صحیح البخاری کتاب التوحید باب قولہ تعالٰی ولقد سبقت کلمتنا الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۱۰)
(صحیح مسلم کتاب القدر باب کیفیۃ خلق الآدمی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۳۲)
(سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب القدر آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۹۲)

رابعاً نہ صرف اسلام مستلزم اسلام نہ ثبوت خاص نہ ثبوت عام، صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہی غزوہ خیبر میں ایک مدعِی اسلام نے ہمراہ رکاب اقدس سخت جہاد اور کافروں سے عظیم قتال کیا، صحابہ اس کے مداح ہوئے، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : وہ دوزخی ہے۔ اس پر قریب تھا کہ بعض لوگ متزلزل ہوجاتے ۔( یعنی ایسے عالی درجہ کے عمدہ کام ایسی جلیل وجمیل نصرت اسلام اور اس پر ناری ہونے کے احکام) بالاخر خبر پائی کہ وہ معرکہ میں زخمی ہوا درد کی تاب نہ لایا رات کو اپنا گلا کاٹ کر مر گیا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر فرمایا اﷲ اکبر میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اﷲ تعالٰی کا بندہ اور اس کا رسول ہوں،

پھر بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں میں منافی کردیں :" انہ لا یدخل الجنۃ الا نفس مسلمۃ وان اﷲ لیؤید ھذاالدین بالرجل الفاجر " ۱؂ ۔بے شک جنت میں کوئی نہ جائے گا مگر مسلمان جان، اور بے شک اﷲ اس دین کی مدد کرتا ہے فاسق کے ہاتھ پر۔

(۱؂ صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخیبر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۶۰۴)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان غلظ تحریم قتل الانسان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۷۲)

اسی کے قریب طبرانی نے کبیر میں عمرو بن نعمان بن مقرن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ نسائی و ابن حبان حضرت انس بن مالک اور احمد و طبرانی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہا سے بسند جید راوی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :ان اﷲ یؤید ھٰذاالدین باقوام لا خلاق لہم۲؂۔بے شک اﷲ عزوجل اس دین کی مد د ایسے لوگوں سے فرماتا ہے جن کا کوئی حصہ نہیں۔

(۲؂کنزالعمال برمز ن حب و حم طب عن ابی بکرۃ حدیث ۲۸۹۵۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰ /۱۸۴ )

طبرانی کبیر میں حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :ان اﷲ تعالٰی لیؤید الاسلام برجال ماھم من اھلہ۳؂۔بے شک اﷲ تعالٰی اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کراتا ہے جو خود اہلِ اسلام سے نہیں۔

(۳؂ کنزالعمال برمز طب عن ابن عمرو حدیث ۲۸۹۵۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰ /۱۸۴ )

نسأل اﷲ العفوو العافیۃ ( ہم اﷲ تعالٰی سے معافی اور عافیت مانگتے ہیں۔ ت)

شبہہ ثالثہ _____ محبت _____

اقول : بے شک مگر حد طبعی تک جیسے چچا کو بھتیجے سے چاہیے اور بھتیجے بھی کیسے کہ حقیقی بھائی نوجوان گزرے ہوئے کی اکلوتی نشانی، پھر اس پر جمال صورت و کمال سیرت وہ کہ اپنے تو اپنے غیر دیکھیں تو فدا ہوجائیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خاندان ہاشمی ایک اسی چراغ محمود و شمع بے دُود سے روشن تھا۔ خاندانی حمیت ہر عاقل کو ہوتی ہے خصوصاً عرب خصوصاً قریش خصوصاً بنی ہاشم میں اس کے عظیم مادہ و لہذا جب آیہ کریمہ "فاصدع بما تؤمر ؕ واعرض عن المشرکین "۱؂ ۔ ( تو اعلانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے اور مشرکوں سے منہ پھیرلو۔ ت) نازل ہوئی اور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے علانیہ دعوتِ اسلام شروع کی اشرافِ قریش جمع ہو کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہا کہ تمام عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے بڑھ کر اچھی اٹھان والا لڑکا ہم سے لے لو اُسے بجائے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پرورش کرو اور انہیں ہم کو دے دو، اور اسی ارادہ فاسد پر عمارہ بن ولید کو لے کر گئے تھے کہ ابوطالب نے مانا تو اسے انہیں دے دیں گے، ابو طالب نے کہا :"واﷲ لبئس ماتسوموننی اتطوننی ابنکم اغذوہ لکم واعطیکم ابنی تقتلونہ ھذا واﷲ مالا یکون ابدا حین تروح الابل فانہ حنت ناقۃ الی غیر فصیلہا دفعتہ الیکم "۔خدا کی قسم کیا بُری گاہکی میرے ساتھ کررہے ہو، کیا تم اپنا بیٹا مجھے دو کہ میں تمہارے لیے اسے کھلاؤں پرورش کروں اور میں اپنا بیٹا تمہیں دے دوں کہ تم اسے قتل کرو، خدا کی قسم یہ کبھی ہونی نہیں، جب اُونٹ شام کو نکلتے ہیں تو اگر کوئی ناقہ اپنے بچے کو چھوڑ کر دوسری کی طرف میل کرتی ہو تو میں بھی تم سے اپنا بیٹا بدل لوں۔لخصناہ حدیث ابن اسحٰق ذکرناہ بلاغا ومن حدیث مقاتل ذکر ہ فی المواہب۲؂ ( ہم نے اس کو حدیث ابن اسحق سے ملحض کیا جسے انہوں نے مفصل بیان کیا اور ہم نے ملحض کیا اور حدیث مقاتل سے جس کو مواہب میں ذکر کیا گیا ہے۔ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۵ /۹۴) (۲؂المواھب اللدنیۃ)

ابوطالب نے صاف بتادیا کہ ان کی محبت وہی ہے جو انسان تو انسان حیوان کو بھی اپنے بچے سے ہوتی ہے، ایسی محبت ایمان نہیں، ایمان حُبِّ شرعی ہے، ابوطالب میں اس کی شان نہیں، محبت شرعی وایمانی ہوتی تو نار کو عار پر اختیار اور دمِ مرگ کلمہ طیبہ سے انکار اور ملتِ جاہلیت پر اصرار کیوں ہوتا۔

امام قسطلانی ارشاد الساری میں فرماتے ہیں :قد کان ابوطالب یحوطہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و ینصرہ ویحبہ حبا طبعیا لاشرعیا فسبق القدرفیہ واستمر علی کفرہ وﷲ الحجۃ السامیۃ۱؂ ۔یعنی ابو طالب نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نصرت و حمایت سب کچھ کی، طبعی محبت بہت کچھ رکھی۔ مگرشرعی محبت نہ تھی،آخر تقدیرِ الہٰی غالبآئی اور معاذ اﷲ کفر پر وفات پائی اور اﷲ ہی کے لیے ہے حجت بلند۔

( ۱ ؎ ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصّہ ابی طالب دارالکتاب العربی بیروت ۶ /۲۰۱)

نسیم الریاض میں ہے :حنونہ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و محبتہ لہ امر مشہور فی السیروکان یعظمہ ویعرف نبوتہ ولکن لم یوفقہ اﷲ للاسلام و فی الامتناع ان فیہ حکمۃ خفیۃ من اﷲ تعالٰی لانہ عظیم قریش لایمکن احدامنھم ان یتعدی علی ما فی جوارہ فکان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی بدء امرہ فی کنف حمایتہ یذبھم عنہ کما قال ؎ع
واﷲ لن یصلواالیک بجمعہم حتی اوسد فی التراب دفینا
فلواسلم لم یکن لہ ذمۃ عندھم ولذالم یکن لہ صلی اﷲ علیہ علیہ وسلم بعد موتہ بد من الھجرۃ۲؂نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ابوطالب کی مہرو محبت مشہور ہے اور تعظیم و معرفت نبوت معلوم، مگراﷲ تعالٰی نے مسلمان ہونے کی توفیق نہ دی،اور کتاب الامتاع میں فرمایا :ابوطالب کے مسلمان نہ ہونے میں اللہ تعالٰی کی ایک باریک حکمت ہے وہ سردارِ قریش تھے کوئی ان کی پناہ پر تعدی نہ کرسکتا تھا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابتدائے اسلام میں ان کی حمایت میں تھے وہ مخالفوں کو حضور سے دفع کرتے تھے ، خود ایک شعر میں کہا ہے۔
خدا کی قسم تمام قریش اکٹھے ہوجائیں تو حضور تک نہ پہنچ سکیں گے جب تک میں خاک میں دبا کر لٹا نہ دیا جاؤں ۔
تو اگر وہ اسلام لے آتے قریش کے نزدیک ان کی پناہ کوئی چیز نہ رہتی، آخر ان کے انتقال پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ہجرت ہی فرمانی ہوئی۔

( ۲ ؎ نسیم الریاض القسم الاول الباب الاول الفصل الخامس مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۱ /۲۱۰)

اقول : قربِ انتقال تک اسلام نہلانے کی یہ حکمت ہوسکتی ہے، مرتے وقت کفر پر اصرار کی حکمت اﷲ جانے یا اس کا رسول ، شاید اس میں اولاً: یہ نکتہ ہو کہ اگر اسلام لا کر مرتے مخالف گمان کرتے کہ اﷲ کے رسول نے ہمارے ساتھ معاذ اﷲ فریب برتا ، اپنے چچا کو مسلمان تو کرلیا تھا مگر پناہ و ذمہ رکھنے کے لیے ظاہر نہ ہونے دیا جب اخیر وقت آیا کہ اب وہ کام نہ رہا ظاہرکروایا۔

ثانیا اُن مسلمانون کی تسکین بھی ہے جن کے بزرگ حالتِ کفر میں مرے جس کا پتاحدیث ان ابی و باک ۔۱؂دیتی ہے اوّل ناگوار ہوا جب اپنے چچا کو شامل فرمایا سکون پایا۔

(۱؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان ان من مات علی الکفر الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۱۴)

ثالثا مسلمانوں کے لیے اُسوہ حسنہ قائم فرمانا کہ اپنے اقارب جب خدا کے خلاف ہوں اُن سے براء ت کریں مرنے پر جنازہ میں شریک نہ ہوں، نماز نہ پڑھیں، دُعائے مغفرت نہ کریں کہ جب خود اپنے حبیب کو منع فرمایا تو اوروں کی کیا گنتی۔

رابعاً عمل میں اخلاص ﷲ و خوف وانقیاد کی ترغیب اور محبوبانِ خدا سے نسبت پر بھول بیٹھنے سے ترہیب ، جب ابوطالب کو ایسی نسبت قریبہ بان کارہائے عجیبہ بوجہ نامنقادی کام نہ آئی تو اور کیا چیز ہے۔" الٰی غیر ذلک مما اﷲ ورسولہ بہ اعلم جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم " (اس کے علاوہ دیگر وجوہ جنہیں اﷲ تعالٰی جل جلالہ اور سول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ت)

شبہہ رابعہ ____ نعت شریف____

اقول : یہ تو اور حجت الہٰیہ قائم ہونا ہے جب ایسا جانتے ہو پھر کیوں نہیں مانتے یہود عنود قبلِ طلوعِ شمس رسالت کیا کچھ نعت و مدحت نہ کرتے جب کوئی مشکل آتی مصیبت منہ دکھاتی حضور سے توسّل کرتے جب دشمن کا مقابلہ ہوتا دُعا مانگتے۔اللھم انصرنا علیہم بالنبی المبعوث فی اٰخر الزمان الذی نجدصفتہ فی التورٰتہ۲؂ ۔الہٰی ہمیں اُن پر مدد دے صدقہ نبی آخر الزمان کا جس کی نعت ہم تورات میں پاتے ہیں۔

(۲؂البحرالمحیط تحت الآیۃ ۲/ ۷۹ دار الفکر بیروت ۱/ ۳۰۳)

پھر جان کر نہ ماننے کا کیا نتیجہ ہوا یہ جو قرآن عظیم نے فرمایا:وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ما عرفوا کفروابہ فلعنہ اﷲ علی الکفٰرین ۔۱؂اور اس سے پہلے وہ اس نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا تو ا سے منکر ہو بیٹھے، تو اللہ کی لعنت ہو منکروں پر۔(ت)

(۱؂القرآن الکریم ۲/ ۷۹)

اصابہ میں فرماتے ہیں:اماشھادۃ ابی طالب بتصدیق النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم فالجواب عنہ وعما ورد من شعرابی طالب فی ذلک انہ نظیر ماحکی اﷲ تعالٰی عن کفار قریش "وجحدوا بہا واستیقنتہا انفسھم ظلماً وعلوا فکان کفرھم عنادا ومنشؤہ من الانفۃ والکبر والٰی ذلک اشار ابوطالب بقولہ لولا ان تعیرنی قریش "۔۲؂یعنی ابوطالب کے ان اشعار وغیرہا (جن میں تصدیق نبی کی شہادت ہے) کا جواب یہ ہے کہ وہ اسی قبیل سے ہے جو قرآن عظیم نے کفار کا حال بیان فرمایا کہ براہ ظلم و تکبر منکر ہوتے اور دل میں خوب یقین رکھتے ہیں تو یہ کفر عناد ہوا اور اس کا منشاء تکبر اور اپنے نزدیک بڑی ناک والا ہوناہے خود ابوطالب نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ اگر قریش کی طعنہ زنی کا خیال نہ ہوتا تو اسلام لے آتا۔

( ۲ ؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء ترجمہ ۶۸۵ ابو طالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

شبہہ خامسہ____ حضور کا استغفار فرمانا ____

اقول: اوّلاً اس کا جواب خود رب الارباب جل جلالہ، دے چکا، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قید لگادی تھی مالم انہ عند تیرے لیے استغفار فرماؤں گا جب تک منع نہ کیا جاؤں گا۔ رب العزۃ جل جلالہ نے منع فرمادیا اب اس سے استناد خرط القتاد۔
ثانیاً خود یہ وعدہ ہی کلمہ طیبہ سے انکار سُن کر ارشاد ہوا تھا۔ دیکھو حدیث دوم ، پھر اسے دلیلِ اسلام ٹھہرانا عجب ہے۔

شبہہ سادسہ ____ حکایت جامع الاصول ____

اقول : سید اہلبیت رضی اللہ تعالٰی عنہم مولٰی کرم اﷲ وجہہ الکریم ابوطالب کو مشرک کہتے باوصف حکم اقدس غسل وکفن میں تامل عرض کرتے سیّدالسادات سیّد الکائنات علیہ وآلہ افضل الصلوۃ واکمل التحیات اسے مقرر رکھتے، جنازہ میں شرکت سے باز رہتے، سیدنا جعفر بن ابی طالب وامیر المومنین علی رضی اللہ تعالٰی عنہما بوجہ اسلام ترکہ کفارسے محرومی پاتے، سیدامام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی وجہ کفرِ ابی طالب بیان فرماتے۔امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ختن اہل بیت اسے کافرکا ترکہ مومن کو نہ ملنے کی دلیل ٹھہراتے۔

سیدنا عباس عمّ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورضی اﷲ تعالٰی عنہ اُن کے حال سے سوال کرکے وہ جواب پاتے۔ سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آیت" وان یھلکون الا انفسہم "کا ابو طالب کے حق میں نزول بتاتے اور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے حدیث ہشتم اور اُمّ المومنین ام سلمہ زوجہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ہفتم امیرالمومنین علی برادرِ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث پانز دہم روایت فرماتے ہیں : یہ سروران وسردارانِ اہل بیت کرام ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ، ان کے بعد وہ کون سے اہلبیت قائلِ اسلام ابوطالب ہوئے، کیا قرآن و حدیث و اطباق ائمہ قدیم و حدیث کے مقابل ایسی حکایات بے زمام و خطام کچھ کام دے سکتی ہیں، حاشا ، لاجرم شیخ محقق مدارج النبوت میں فرماتے ہیں :ازاعمام پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غیر حمزہ و عباس مسلمان نہ شدہ اند وابوطالب و ابولہب زمانِ اسلام را دریافتہ اما توفیق اسلام نیافتہ جمہور علماء برین اند و صاحبِ جامع الاصول آوردہ کہ زعم اہلبیت آن ست کہ ابوطالب مسلمان از دنیا رفتہ واﷲ اعلم بصحتہ کذا فی روضۃ الاحباب ۱؂ ۔پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچوں میں سے حضرت حمزہ و عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے سوا کوئی مسلمان نہ ہوا، ابو طالب وا بولہب نے اسلام کا زمانہ پایا مگر اسلام لانے کی توفیق نہ پائی۔ جمہور علماء کا موقف یہی ہے ، اور صاحبِ جامع الاصول نے ذکر کیا ہے کہ اہل بیت کا گمان یہ ہے کہ ابو طالب مسلمان ہو کر دنیا سے گئے ہیں، اس کی صحت کا حال اﷲ تعالٰی خوب جانتا ہے، یونہی روضۃ الاحباب میں ہے۔(ت)

( ۱ ؎ مدارج النبوۃ باب سوئم در ذکر اعمام النبی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر پاکستان ۲ /۴۹۰)

اقول : علماء کا جا بجا کفرِ ابی طالب پر اجماع نقل فرمانا اور اسلامِ ابی طالب کا قول مزعوم روافض بتانا، جس کے نقول اگلے فصول میں مذکور و منقول ، اس حکایت بے سرو پا کے رد کو بس ہے، کیا باوصف خلافائمہ اہلبیت اجماع منعقد ہوسکتا یا معاذ اﷲ ان کا خلاف لایعتد بہ ٹھہرا کر دعوٰی اتفاق فرمادیا جاتا اور جب خود اپنےائمہ کرام میں خلاف حاصل تو جانب اجانب اعنی روافض قصر نسبت پر کیا حامل، پس عندالتحقیق یہ حکایت بے اصل اور محکی عنہ معدوم و باطل ، ہاں اگر سادات زید یہ کہ ایک فرقہ روافض ہے مراد ہوں تو عجب نہیں اور شبہہ زائل۔

شبہہ سابعہ ____ عبارت شرح سفر السعادۃ ____

اقول : یہ تہمت محض ہے شیخ محقق رحمۃ اﷲ علیہ کی عبارتیں خود اسی شرح صراط المستقیم وغیرہ تصانیف سے اوپر گرچکیں جو اس کی تکذیب کو بس ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں : حدیث صحیح ابو طالب کا کفر ثابت کرتی ہے علمائے اہل سنت ابو طالب کا کفر مانتے ہیں شیعہ انہیں مسلمان جانتے ہیں انکے دلائل مردود و باطل ہیں۔ ان سب تصریحات کے بعد توقف کا کیا محل، ہاں یہ عبارت مدارج شریف میں نسبت آباء و اجداد حضور سید انام علیہ افضل الصلوۃ والسلام تحریر فرمائی ہے۔حیث قال متاخران ثابت کردہ اندکہ آباء واجداد آن حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پاک ومصفا بودند ازدنس شرک وکفر باری کم ازاں نہ باشد کہ دریں مسئلہ توقف کنندو صرفہ نگاہ دارند۱؂ ۔جہاں فرمایا کہ متاخرین نے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آباء و اجداد شرک و کفر باری تعالٰی کی میل کچیل سے پاک و صاف ہیں کم از کم اس مسئلہ میں انہوں نے توقف کیا ہے اور احتیاط کو ملحوظ رکھا ہے۔(ت)

( ۱ ؎ مدارج النبوۃ باب سوم وفات یافتن ابوطالب مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۴۹ )

شبہہ ثامنہ ____ وصیت نامہ____

اقول: اولاً وہ ایک حکایت منقطعہ ہے جس کا منتہائے سند ایک رافضی غالی، مواہب شریف میں جس سے عمرو ناقل یہ وصیت نامہ یوں منقول :حکی عن ھشام بن السائب الکلبی اوابیہ انہ قال لما حضرت ابا طالب الوفاۃ جمع الیہ وجوہ قریش ۲ ؎ الخیعنی ہشام بن سائب کلبی کو فی یا اس کے باپ کلبی سے حکایت کی گئی کہ ابوطالب نے مرتے وقت عمدگان قریش کو جمع کرکے وصیت کی۔

( ۲ ؎المواہب اللدنیۃ عام الحزن وفاۃ ابی طالب المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۶۵)

ہشام وکلبی دونوں رافضی مطعون ہیں۔ میزان الاعتدال میں ہے :قال البخاری ابوالنضر الکلبی ترکہ یحیٰی وابن مھدی قال علی ثناء یحیٰی عن سفین قال الکلبی کلما حدثتک عن ابی صالح فہو کذب ،و قال یزیدبن زریع ثناء الکلبی وکان سبائیا قال الاعمش اتق ھذہ السبائیۃ فانی ادرکت الناس وانما یسمّونھم الکذابین، التبوذکی سمعت ھما ما یقول سمعت الکلبی یقول انا سبائی عن ابی عوانۃ سمعت الکلبی یقول انا سبائی عن ابی عوانۃ سمعت الکلبی یقول کان جبرئیل یملی الوحی علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فلما دخل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الخلاء جعل یملی علی علیٍّ ، قال الجوز جانی وغیرہ کذاب وقال الدار قطنی وجماعۃ متروک وقال ابن حبان مذھبہ فی الدین ووضوع الکذب فیہ اظھر من ان یحتاج الی الاغراق فی وصفہ لایحل ذکرہ فی الکتاب فکیف الاحتجاج بہ ۱؂ ا ھ ملتقطا"

امام بخاری نے فرمایا ابو نضرکلبی کو امام یحیٰی ی بن معین و امام عبدالرحمن بن مہدی نے اسے متروک کیا۔ امام سفین فرماتے ہیں۔ مجھ سے کلبی نے کاہ جتنی حدیثیں میں نے آپ کے سامنے ابوصالح سے روایت کی ہیں وہ سب جھوٹ ہیں، یزید بن زریع نے کہا : قلبی رافضی تھا۔ امام سلیمٰن اعمش تابعی نے فرمایا کہ ان رافضیوں سے بچو، میں نے علماء کو پایا کہ ان کا نام کذاب رکھتے تھے تبوذ کی کہتے ہیں میں نے ہمام سے سُنا وہ کہتی ہیں میں نے خود کلبی کو کہتے سنا کہ میں رافضی ہوں۔ ابوعوانہ کہتے ہیں کلبی نے میرے سامنے کہا کہ جبرئیل نبی کو وحی لکھاتے تھے جب حضور بیت الخلاء کو تشریف لے جاتے تو مولٰی علی ( کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم) کو لکھانے لگتے۔ جو زجانی وغیرہ نے کہا۔ کلبی کذاب ہے، دارقطنی اور ایک جماعت علماء نے کہا : متروک ہے۔ ابن حبّان نے کہا اس کا مذہب دین میں اور اس میں کذب کا وضوع ایسا روشن ہے کہ محتاجِ بیان نہیں کتابوں میں اس کا ذکر کرنا حلال نہیں اور نہ اس سے سند لانا اھ ملتقطاً۔

( ۱ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۷۵۷۴ محمد بن سائب الکلبی دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۵۵۷تا ۵۵۹)

اُسی میں ہے :ہشام بن محمد بن السائب الکلبی قال احمد بن حنبل انما کان صاحب سمر و نسب ما ظننت ان احدا یحدث عنہ وقال الدارقطنی وغیرہ متروک وقال ابن عساکر رافضی لیس بثقۃ۲؂ ۔امام احمد نے کلبی کے بیٹے ہشام کی نسبت فرمایا : وہ تو یہی کچھ کہانیاں کچھ نسبت نامے جانتا تھا مجھے گمان نہ تھا کہ کوئی اس سے حدیث روایت کرے گا۔ امام دارقطنی وغیرہ نے فرمایا : متروک ہے۔ امام ابن عساکر نے کہا : رافضی نامعتمدہے۔

( ۲ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۹۲۳۷ ہشام بن محمد السائب دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۳۰۴)

ثانیاً خود اُسی وصیت نامہ میں وہ لفظ منقول جن میں صاف اپنے حال کی طرف اشارہ ہےکہ اُن حاضرین سے کہا:قدجاء بامرقبلہ الجنان وانکرہ اللسان مخافۃ الشناٰن۱؂ ۔محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے پاس وہ بات لے کر آئے جسے دل نے مانا اور زبان نے انکار کیا اس خوف سے کہ لوگ دشمن ہوجائیں گے۔

( ۱ ؎ المواہب اللدنیہ عام الحزن وفاۃ ابی طالب المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۶۵)

علامہ زرقانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:لما تعیرونہ بہ من تبعیتہ لابن اخیہ۲؂ ۔یعنی وہ خوف یہ ہے کہ تم عیب لگاؤ گے کہ وہ اپنے بھیتجے کا تابع ہوگیا۔

( ۲ ؎ شرح الزرقانی المواہب اللدنیۃ وفاۃ خدیجۃ و ابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۵)

یعنی بھتیجا تو بیٹے کی مثل ہے انہیں امام بناتے آپ غلام بنتے عار آتی ہے، تم طعنہ کرو گے اس لیے اسلام سے انکار ہے اگرچہ دل پر اُن کا صدق آشکار ہے۔

ثالثاً نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے باب میں اُن سے بعض وصایا ضرور منقول مگر جب اوروں کو وصیت ہو خود جاہلی حمیت ہو تو اس سے کیا حصول ۔قال اﷲ تعالٰی : " کبر مقتاعنداﷲ ان تقولوا مالا تفعلون "۳؂ ۔اﷲ کو سخت دشمن ہے یہ بات کہ کہو اور نہ کرو۔

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۶۱ /۳)

تندرستی میں بھی یہی برتاؤ تھا کہ اوروں کو ترغیب دینا اور آپ بچنا وہی انداز وقتِ مرگ برتا۔اصابہ میں فرمایا :وھوامرابی طالب ولدیہ باتباعہ فترکہ ذلک ھو من جملۃ العناد وھو ایضاً من حسن نصرتہ لہ و ذبہ عنہ و معاداتہ قومہ بسببہ۴؂ ۔رہا یہ کہ ابو طالب کا اپنے بیٹوں حیدر کرار و جعفر طیار رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہنا کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیروی کرو تو خود اس کا ترک کرنا یہ عناد میں سے ہے اور یہ ترغیب پیروی بھی اُن کی اُسی خوبی مدد و حمایت اور حضور کے باعث اپنی قوم سے مخالفت ہی میں داخل ہے۔

( ۴ ؎ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع ابوطالب دارصاد ر بیروت ۴ /۱۱۷)

یعنی جہاں وہ سب کچھ تھا این ہم برعلم ایمان بے اذعان ملنا کیا امکان، ولہذا علمائے کرام جہاں ابوطالب سے یہ امور نقل فرماتے ہیں وہیں موت علی الکفر کی بھی تصریح کر جاتے ہیں اسی مواہب اللدنیہ اور اُن کی دوسری کتاب ارشاد الساری کے کتنے کلمات اوپر گزرے۔

مجمع البحار میں ہے : فی العاشرۃ دناموت ابی طالب فوصی بنی المطلب باعانتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ومات فقال علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ان عمک الضال قدمات قال فاغسلہ وکفنہ و وارہ غفر اﷲ لہ فجعل یستغفرلہ ایاماحتی نزل " مکان للنّبی"۱؂ ۔یعنی نبوت سے دسویں سال ابو طالب کو موت آئی بنی عبدالمطلب کو مددگاری نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وصیت کرکے مرگئے۔ اس پر مولا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم نے عرض کی : حضور کا چچا مر گیا۔ فرمایا : نہلا کفنا کر دبا دے اﷲ اُسے بخشے۔ دعائے مغفرت فرماتے رہے یہاں تک کہ آیت اتری نبی کو روا نہیں کہ مشرکوں جہنمیوں کی بخشش مانگے۔

( ۱ ؎ مجمع بحارالانوار فصل فی السیر بیان ارضاعہ مکتبہ دار الایمان مدینۃ المنورۃ ۵/ ۲۷۲)

علامہ حفنی حاشیہ شرح ہمزیہ میں لکھتے ہیں:" قال القرطبی فی المفہم کان ابو طالب یعرف صدق رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی کل مایقولہ ویقول لقریش تعلمون واﷲ ان محمدا لم یکذب قط ویقول لا بنہ علی اتبعہ فانہ علی الحق غیرانہ لم یدخل فی الاسلام ولم یزل علی ذلک حتی حضوتہ الوفاۃ فدخل علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم طامعاً فی اسلامہ حریصاً علیہ باذلافی ذلک جہدہ مستفرغا ما عندہ ولکن عاقت عن ذلک عوائق الاقدار التی لاینفع معہا حرص ولا اعتذار۱؂ ۔

یعنی امام قرطبی نے مفہم شرح صحیح مسلم میں فرمایا : ابو طالب خوب جانتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں سب حق ہے قریش سے کہتے خدا کی قسم تمہیں معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کوئی کلمہ خلافِ واقع نہ فرمایا اپنے بیٹے علی کرم اﷲ وجہہ سے کہتے ان کے پیرو رہنا کہ یہ حق پر ہیں پر سب کچھ تھا مگر خود اسلام میں نہ آئے موت آنے تک اسی حال پر رہے اس وقت حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما ہوئے اس امید پر کہ شاید مسلمان ہوجائیں، اس کی حضور کو سخت خواہش تھی جو کچھ کوشش ممکن تھی سب خرچ فرمادی مگر وہ تقدیریں آڑے آئیں جن کے آگے نہ خواہش چلتی ہے نہ عذر۔

"وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم "۔اور اﷲ تعالٰی ہمیں کافی ہے کیا ہی اچھا کارساز ہے، اور نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی توفیق سے ۔(ت)

شبہہ تاسعہ : الحمدﷲ عمرو کے سب شبہات حل ہوگئے اور وہ شبہات ہی کیا تھے محض مہملات تھے اب ایک شبہہ باقی رہا جس سے زمانہ قدیم میں بعض روافض نے اپنے رسالہ " اسلام ابی طالب" میں استناد کیا اور اکابرائمہ علمائے اہل سنت مثل امام اجل بیھقی و امام جلیل سہیلی و امام حافظ الشان ابن حجر عسقلانی و امام بدر الدین محمود عینی و امام احمد قسطلانی و امام ابن حجر مکی و علامہ حسین دیار بکری وعلامہ محمد زرقانی و شیخ محقق دہلوی وغیرہم رحمہم اﷲ تعالٰی نے متعدد وجوہ سے جواب دیا۔ سُنّی کے لیے تو اسی قدر سے جواب ظاہر ہوگیا کہ استدلال کرنے والا ایک رافضی اور جواب دینے والےائمہ و علمائے اہلسنت مگر تتمیم فائدہ کے لیے فقیر غفرلہ المولی القدیر وہ شبہہ اور علماء کے اجوبہ ذکر کرکے جو کچھ فیض قدیر سے قلب فقیر پر فائض ہوا تحریر کرے۔ وباﷲ التوفیق : ابن اسحٰق نے سیرۃ میں ایک روایت شاذہ ذکر کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو طالب کے مرض الموت میں اشرافِ قریش جمع ہو کر ان کے پاس گئے کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سمجھا دو کہ ہمارے دین سے غرض نہ رکھیں، ہم ان کے دین سے تعرض نہ کریں ابو طالب نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بلا کر عرض کی، حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں یہ ایک بات کہہ لیں جس سے تم تمام عرب کے مالک ہوجاؤ اور عجم تمہاری مطیع ابوجہل لعین نے عرض کی حصور ہی کے باپ کی قسم ایک بات نہیں دس باتیں ۔ فرمایا : تولا الہٰ اﷲکہہ لو۔ اس پر کافر تالیاں بجا کر بھاگ گئے۔ ابوطالب کے منہ سے نکلا ، خدا کی قسم حضور نے کوئی بے جا بات تو ان سے نہ چاہی تھی اس کہنے سے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اُمید پڑی کہ شاید یہی مسلمان ہوجائے ۔ حضور نے بار بار فرمانا شروع کیا : اے چچا ! تو ہی کہہ لے جس کے سبب سے میں تیری شفاعت روزِ قیامت حلال کرلوں۔ جب ابوطالب نے حضور کی شدتِ خواہش دیکھی تو کہا۔ اے بھتیجے ! میرے خدا کی قسم اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ حضور کو اور حضورکے باپ ( یعنی خود ابو طالب ) کے بیٹو ں کو طعنہ دیں گے کہ نزع کی سختی پر صبر نہ ہوا کلمہ پڑھ لیا ۔ تو میں پڑھ لیتا ، اور وہ بھی اس طرح پڑھتا" لا اقولھا الا لا سرک بہا " ( میں نہ کہتا وہ کلمہ مگر اس لیے کہ آپ کو خوش کروں) صرف اس لیے کہ حضور کی خوشی کردوں۔ یہ باتیں نزع میں تو ہو ہی رہی تھیں جب روح پرواز کرنے کا وقت نزدیک آیا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے لبوں کی جنبش دیکھی کان لگا کر سنا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی :" یا ابن اخی واﷲ لقد قال اخی الکلمۃ التی امرتہ ان یقولہا"اے میرے بھتیجے ! خدا کی قسم میرے بھائی نے وہ بات کہہ لی جو حضور اقدس اس سے کہلواتے تھے : قال فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم اسمع۱؂ ۔سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہ سُنی۔

( ۱ ؎ السیرۃ النبویۃ لابن ہشام وفاۃ ابی طالب وخدیجہ دارابن کثیر والتوزیع للطباعۃ والنشیر القسم الاول ۱۸۔۴۱۷)

یہ وہ روایت ہے علماء نے اس سے پانچ جواب دیئے۔
اوّل : یہ روایت ضعیف و مردود ہے ، اس کی سند میں ایک راوی مبہم موجود ہے، یہ جواب امام بیہقی پھر امام حافظ الشان ابن حجر عسقلانی و امام بدرالدین محمود عینی و امام ابن حجر مکی و علامہ حسین دیار بکری و علامہ زرقانی وغیرہم نے افادہ فرمایا ۔

خمیس میں ہے : قال البیھقی انہ منقطع الخ وسیأتی تمامہ۲؂ ۔بیہقی نے کہا یہ منقطع ہے الخ اس کی پوری تفصیل عقنریب آرہی ہے۔ (ت)

( ۲ ؎ تاریخ الخمیس وفاۃ ابی طالب مؤسستہ شعبان بیروت ۱ /۳۰۰)

عمدۃ القاری میں ہے :فی سندہ من لم یسم ۳؂۔اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جس کا نام نہیں لیا گیا ۔(ت)

( ۳ ؎ عمدۃ القاری کتاب المناقب الانصار باب قصۃ ابی طالب تحت حدیث ۳۸۸۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۷ /۲۳)

شرح مواہب میں ہے :روایۃ ابن اسحٰق ضعیفہ ۴؂ ۔ابن اسحاق کی روایت ضعیف ہے۔(ت)

( ۴ ؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول وفاۃ خدیجۃ وابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۱)

اسی میں ہے :فیہ من لم یسم ۱؂ ۔اس کی سند میں ایک ایسا راوی ہے جس کا نام نہیں لیا گیا ۔(ت)

(۱؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول وفاۃ خدیجۃ وابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۱)

شرح حمزیہ میں ہے :روایۃ ضعیفۃ عن العباس انہ اسرالیہ الاسلام عند موتہ۲؂ ۔حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک ضعیف روایت ہے کہ ابو طالب نے بوقتِ موت راز داری سے انہیں اسلام کی خبر دی ۔ت)

(۲؂ )

اصابہ میں ہے :لقدوقفت علٰی تصنیف لبعض الشیعۃ اثبت فیہ اسلام ابی طالب منہا مااخرجہ عن محمد بن اسحٰق الٰی ان قال بعد نقل متمسکات الرافضی، اسانید ھٰذہ الاحادیث واھیۃ۳؂ ۔یعنی میں نے ایک رافضی کا رسالہ دیکھا جس میں اس نے بعض روایات سے اسلامِ ابی طالب ثابت کرنا چاہا ہے ، ازاں جملہ یہ روایت ابن اسحٰق ہے۔ ان سب کی سندیں واہی ہیں۔

(۳؂ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۶)

اقول : وباﷲ التوفیق ھٰھنا امور یجب التنبہ لھا : اقول : ( میں کہتا ہوں) اور توفیق اﷲ تعالٰی کی طرف سے ہے، یہاں چند امور ایسے ہیں جن پر آگاہ ہونا ضروری ہے۔

اولہا : لیس المنقطع ھٰہنا فی کلام البیھقی بالاصطلاح المشہور عند الجمہور انہ الذی سقط من سندہ راوٍ امّا مطلقاً اوبشرط ان لایسقط ازید من واحد علی التوالی وھو المرسل علی الاول اومنہ علی الثانی باصطلاح الفقہاء واھل الاصول واذا نظفت رجالہ فعندنا وعند الجمھور مقبول کیف و ذلک خلاف الواقع فی روایۃ ابن اسحٰق فان سندہ علٰی مارأیت فی سیرۃ ابن ہشام ونقلہ الحافظ وغیرہ فی الفتح وغیرہ ھکذا حدثنی العباس بن عبداﷲ بن معبد عن بعض اھلہ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۱؂ وھذا لا انقطاع فید کما تری و لامساغ لا رادۃ الانقطاع من قبل ان ابن عباس لم یدرک الواقعۃ فانہ انما ولدعام مات ابوطالب ولد قبل الھجرۃ بثلث سنین کما فی التقریب۲؂ وکذلک ارخ ابن الجزار موت ابی طالب قبل ھجرتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بثلث سنین کما فی المواہب ۳؂

پہلا امر : منقطع یہاں پر بیہقی کے کلام میں اُس معنی میں استعمال نہیں ہوا جو جمہور کے نزدیک مشہور اصطلاح ہے، یعنی وہ حدیث جس کی سند سے کوئی راوی ساقط ہوگیا ہو یا مطلقاً یا اس شرط کے ساتھ کہ اس کی سند میں ایک سے زائد راوی پے درپے ساقط نہ ہوئے ہوں، بصورتِ اوّل وہ مرسل ہے، اور بصورت ثانی مرسل کی ایک نوع ہے فقہاء اور اہلِ اصول کی اصطلاح میں ، اور جب اس کے رجل عادل ہوں تو وہ ہمارے نزدیک اور جمہور کے نزدیک مقبول ہے اور جمہور کی اصطلاح میں یہ کیسے منقطع ہوسکتی ہے حالانکہ ابن اسحٰق کی روایت میں معنی مذکور کے خلاف واقع ہے، کیونکہ اس کی سند جیسا کہ میں نے سیرت ابنِ ہشام میں دیکھی اور حافظ وغیرہ نے اس کو فتح الباری وغیرہ میں نقل کیا وہ یوں ہے ، مجھے حدیث بیان کی عباس بن عبداﷲ بن معبد نے اپنے بعض گھر والوں سے انہوں نے عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اور اس مین جیسا کہ تُو دیکھ رہا ہے کوئی انقطاع نہیں اور نہ ہی اس جہت سے انقطاع مراد لینے کی کوئی گنجائش ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ واقعہ نہیں پایا کیونکہ آپ اس سال پیدا ہوئے جس سال ابوطالب کا انتقال ہوا۔ آپ کی ولادت ہجرت سے تین سال قبل ہوئی جیسا کہ تقریب میں ہے اور یونہی ابوطالب کی موت کی تاریخ ابن جزار نے بیان کی وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ہجرت سے تین سال پہلے فوت ہوئے جیسا کہ مواہب میں ہے۔

( ۱ ؎ السیرۃ النبویۃ لابن ہشام وفاۃ ابی طالب و خدیجہ دارابن کثیر للطباعۃ القسم الاول ص۴۱۷)
( ۲ ؎ تقریب التہذیب ترجمہ ۳۴۲۰ دارلکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۵۰۴)
( ۳ ؎ المواہب اللدنیۃ عام الحزن وفاۃ ابی طالب المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۶۲)

وذٰلک لان مراسیل الصحابۃ مقبولۃ بالاجماع ولا عبرۃ بمن شذ، فی تقریب النووی ھذا کلہ فی غیر مرسل الصحابی اما مرسلہ فمحکوم بصحتہ علی المذھب الصحیح ۔۱؂ قال فی التدریب قطع بہ الجمھور من اصحابنا وغیرھم واطبق علیہ المحدثون ۔۲؂ وفی مسلم الثبوت ان کان من الصحابی یقبل مطلقا اتفا قا ولا اعتداد لمن خالف ۔۳؂ اھ وانما سماّہ البیقھی منقطعا علی اصطلاح لہ ولشیخہ الحاکم ان المبھم ایضامن المنقطع فی التقریب و التدریب ( اذا قال) الراوی فی الاسناد ( فلان عن رجل عن فلان فقال الحاکم) ھو (منقطع لیس مرسلا وقال غیرہ مرسل) قال العراقی کل من القولین خلاف ما علیہ الاکثرون ، فانھم ذھبوا الی انہ متصل فی سندہ مجھول ، وزاد البیہقی علی ھذا فی سننہ فجعل مارواہ التابعی عن رجل من الصحابۃ لم یسم مرسلا ۱؂ اھ مختصرا ۔

اور یہ اس لیے کہ مراسیل صحابہ کے مقبول ہونے پر اجماع ہے اور جو تنہا اس موقف کے خلاف ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں، تقریب نواوی میں ہے کہ یہ سب گفتگو مرسلِ صحابی کے غیر میں ہے۔ رہا مرسل صحابی تو صحیح مذہب میں اس کے صحیح ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ تدریب میں کہا کہ ہمارے اصحاب وغیرہ جمہور نے اس حکم کو قطعی قرار دیا اور محدثین نے اس پر اتفاق کیا ہے۔ مسلم الثبوت میں ہے مرسل اگر صحابی سے ہے تو مطلقاً قبول کی جائے گی ، اور جس نے مخالفت کی اس کا کوئی اعبتار نہیں اھ بیہقی کا اُسے منقطع کہنا فقط ان کی اپنی اور ان کے شیخ امام حاکم کی اصطلاح ہے کہ ان کے نزدیک مبہم بھی منقطع ہے۔ تقریب اور تدریب میں ہے راوی نے اسناد میں جب کہا کہ فلاں نے ایک مرد سے اور اس نے فلاں سے روایت کی تو امام حاکم نے فرمایا کہ یہ منقطع ہے مرسل نہیں ہے جب کہ اس کے غیر نے کہا یہ مرسل ہے۔ عراقی نے کہا یہ دونوں قول اکثریت کے مؤقف کے خلاف ہیں کیونکہ اکثر کا مؤقف یہ ہےکہ یہ متصل ہے اس کی سند میں راوی مجہول ہے، امام بہقی نے اپنی سنن میں اس پر اضافہ کیا اور اس حدیث کو مرسل قرار دیا جس کو تابعی نے صحابہ میں سے ایک مرد سے روایت کیااس صحابی کے نام کی تصریح نہیں کی اھ اختصار۔

( ۱ ؎ تقریب النواوی مع تدریب الراوی النوع التاسع المرسل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۷۱)
(۲ ؎ تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی النوع التاسع المرسل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۷۱)
( ۳ ؎ مسلم البثوت الاصل الثانی السنۃ مسئلہ تعریف المرسل مطبع مجتبائی دہلی ص ۲۰۱)
( ۱ ؎ تقریب النووی مع تدریب الراوی النوع التاسع المرسل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۶۱ ۔ ۱۶۲)

وفیھما (النوع العاشرالمنقطع الصحیح الذی ذھب الیہ الفقہاء والخطیب و ابن عبدالبروغیرھما من المحدثین ان المنطقع مالم یتصل اسناد ہ علی ای وجہ کان انقطاعہ) فھو و المرسل واحد ( واکثرمایستعمل فی روایۃ من دون التابعی عن الصحابۃ کمالک عن ابن عمر و قیل ھو ما اختل منہ رجل قبل التابعی ) الصواب قبل الصحابی (محذوفاکان ) الرجل (اومبھما کرجل) ھذا بناء علی ماتقدم ان فلانا عن رجل یسمّی منقطعا و تقدم ان فلانا عن رجل یسمّی منقطعا وتقدم ان الاکثرین علی خلافہ، ثم ان ھذا القول ھو المشہور بشرط ان یکون السا قط واحد افقط اواثنین لا علی التوالی کما جزم بہ العراقی وشیخ الاسلام۲؂ اھ ملخصاً۔

اور ان دونوں (تقریب وتدریب) میں ہے دسویں قسم منقطع ، صحیح مؤقف جس کی طرف فقہاء کرام اور محدثین میں سے خطیب و ابن عبدالبروغیرہ گئے ہیں وہ یہ ہے کہ منقطع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند متصل نہ ہو، چاہے کسی وجہ سے انقطاع ہو، وہ اور مرسل ایک ہی ہیں، اور اس کا اکثر اطلاق ایسی حدیث پر ہوتا ہے جس میں تابعی سے نیچے درجے کا کوئی شخص صحابہ سے روایت کرے جیسے امام مالک علیہ الرحمہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کریں۔ ایک قول کے مطابق منقطع وہ حدیث ہے جس میں تابعی سے قبل ( صحیح یہ ہے کہ صحابی سے قبل) کوئی راوی مختل ہو، چاہے تو وہ محذوف ہو یا مبہم ، جیسے کہا جائے "کوئی شخص" یہ اس پر مبنی ہے جس کا پہلے ذکر ہوچکا " یعنی فلاں نے ایک شخص سے روایت کی" یہ منقطع کہلاتی ہے۔ اور ماقبل میں گزر چکا ہے کہ اکثریت اس کے خلاف ہے، پھر یہ قول اس شرط کے ساتھ مشہور ہے کہ ساقط فقط ایک راوی ہو یا دوہوں مگرپے درپے نہ ہوں جیسا کہ اس پر عراقی اور شیخ الاسلام نے جزم کیا ہے اھ تلخیص ۔

( ۲ ؎تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی النوع العاشر المنقطع قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۷۱ و ۱۷۲)

ثانیہا : لیس المبھم من المجھول المقبول عندنا وعند کثیر من الفحول اواکثرھم فان الراوی اذا لم یروعنہ الاواحد ا فمجہول العین نمشیہ نحن وکثیرمن المحققین واذا ز کی ظاھرا لا باطنا فمستور نقبلہ نحن واکثر المحققین کما بینتہ فی "منیرالعین فی حکم تقبیل الابہا مین" وظاھر ان شیئا من ھذا الایعرف الابالتسمیۃ فالمبھم لیس منھما فی شیئ بل ھو کمجھول الحال الذی لم تعرف عدالتہ باطن ولا ظاھرا وان خصصناہ ایضا بمن سمی فلیس من المجہول المصطلح علیہ اصلاً وان کان یطلق علیہ اسم المجہول نظر ا الی المعنی اللغوی ، وتحقیق الحکم فیہ ان ابھام راوغیرالصابی بغیر لفظ التعدیل کحدثنا وثقۃ لیس کحذفہ عندنا فی القبول فان الجزم مع الاسقاط امارۃ الاعتماد بخلاف الاسناد قال فی مسلم الثبوت وشرحہ فواتح الرحموت (قال رجل لایقبل فی) المذھب (الصحیح) ولیس ھذا کالارسال کما نقل عن شمس الائمۃ لان ھذا روایۃ عن مجہول والا رسال جزم بنسبۃ المتن الٰی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھذا لایکون الا بالتوثیق فافترقا ( بخلاف) قال ثقہ اورجل من الصحابۃ لان ھذا روایۃ عن ثقۃ لان الصحابۃ کلھم عدول (ولواصطلح علی معین) معلوم العدالۃ علی التعیین برجل (فلااشکال) فی القبول۱؂ اھ۔

دوسرا امر : مبہم اس مجہول میں سے نہیں جو ہمارے نزدیک اور تمام علماء ماہرین یا اکثر کے نزدیک مقبول ہے،اس لیے کہ اگر کسی راوی سے فقط ایک ہی شخص روایت کرے تو وہ مجہول العین ہے ، ہم اور کثیر محققین اس کو قبول کرتے ہیں۔اور اگر اس کا ظاہری طور پر تزکیہ ہوجائے مگر باطنی طور پر نہ ہو تو وہ مستور ہے، ہمارے اور اکثر محققین کے نزدیک یہ مقبول ہے جیسا کہ میں نے اس کو رسالہ " منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین" میں بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مجہول کی دونوں قسموں میں سے کوئی نہیں پہچاناجاتا مگر نام ذکر کرنے سے تو مبہم ان دونوں قسموں میں سے کوئی قسم بھی نہ ہوا بلکہ وہ مجہول الحال کی مثل ہے جس کی عدالت نہ ظاہری طور پر معلوم ہوتی ہے نہ باطنی طور پر، اگر ہم اس ( مجہول الحال) کو بھی مختص کرلیں اس کے ساتھ جس کا نام ذکر کیا جاتا ہے تو اس صورت میں مبہم بالکل ہی مجہول اصطلاحی میں سے نہیں ہوگا۔ اگرچہ معنی لغوی کے اعتبار سے اس پر مجہول کا اطلاق ہوگا۔ اس میں حکم کی تحقیق یہ ہے کہ غیر صحابی کا ابہام بغیرلفظ تعدیل کے جیسے مجھے حدیث بیان کی ایک ثقہ نے۔ ہمارے نزدیک قبولیت میں حذف راوی کی مثل نہیں۔کیونکہ اسقاط راوی کے باوجود اس پر جزم، اعتماد کی نشانی ہے بخلاف اسناد کے۔ مسلم الثبوت اور اس کی شرح فواتح الرحموت میں ہے کسی شخص نے کہا مجھ سے حدیث بیان کی ایک مرد نے ، تو مذہب صحیح میں قبول نہیں کی جائے گی۔ یہ ارسال کی مثل نہیں جیسا کہ شمس الائمہ سے منقول ہے، کیونکہ یہ مجہول سے روایت ہے جبکہ ارسال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف متن کی نسبت کا جزم ہے اور یہ بغیر توثیق کے نہیں ہوسکتا، تو اس طرح دونوں میں فرق ہوگیا۔ بخلاف اس کے کہ اگر کسی نے کہا مجھ سے حدیث بیان کی ایک ثقہ نے یا صحابہ کرام میں سے ایک مرد نے کیونکہ یہ ثقہ سے روایت ہے، اس لیے کہ تمام صحابہ عادل ہیں۔اگر یہ اصطلاح بنالی جائے کہ فلاں معین شخص جس کی عدالت معلوم ہے کہ " ایک مرد" کے ساتھ تعبیر کیا جائے گا تو اس کے مقبول ہونے میں کوئی اشکال نہیں۔ اھ

( ۱ ؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذل المستصفٰی منشورات الشریف الرضی قم ایران ۲ /۱۷۷)

اقول : ویتراأی لی استثناء من ابھم وقدعلم من عادتہ انہ لایروی الا عن ثقۃ کامامنا الاعظم والا مام احمد وغیرھما ممن سمیناھم فی "منیرالعین " فان المبھم امام من مجھول الحال او کمثلہ وقدصرحوا فیہ بھذا التفصیل قال فی الکتابین (فی روایۃ العدل ) عن المجہول (مذاہب) احدھا (التعدیل) فان شان العدل لایروی الاعن عدل (و) الثانی (المنع ) لجواز روایتہ تعویلا علی المجتھدانہ لایعمل الا بعد التعدیل (و) الثالث (التفصیل بین من علم) من عادتہ (انہ لایروی الاعن عدل) فیکون تعدیلا (اولا) فلا (وھو) ای الثالث (الاعدل ) وھو ظاھر ۱؂ اھ باختصار۔

اقول :( میں کہتا ہوں) میرے لیے اُس شخص کا استثناء ظاہر ہوا جس نے ابہام کیا حالانکہ اس کی عادت معروف ہے کہ بغیر ثقہ کے کسی سے روایت نہیں کرتا جیسا کہ ہمارے امام اعظم اور امام احمد اور دیگرائمہ کرام جن کے نام ہم نے "منیر العین" میں ذکر کیے ہیں۔اس لیے کہ مبہم مجہول الحال سے ہوگا یا اس کی مثل سے تحقیق اس میں علماء نے اس تفصیل کے سات تصریح فرمائی ہے، دونوں کتابوں میں کہا کہ مجہول سے عادل کی روایت کے بارے میں چند مذہب ہیں، ان میں سے ایک مذہب اس کی تعدیل ہے، کیونکہ عادل کی شان یہ ہے کہ وہ فقط عادل سے روایت کرتا ہے۔ دوسرا مذہب منع تعدیل ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس نے متجہد پر بھروسا کرتے ہوئے یہ روایت کرتی ہو کیونکہ مجتہدتعدیل کے بعد ہی عمل کرتا ہے، اور تیسرا مذہب تفصیل یعنی اگر اس کی یہ عادت معلوم ہے کہ وہ فقط عادل سے روایت کرتا ہے غیر عادل سے نہیں، تو تعدیل ہوگی ورنہ نہیں، اور یہ تیسرا مذہب زیادہ عدل والا ہے اور وہ ظاہر ہے اھ اختصار۔

( ۱ ؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذل المستصفٰی مسئلہ مجہول الحال الخ منشورات الشریف الرضی قم ایران ۲ /۱۵۰)

ثالثھا : لیس الحکم علی کافر معلوم الکفرلاسیما المدرک صحۃ لغویۃ بطریان الاسلام من باب الفضائل المقبول فیہ الضعاف باتفاق الاعلام، کیف وانہ یبتنی علیہ کثیر من الاحکام کتحریم ذکرہ الابخیر و وجوب تعظیمہ بطلب الترضی علیہ اذا ذکر بعد ماکان ذاک حراما بل ربما المنجرالی الکفر، والعیاذ باﷲ تعالٰی، وقبول قولہ فی الروایات ان وقعت الی غیر ذلک والیقین لایزول الشک والضعیف لایرفع الثابت وانما السرفی قبول الضعاف حیث تقبل انہا ثمہ لم تثبت شیئا لم یثبت کما حققناہ بما لامزید علیہ مادفع الاوھام المتطرقۃ الیہ فی رسالتنا "الھادا الکاف فی حکم الضعاف " فاذا لم تکن لتثبت مالم یثبت فکیف ترفع ماقدثبت ماھذا الاغلط وشطط وھذا واضح جدا فاتضح بحمد اﷲ ان الروایۃ ضعیفۃ واھیۃ وانہا فی اثبات ماریم منھا غیر مغنیۃ ولا کافیۃ ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ تعالٰی ولی التوفیق۔

تیسرا امر : جس کافر کا کفر معلوم ہو خصوصاً جب کہ وہ صحت لغویہ کو پانے والا ہو۔ اُس پر اسلام کے طاری ہونے کا حکم از قبیل فضائل نہیں ہے جس میں باتفاق علماء ضعیف حدیثیں بھی مقبول ہیں، ایسا کیونکر ہوسکتا ہے جب کہ اس پر بہت سے احکام کی بنیاد ہے مثلاً بھلائی کے سوا اس کے ذکر کا حرام ہونا، اس کی تعظیم کا واجب ہونا اور اس کے ذکرکے ساتھ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنا، بعد اسکے یہ حرام بلکہ بسا اوقات کفر تک پہنچادینے والی چیز ہے، اور اﷲ تعالٰی کی پناہ ، اور روایات میں اس کے قول کو قبول کرناجب کہ واقع ہوں وغیرہ ذلک ، حالانکہ یقین شک کے ساتھ زائل نہیں ہوتا، اور ضعیف حدیث ثابت کو رفع نہیں کرسکتی، ضعیف حدیثیں جہاں قبول کی جاتی ہیں وہاں ان کو قبول کرنے میں راز یہ ہے کہ وہاں ضعیف حدیثیں کسی غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرتیں جیسا کہ ہم اپنے رسالہ " الھاد الکاف فی حکم الضعاف"میں اس کی تحقیق کردی ہے جس پر زیادتی نہیں کی جاسکتی جس نے اس مسئلہ میں پیدا ہونے والے تمام وہموں کا ازالہ کردیا ہے، چنانچہ جب وہ ضعیف حدیثیں غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرسکتی ہیں تو ثابت شدہ چیز کو رفع کیسے کرسکیں گی۔ یہ محض غلط اور حق سے دُوری ہے، یہ خوب واضح ہے۔ بحمداﷲ واضح ہوگیا کہ روایت مذکورہ ضعیف اور بے ہودہ ہے اور اس سے جس مقصد کو ثابت کرنا مطلوب تھااسکے لیے یہ مفید و کافی نہیں ہے۔ یونہی تحقیق چاہیے اور اﷲ تعالٰی توفیق کا مالک ہے۔(ت)

ثانیا اگر بالفرض صحیح بھی ہوتی تو ان احادیث جلیلہ جزیلہ صحاح اصح کے مخالف تھی لہذا مردود ہوتی نہ کہ خود صحیح بھی نہیں اب اُن کے مقابل کیا التفات کے قابل اقول جواب اول بنظر سند تھا یہ بلحاظ متن ہے یعنی اگر سنداً صحیح بھی ہوتی تو متناً شاذ تھی اور ایسا شذوذ قاوح صحت یوں بھی ضعیف رہتی اب کہ سنداً بھی صحیح نہیں خاص منکر ہے اور بہرحال مردود و نامعتبر، یہ جواب بھی علمائے ممدوحین نے دیا اور امام قسطلانی و شیخ محقق نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا۔

خمیس میں بعد عبارت مذکورہ امام بیہقی سے ہے :والصحیح من الحدیث قد اثبت لابی طالب ابوفاۃ علی الکفر والشرک کما رویناہ فی صحیح البخاری۱؂ ۔یعنی حدیث صحیح ابو طالب کا کفر وشرک پر مرنا ثابت کررہی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود۔

( ۱ ؎ تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس وصیت ابی طالب مؤسسۃ شعبان للنشربیروت ۱ /۳۰۰)

بعنیہ اسی طرح مواہب میں ہے۔
عمدہ میں بعد عبارت مذکورہ اور زرقانی میں امام حافظ الشان سے ہے :ولوکان صحیحا العارضہ حدیث الباب لانہ اصح منہ فضلا عن انہ لم یصح ۔۱؂اگر یہ صحیح بھی ہوتی تو اس باب میں وارد حدیث اس کے معارض ہوتی کیونکہ وہ اس سے اصح ہے چہ جائیکہ یہ صحیح ہی نہیں ۔(ت)

( ۱ ؎ عمدۃ القاری کتاب مناقب الانصار حدیث ۳۸۸۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۷ /۲۳)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۳)

اصابہ میں بعد کلام سابق ہے :وعلی تقدیر ثبوتھا فقد عارضہا ماھواصح منہا ۲؂ ۔اور اس کے ثبوت کی تقدیر پر وہ حدیث اس کے معارض ہے جو اس سے اصح ہے۔(ت)

( ۲ ؎ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع دارصادر بیروت ۴ /۱۱۶)

پھر حدیث دوم لکھ کر فرمایا :فھذا ھوالصحیح الذی یردالروایۃ التی ذکرھا ابن اسحٰق۳؂ ۔یہ حدیث صحیح روایت ابن اسحاق کو رَد کررہی ہے۔

( ۳ ؎ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

شرح ہمزیہ کی عبارت اوپر گزری:صرائح الاحادیث المتفق علی صحتہا ترد ذٰلک ۴؂ ۔صریح حدیثیں جن کی صحت پر اتفاق ہے اسے رَد کررہی ہیں۔

( ۴ ؎ شرح ھمزیۃ)

مدارج النبوۃ میں ہے : دراحادیث و اخبار اسلام دے ثبوت نیافتہ جزانچہ درروایت ابن اسحق آمدہ کہ وے اسلام آور د نزدیک بوقتِ مرگ و گفتہ کہ چوں قریب شد موت وے و عباس گفت یا ابنَ اخی ! واﷲ بتحقیق گفت برادر من کلمہ را کہ امرکردی تو او رابداں کلمہ و درروا تیے آمدہ کہ آنحضرت گفت من نشنیدم باآنکہ حدیث صحیح اثبات کردہ است برائے ابوطالب کفر را ھ مختصراً ۱؂۔اخبار و احادیث میں ابوطالب کا اسلام ثابت نہیں ہوا سوائے اُس روایت کے جو ابن اسحاق سے مروی ہے کہ وہ وقتِ موت کے قریب اسلام لے آئے تھے ابن اسحاق نے کہا کہ جب ابوطالب کا وقت موت قریب ہوا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا : اے میرے بھیتجے ! بخدا میرے بھائی نے وہ کلمہ کہہ دیا ہے جس کا آپ نے اس کو حکم دیا ہے، ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا باوجود یہ کہ حدیث صحیح نے کفر ابوطالب کو ثابت کردیا ہے اھ اختصار (ت)

( ۱ ؎ مدارج النبوۃ باب دوئم وفات یافتن ابوطالب مکتبہ نوریہ رضویہ سکھرپاکستان ۲ /۴۸)

یہ کلام حضرت شیخ رحمہ اﷲ تعالٰی کا ہے اور فقیر غفر اﷲ تعالٰی لہ نے یہاں ہامش مدارج پر اپنے دو حاشیے لکھے پائے جن کی نقل خالی از نفع نہیں۔

" اوّل قول شیک جز آنچہ درروایت ابن اسحٰق آمدہ بربریں عبارت اقول ایں استثناء منقطع ست ائمہ فن ہمچوامام بیہقی وامام ابن حجر عسقلانی و امام عینی و امام ابن حجر مکی وغیرھم تصریح کردہ اند بضعف ایں روایت زیرا کہ درو راوی مبہم واقع شدہ باز بمخالف صحاح منکر ست وشیخ در آخر کلام خود ارشارہ بضعف او میکندکہ با آنکہ حدیث صحیح اثبات کردہ است الخ معلوم شد کہ ایں صحیح نیست ،۔

اوّل شیخ کے قول" جز آنچہ در روایت ابن اسحٰق آمدہ"پر اس عبارت کے ساتھ حاشیہ لکھا :میں کہتا ہوں یہ استثناء منقطع ہے۔ائمہ فن جیسے امام بیہقی ، امام ابن حجر عسقلانی، امام عینی اور امام ابن حجر مکی وغیرہ نے اس روایت کے ضعیف ہونے کی تصریح کی ہے کیونکہ اس میں ایک راوی مبہم واقع ہوا ہے ، پھر صحیح حدیثوں کی مخالفت کی وجہ سے منکر ہے، اور شیخ علیہ الرحمہ اپنے کلام کے آخر میں ان لفظوں کے ساتھ اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ " باوجود یہ کہ حدیث صحیح نے اس کے کفر کو ثابت کردیا ہے" معلوم ہوگیا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

دوم قوم شیخ ودر روایتے آمدہ پر بایں الفاظ اقول ایں لفظ ایہام میکندآں راکہ ایں جادو روایت ست وروایت مذکورہ ابن اسحٰق عاری ست از ذکر رَد فرمودن نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بقول مبارکش لم اسمع حالانکہ نہ چنان ست بلکہ ایں تتمہ ہماں روایت ابن اسحٰق ست بریں معنی آگاہ بایدبود۱؂ ۔

دوم : شیخ کے قول" و درروایتے آمدہ"پر ان الفاظ کے ساتھ حاشیہ لکھا : میں کہتا ہوں یہ وہم میں ڈالتا ہے کہ یہاں دو روایتیں ہیں، اور روایت ابن اسحٰق میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے یہ کلماتِ رَد نہیں ہیں کہ " میں نے نہیں سُنا" حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اسی روایت ابن اسحٰق کا تتمہ ہے، اس معنی پر آگاہ ہونا چاہیے۔(ت)

(۱؂ )

ثالثاً خود قرآنِ عظیم اسے رَد فرمارہا ہے اگر اسلام پر موت ہوتی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو استغفار سے کیوں ممانعت آئی۔ یہ جواب حافظ الشان کا ہے اور اُسے خمیس میں بھی ذکر کیا۔

اصابہ میں بعد عبارت مذکورہ قریبہ ہے :" اذلوکان قال کلمۃ التوحید مانھی اﷲ تعالٰی نبیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن الاستغفار لہ۔۲؂اگر اس نے کلمہ توحید کہہ لیا ہوتا تو ا ﷲ تعالٰی اپنے نبی کو اُس کے حق میں استغفار سے منع نہ فرماتا ۔(ت)

( ۲ ؎الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء القسم الرابع ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)

اقول : استغفار سی نہی کفر میں صریح نہیں حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابتدائے اسلام میں میت مدیون کے جنازہ پر نماز پڑھنے سے ممنوع تھے۔علمائے متاخرین نےحدیث استاذنت ربی ان استغفرلا می فلم یا ذن لی ۔۳؂ (میں نے اپنے رب سے اذن طلب کیا کہ میں اپنی ماں کے لیے استغفار کروں تو اُس نے مجھے اذن نہ دیا۔ت)

کا یہی جواب دیا ہے استدلال اسی آیت کریمہ کے لفظ للمشرکین و لفظ اصحٰب الجحیم سے اولٰی وانسب ہے اگر کلمہ اسلام پر موت ہوتی تو رب العزۃ ابو طالب کو مشرک کیوں بتاتا، اصحابِ نار سے کیوں ٹھہراتا۔ لاجرم یہ روایت بے اصل ہے۔

( ۳ ؎ صحیح مسلم کتاب الجنائز فصل فی جواز زیارۃقبور المشرکین الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۱۴)

رابعاً اقول : اس میں ایک علّت اور ہے، حدیث صحیح چہارم دیکھئے خود یہی عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ جن سے یہ حکایت ذکر کی جاتی ہے موت ابی طالب کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں۔ یارسول اﷲ ! حضور نے اپنے چچا ابوطالب کو بھی کچھ نفع دیا وہ حضور کا غمخوار طرفدار تھا ارشاد ہواہم نے اُسے سراپا جہنم میں غرق پایا اتنی تخفیف فرمادی کہ ٹخنوں تک آگ ہے میں نہ ہوتا تواسفل السافلین اس کا ٹھکانا تھا۔۔۴؂ ( ۴ ؎ صحیح البخاری مناقب الانصار باب قصّہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۴۸)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۵)
(مسند احمد بن حنبل عن العباس المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۰۷ و ۲۱۰)

سُبٰحن اﷲ!اگر عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ اپنے کانوں سے مرتے وقت کلمہ توحید پڑھنا سُنتے تو اس سوال کا کیا محل تھا، وہ نہ جانتے تھی کہ الاسلام یجب ماقبلہ مسلمان ہوجانا گزرے ہوئے سب اعمالِ بدکو ڈھادیتا ہے، کیا وہ نہ جانتے تھے کہ اخیر وقت جو کافر مسلمان ہوکر مرے بے حساب جنت میں جائے،

من قال لا الہٰ الّا اﷲ دخل الجنّۃ۱؂ ۔ ( جس نے لا الہٰ الاّ اﷲ کہا جنّت میں داخل ہوا۔ت)

( ۱ ؎ الدرالمنثور تحت آلایۃ مکتبہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران ۶ /۶۳)
(المستدرک للحاکم کتاب التوبۃ من قال لا الہٰ الا اﷲ دارالفکر بیروت ۴ /۲۵۱)
(المعجم الکبیر حدیث ۶۳۴۷ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۷ /۴۸)

اور پھر سوال میں کیا عرض کرتے ہیں وہی پرانے قصّے نصرت ویاری و حمایت و غمخواری یہ نہیں کہتے یارسول اﷲ ! وہ تو کلمہ اسلام پڑھ کر مرا ہے، یہ پوچھتے ہیں کہ حضور نے اسے بھی کچھ نفع بخشا، یا نہیں کہتے یارسول اللہ ! وہ تو کلمہ اسلام پڑھ کر مرا ہے، یہ پوچھتے ہیں کہ حضور نے اسے بھی کچھ نفع بخشآ یہ نہیں عرض کرتے کہ کون سے اعلٰی درجاتِ جنت عطا فرمائے ، وہ حالت صحیح میں ہوتے تو پرواز سوال یوں ہوتا کہ یارسول اﷲ! ابو طالب کا خاتمہ ایمان پر ہوا اور حضور کے ساتھ اُن کی غایت محبت و کمال حمایت تو قدیم سے تھی اﷲ عزوجل نے فردوس اعلٰی کا کون سا محل انہیں کرامت فرمایا تو نظرِ انصاف میں یہ سوال ہی اس روایت کی بے اصلی پر قرینہ و انحہ ہے اور جواب تو جو ارشاد ہوا ظاہر ہے" والعیاذ با ﷲ تعالٰی ارحم الراحمین "یہ جواب فقیر غفر اﷲ تعالٰی لہ نے اپنے فتوائے سابقہ مختصرہ میں ذکر کیا تھا

اب شرح مواہب میں دیکھا کہ علامہ زرقانی نے بھی اس کی طرف ایما کیا، فرماتے ہیں :" فی سوال العباس عن حالہ دلیل علی ضعف روایۃ ابن اسحٰق لانہ لوکانت الشہادۃ عندہ لم یسأل لعلمہ بحالہ۲؂۔ابو طالب کے حال کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوال میں روایت ابن اسحٰق کے ضعف پر دلیل ہے، کیونکہ اگر ابوطالب نے حضرت عباس کے نزدیک کلمہ شہادت پڑھ لیا تھا تو وہ یہ سوال نہ کرتے اس لیے کہ ان کو اس کا حال معلوم ہوتا،۔(ت)

( ۲ ؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول وفاۃ خدیجہ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۳)

اقول: یونہی ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا جن کی طرف اس کی روایت کی نسبت جاتی ہے علاوہ اُس تفسیر کے جو آیت ثالثہ میں اُن سے مروی خود بسند صحیح معلوم کہ وہ حضور پرنور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ابو طالب کے بارے میں وہ ارشاد پاک حدیث ہشتم میں سُن چکے ہیں جس میں ناری ہونے کی صریح تصریح ہے یہ روایت اگر صحیح ہوتی تو اِس کا مقتضٰی یہ تھا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ابو طالب کو ناجی جانیں کہ ان امور میں نسخ وتغیر کو راہ نہیں مگر لازم بحکمِ حدیث صحیح مسلم باطل تو ملزوم بھی حلیہ صحت سے عاطل، فافہم۔

خامساً یقیناً معلوم کہ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس وقت تک مشرف باسلام نہ ہوئے تھے کہیں گیارہ برس بعد فتح مکہ میں مسلمان ہوئے ہیں، اوراسی روایت میں ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابو طالب کا کلمہ پڑھنا نہ سُنا اور اُن کی عرض پر بھی اطمینان نہ فرمایا : یہی ارشاد ہوا کہ ہم نے نہ سُنا ، اب نہ رہی مگر ایک شخص کی شہادت جو عدالت درکنار گواہی دیتے وقت مسلمان بھی نہیں وہ شرعاً کس قاعدہ وقانون سے قابل قبول یا لائق التفات اصحابِ عقول ہوسکتی ہے۔

اقول: پہلے جوابوں کا حاصل سندًا یا متناً روایت کی تصنعیف تھی اس جواب میں اُسے ہر طرح صحیح مان کر کلام ہے کہ اب بھی اثبات مدعی سے مس نہیں اُس سے یہ ثابت ہوا کہ ابو طالب نے کلمہ پڑھا بلکہ اس اس قدر معلوم ہوا کہ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی غیر اسلام کی حالت میں ایسا بیان کیا پھر اس سے کیا ہوتا ہے، یہ جواب امام سہیلی نے روض الانف میں ارشاد فرمایا اور ان کے بعد امام عینی و امام قسطلانی نے ذکر کیا۔

عمدہ میں ہے : قال السھیلی ان العباس قال ذٰلک فی حال کو نہ علی غیر الاسلام ولواداھا بعد الاسلام لقبلت منہ ۱؂۔سہیلی نےکہا کہ حضرت عباس نے یہ بات حالتِ غیر اسلام میں کہی اگر بعد اسلام وہ اس کو ادا کرتے تو مقبول ہوتی۔(ت)

( ۱ ؎ عمدۃ القاری کتاب الجنائز حدیث۱۳۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت ۸ /۲۶۴)

اقول : وباﷲ التوفیقخود اسی روایت کا بیان کہ سیّد عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُن کی عرض پر یہی فرمایا کہ ہمارے مسامع قدسیہ تک نہ آیا۔ دلیل واضح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُن کے بیان پر اطمینان نہ فرمایا اس گواہی کو مقبول و معتبر نہ ٹھہرایا ورنہ کیا عقل سلیم قبول کرتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جس کے اسلام میں اس درجہ کوشش بلیغ ہونفس انفس نے اس حد شدت پر اُس کی خواہش فرمائی جب وہ امر عظیم محبوب و قوع میں آئی ایسے سہل لفطوں میں جواب دے دیا جائے، لاجرم اس ارشاد کا یہی مفاد کہ تمہارے کہنے پر کیا اعتماد ہم سُنتے تو ٹھیک تھا یہ صریح ردّ شہادت ہے تو جو گواہی خدا و رسول رَد فرماچکے دوسرا اس کا قبول کرنے والا کون۔

وبھٰذا التحقیق الانیق استنار واﷲ الحمد ان الامام العینی لقد احسن اذاقتصرفی نقل کلام الامام السہیلی علی مامرونعمافعل اذلم یتعدالٰی ما تعدی الیہ الامام القسطلانی وتبعہ العلامۃ الزرقانی حیث اثراکلامہ برمتہ واقرا علیہ ھذالفظھما(اجیب) کما قال السہیلی فی الروض (بان شہادۃ العباس لابی طالب لواداھا بعد مااسلم کانت مقبولۃ ولم ترد) شہادتہ (یقول علیہ الصلوۃ والسلام لم اسمع لان الشاھد العدل اذا قال سمعت وقال من ھو اعدل منہ لم اسمع اخذ بقول من اثبت السماع )قال السھیلی لان عدم السماع یحتمل اسبابا منعت الشاھد من السمع (ولکن العباس شہدبذلک قبل ان یسلم) فلا تقبل شہادتہ ۔۱؂ اھ

اور اس عمدہ تحقیق سے بحمداﷲ روشن ہوگیا کہ امام عینی نے امام سہیلی کے نقل کلام میں اقتصار کرکے بہت اچھا کیا اُس کی بنیاد پر جو گزرا اور اس کی طرف تجاوز نہ کرکے بھی اچھا کیا جس کی طرف امام قسطلانی نے تجاوز کیا اور ان کی اتباع کی علامہ زرقانی نے کیونکہ ان دونوں نے اس کے کلام کو پورا نقل کیا اور اس پر قائم رہے اور یہ لفظ ان دونوں کے ہیں۔( جواب دیا گیا) جیسا کہ امام سہیلی نے روض میں فرمایا کہ اگر ابوطالب کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت آپ کے اسلام لانے کے بعد ہوتی تو مقبول ہوتی، اس کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کے ساتھ رَدنہ کیا جاتا کہ " میں نے نہیں سُنا" کیونکہ عادل گواہ جب کہے کہ میں " میں نے سُنا ہے"، اور اس سے زیادہ عدل والا کہے کہ " میں نے نہیں سُنا" تو اس کے قول کو قبول کیا جائے گا جو سماع کو ثابت کرنے والا ہے، سہیلی نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ عدمِ سماع کئی ایسے اسباب کا احتمال رکھتا ہے جو گواہ کو سننے سے روکتے ہوں، لیکن چونکہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام لانے سے قبل اس کی شہادت دی لہذا ان کی شہادت قبول نہ ہوگی ۔ اھ

(۱؂شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ المقصد الاول وفاۃ خدیجہ وابی طالب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۹۱ و ۲۹۲)

اقول : فلیس الکلام فی ان عباسا اثبت والنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نفی فھما شہادتان جاء تاعندنا احدھما تثبت والاخری تنفی فتقدم التی تثبت لوکان صاحبہا عدلا ومعاذ اﷲ ان تقدم علی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یقبل شہادۃ العباس و لم یرکن الیھا فھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قاض لاشاھد اٰخر وانما الشاھد العباس وحدہ، فاذا لم یقبلہا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فمن یقبلہا بعدہ ھذا ماعندی وانافی عجب عاجب ھٰھنا من کلام ھٰؤلاء الاعلام الاکا برفامعن النظر لعل لہ معنی قصرت عنہ ید فھمی القاصر "،

میں کہتا ہوں اس میں کلام نہیں کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اثبات کیا اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نفی فرمائی یہ دو شہادتیں ہمارے پیش نظر ہیں، ایک ثابت کرنے والی اور دوسری نفی کرنے والی، لہذا مثبت گواہی نافی پر مقدم ہوگی جب کہ مثبت گواہی دینے والا عادل ہو اور معاذ اﷲ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قول پر مقدم ہو۔ نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کو قبول نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی طرف میلان فرمایا، کیونکہ آپ تو قاضی تھے نہ کہ دوسرے گواہ، گواہ تو تنہا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا تو آپ کے بعد کون قبول کرسکتا ہے۔ یہ وہ ہے جو میرے پاس ہے۔

مجھے اس مقام پر ان اکابر علماء کے کلام پر سخت تعجب ہے، میں نے گہری نظر سے دیکھا کہ شاید اس کا کوئی معنی بن سکتا ہو مگر میرے فہم قاصر کا ہاتھ اس سے قاصر رہا۔(ت)

یہ اجوبہ علماء ہیں اور بحمد اﷲ کافی و وافی و صافی ہیں،وانا اقول: وباﷲ التوفیق ( میں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں۔ت)

سادساً ہم تسلیم کرتے ہیں کہ روایت اُنہیں احادیث صحیحیں کی مثل سنداً ومتناً ہر طرح اعلٰی درجہ کی صحیح اور شہادت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی بروجہ کمال مقبول ونجیح ، پھر بھی نہ مستدل کو نافع نہ کفرِ ابی طالب کی اصلاً دافع ، آخر جب بحکمِ احادیث جلیلہ آیت قرآنیہ مشرک و ناری بتارہی ہے تو یہ کسی کے مٹائے مٹتا نہیں، یہ دوسری حدیث کہ فرضاً اُسی پلہ کی صحیح و جلیل ہے صرف اتنا بتاتی ہے کہ ابو طالب نے اخیر وقتلا الہٰ الا اﷲکہا ، یہ نہیں بتاتی ، کہ وہ وقت کیا تھا ، آخر وقت کیا تھا، آخر وقت دو ہیں ایک وہ کہ ہنوز پر دے باقی ہیں اور یہ وقت وقتِ قبول ایمان ہے، دوسرا وہ حقیقی آکر جب حالت غر غرہ ہو، پردے اُٹھ جائیں جنت و نار پیش نظر ہوجائیں۔ " یؤمنون بالغیب " کا محل نہ رہے، کافر کا اس وقت اسلام لانا بالاجماع مردود و نامقبول ہے۔

اﷲ عزوجل فرماتا ہے :فلم یک ینفعھم ایمانھم لما رأو باسنا سنّۃ اﷲ التی قد خلت فی عبادہ و خسر ھنالک الکفرین۱؂ ۔تو اُن کے ایمان نے انہیں کام نہ دیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا، اﷲ کا دستور حواس کے بندوں میں گزر چکا اور وہاں کافر گھاٹے میں ۔ (ت )

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴۰ /۸۵)

رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان اﷲ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر، رواہ الحمد ۲؂ والترمذی و حسنہ و ابن ماجۃ والحاکم و ابن حبان والبیھقی فی الشعب کلھم عن سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۔اﷲ تعالٰی سکراتِ موت سے پہلے پہلے توبہ قبول فرماتا ہے، اس کو روایت کیا احمد نے، ترمذی نے اور ترمذی نے اس کو حسن کہا۔ نیز روایت کیا اس کو ابن ماجہ، حاکم، ابن حبان اورا مام بیہقی نے شعب میں ، ان تمام نے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔(ت)

( ۲ ؎ جامع الترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی فضل التوبۃالخ امین کمپنی دہلی ۲ /۱۹۲)
(مسند احمد بن حنبل عن عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۱۳۲)
(المستدرک للحاکم کتاب التوبۃ باب ان اﷲ یغفر لعبدہ دارالفکر بیروت ۴ /۲۵۷)

اب اگر وقت اول کہنا مانتے ہیں تو آیت قرآنیہ مع اُن احادیث صحیحہ کے اس حدیث صحیح مفروض سے مناقض ہوگی اور کسی نہ کسی حدیث صحیح کو رَد کے بغیر چارہ نہ ملے گا اور اگر وقت دوم پر مانتے ہیں تو آیت و احادیث سب حق و صحیح ٹھہرتے ہیں اور تناقض و تعارض بے تکلف دفع ہوا جاتا ہے کلمہ پڑھا اور ضرور پڑھا مگر کب، اس وقت جب کہ وقت نہ رہا تھا، لہذا حکمِ شرک و نار برقرار رہا۔

قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :حتی اذا ادرکہ الغرق قال اٰمنت انہ لا الہٰ الاّ الذی اٰمنت بہ بنو اسرائیل وانا من المسلمین o۳؂ اٰلئن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین o۴؂ ۔یہاں تک کہ جب اُسے ڈوبنے نے آلیا تو بولا مَیں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں کیا اب اور پہلے سے نافرمان رہا اور تو فسادی تھا۔

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۱۰ /۹۰ ) ( ۴ ؎ القرآن الکریم ۱۰ /۹۱ )

صورت اُولٰی ظاہر البطلان ، لہذا شق اخیر ہی لازم الاذعان ، اور فی الواقع اگر یہ روایت مطابق واقع تھی تو قطعاً یہی صورت واقعی ہوئی اور وہ ضرور قرینِ قیاس بھی ہے، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے قریب مرگ ہی جلوہ افروز ہوئے ہیں، اسی حالت میں کفارِ قریش سے وہ محاورات ہوئے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بار بار باصرار دعوتِ اسلام فرمائی کفار نے ملتِ کفر پر قائم رہنے میں جان لڑائی ، آخر پچھلا جواب وہ دیا کہ ابو طالب ملتِ جاہلیت پر جاتا ہے، یہاں تک بات چیت کی طاقت تھی اب سینے پر دم آیا پر دے اُٹھے غیب سامنے آیا اُس نار نے جس پر عار کو اختیار کیا تھا اپنی مہیب صورت سے منہ دکھایالیس الخبر کالمعاینۃ ۱؂ ( خبر مشاہدہ کی مثل نہیں۔ ت)

( ۱ ؎ مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۷۱)

اب کھلا کہ یہ بلا جھیلنے کی نہیں، ڈوبتا ہوا سوار پکڑتا ہے، ابلا الہٰ الا اﷲکی قدر آئی، کہنا چاہا طاقت نہ پائی، آہستہ لبوں کو جنبش ہوئی مگر بے سود کہ وقت نکل چکا تھا۔

انّا اﷲ وانّا الیہ راجعون ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ہم اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں اور اسی کیطرف لوٹ کر جانے والے ہیں، نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نی نیکی کرنے کی قوت ہے مگر بلندی و عظمت والے خدا کی توفیق سے۔(ت)

تو حضرت عباس رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ بھی سچے کہ کلمہ پڑھا ، اور قرآن و حدیث تو قطعاً سچے ہیں کہ حکمِ کفر بدستور رہا۔والعیاذ باﷲ رب ّ العالمین ۔ ( اﷲ کی پناہ جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا۔ت)

سابعاً اس سے بھی در گزر یے ، یہ بھی مانا کہ حالتِ غرغرہ سے پہلے ہی پڑھا ہے پھر حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تو ظاہر ہی کی گواہی دیں گے، دل کے حال کا عالم خدا ہے، کیا اگر کوئی شخص روزانہ لاکھ بار کلمہ پڑھے اورا ﷲ عزوجل اسے کافر بتائے تو ہم اس کے کلمہ پڑھنے کو دیکھیں گے یا اپنے رب عزوجل کے ارشاد کو، ایمان زبان سے کلمہ خوانی کا نام نہیں، جب دلوں کا مالک اس کے کفر پر حاکم تو قطعاً ثابت کہ اس کے قلب میں اذعان و اسلام نہیں، آخر نہ سُنا کہ جیتے جاگتے تندرستوں کے بڑی سے بڑی قسم کھا کرنشھد انّک لرسول اﷲ ۲؂ ( ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بے شک یقیناً اﷲ کے رسول ہیں۔ت) کہنے پر کیا ارشاد ہوا :واﷲ یعلم انّک لرسولہ واﷲ یشھد ان المنٰفقین لکٰذبون ۔۱؂اور اﷲ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو اور اﷲ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۶۳ /۱) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۶۳ /۱)

غرض لاکھ جتن کیجئے آیت براء ت سے براء ت ملے یہ شُدنی نہیں رہے گیہمان آش درکاسہ ( وہی قسمت وہی نصیب۔ ت) کہ :تبین لھم انّھم اصحب الجحیم ۲؂ ۔کھُل چکا کہ وہ دوزخی ہیں۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۹ /۱۱۳)

والعیاذ باﷲ رب العٰلمین اللّٰھم ارحم الرحمین صل وسلم وبارک علی السید الامین الاتی من عندک بالحق المبین اللھم بقدر تک علینا وفاقتنا الیک ارحم عجزنا یا ارحم الراحمین امین امین امین والحمدﷲ رب العلمین لا الٰہ الا اﷲ عدۃ للقاء اﷲ محمد رسول اﷲ ودیعۃ عند اﷲ ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیّدنا محمد واٰلہ اجمعین والحمدﷲ رب العٰلمین۔اور اﷲ تعالٰی کی پناہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اے اﷲ بہترین رحم کرنے والے ۔ درود سلام اور برکت نازل فرما اُس امانت والے سردار پر جو تیری بارگاہ سے حق مبین لے کر آنے و الے ہے۔ اے اﷲ ! اپنی قدرت کے ساتھ جو ہم پر ہے اور ہماری محتاجی تیری طرف ہے، ہمارے عجز پر رحم فرما اے بہترین رحم فرمانے والے، ہماری دُعا قبول فرما، اور تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کل جہانوں کا پروردگار ہے۔ اﷲ کے بغیر کوئی سچا معبود نہیں ، محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اﷲ تعالٰی کی ملاقات کا وعدہ اﷲ تعالٰی کے پاس ودیعت ہے ، نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر اﷲ کی توفیق سے۔ اﷲ تعالٰی درود نازل فرمائے ہمارے آقا محمد مصطفٰی پر ، آپ کی آل اور سب صحابہ پر، اور سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)

بحمداﷲ از احت شبہات سے بھی بروجہ احسن فراغ پایا۔"وھناک شبھۃ اخر اوھن و اھون لم نوردھا اذلم تعرض ولم تعرف فلا نطیل الکلام بایرادھا و لنطوھا علی غرھالمیعا دھا "۔یہاں ایک دوسرا شبہ ہے جو بہت کمزور اور بہت ہلکا ہے ہم اس کو اس لیے وارد نہیں کرتے۔ کہ نہ تو اُس کا تعرض کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ معروف ہے، چنانچہ ہم اس کو وارد کرکے کلام کو لمبا نہیں کرتے۔ لہذا چاہیے کہ ہم اس کے مقررہ وقت تک اس کو اس کے شکن پر لپیٹ دیں۔(ت)

اب بقیہ سوال کا جواب لیجئے اور اس رسالہ میں جن ائمہ و علماء و کتب سے یہ مسئلہ ثابت کیا آخر میں اُن کے اسماء شمار کردیجئے کہ جسے رسالہ دیکھنے میں کاہلی آئے ان ناموں ہی کو دیکھ کر خلاف سے ہاتھ اٹھائے لہذا تین فصل کا وصل اور مناسب کہتلک عشرۃ کاملۃ ( یہ پورے دس ہوئے۔ت) جلوہ دکھائے۔

فصل ہشتم

جب ابوطالب کا کفرادلّہ کالنہّار سے آشکار تو رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنے کا کیونکراختیار ، اگر اخبار ہے تو اﷲ تعالٰی عزوجل پر افترا، کفار کو رضائے الہٰی سے کیا بہرہ، اور اگر دُعا ہےکما ھو الظاھر ( جیسا کہ ظاہر ہے۔ت) تو دعا بالمحال حضرت ذی الجلال سے معاذ اﷲ استہزاء ، ایسی دُعا سے حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نہی فرمائی۔

کما فی الصحیحین ۱؂ وقد بیّنّاہ فی رسالتنا "ذیل المدعاء لاحسن الوعاء" التی ذیلنا بہار سالۃ "احسن الوعاء لاٰداب الدعاء" لخاتمۃ المحققین سیدنا الوالدقدس سرہ الماجد"۔جیسا کہ صحیحین میں ہے، اور ہم نے اس کو اپنے رسالہ"ذیل المدعاء لاحسن الوعاء"میں بیان کردیا۔ اس رسالے کو ہم نے حاشیہ بنایا رسالہ" احسن الوعادء لآداب الدعاء"کا جو تصنیف ہے خاتمۃ المحققین ہمارے سردار والد گرامی قدس سرّہ، کی۔ت)

( ۱ ؎صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ البراء ۃ باب ماکان للنبی والذین اٰ منوا لخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۶۷۵)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علٰی صحۃ الاسلام من حضرہ الموت الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰)

علماء نے کافر کے لیے دُعائے مغفرت پر سخت اشد حکم صادر فرمایا اور اس کے حرام ہونے پر تو اجماع ہے ، پھر دعائے رضوان تو اس سے بھی ارفع و اعلٰی۔فان السید قدیعفوعن عبدہ وھوعند غیر ر اض کما ان العبدربما یحب سیدہ وھو علی امرہ غیر ماض وحسبنا اﷲ و نعم الوکیل"اس لیے کہ مالک بعض دفعہ اپنے غلام کو معاف کردیتا ہے حالانکہ وہ اُس پر راضی نہیں ہوتا، جیسا کہ غلام بسا اوقات اپنے مالک کو پسند کرتا ہے مگر اُس کے حکم پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔اﷲ ہمیں کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔(ت)

امام محمد محمد محمد حلبی حلیہ میں فرماتے ہیں:" صرح الشیخ شہاب الدین القرافی المالکی بان الدعاء بالمغفرۃ للکافر کفر لطلبہ تکذب اﷲ تعالٰی فیما اخبر بہ ولہذا قال المصنف وغیرہ ان کان مؤمنین "۔۱؂یعنی امام شہاب قرآنی مالکی نے تصریح فرمائی کہ کفار کے لیے دعائے مغفرت کرنا کفر ہے، کہ اﷲ عزوجل نے جو خبر دی اس کا جھوٹا کرنا چاہتا ہے اس لیے منیہ وغیرہ کتب فقہ میں قید لگادی کہ ماں با پ کے لیے دعائے مغفرت کرے بشرطیکہ وہ مسلمان ہوں۔

( ۱ ؎ حلیۃ المحلی)

پھر ایک ورق کے بعد فرمایا کہ" تقدم ان کفر "۲؂ ۔اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یہ کفر ہے۔

( ۲ ؎ حلیۃ المحلی)

ردالمحتار میں ہے :الدعاء بہ کفر لعدم جوازہ عقلاً و لاشرعاً ولتکذیب النصوص القطعیۃ بخلاف الدعاء للمؤمنین کما علمت فالحق ما فی الحلیۃ۳؂ ۔اس کی دُعا کفر ہے کیونکہ یہ عقلاً و شرعاً ناجائز ہے اور اس میں نصوص قطعیہ کی تکذیب ہے بخلاف مومنوں کے لیے دعا کے۔ جیسا کہ تُو جان چکا ہے، اور حق وہ ہے جو حلیہ میں ہے۔(ت)

( ۳ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ فصل واذاارادالشروع فی الصلوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۵۱)

درمختار میں ہے:الحق حرمۃ الدعاء بالمغفرۃ للکافر۴؂ ۔حق یہ ہے کہ کافر کے لیے دعائے مغفرت حرام ہے۔

( ۴ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ فصل واذاارادالشروع فی الصلوۃ داراحیاء مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۷۸)

اسی طرح بحرالرائق میں ہے:اقول : ومانحاالیہ العلامۃ الشامی من عدم جواز عفوالکفرعقلافانما تبع فیہ الامام النسفی صاحب عمدۃ الکلام وشرذمۃ قلیلۃ من اھل السنۃ والجمھور علی امتناعہ شرعا وجوازہ عقلا کما فی شرح المقاصد و المسامرۃ وغیرھما وبہ تقضی الدلائل فہوالصحیح وعلیہ التعویل فاذن الحق ماذھب الیہ البحروتبعہ فی الدروتمام الکلام فی ھذاالمقام فیما علقنا ہ علی ردالمحتار ۔اقول : ( میں کہتاہوں) جس کا قصد علامہ شامی نے کیا یعنی کفر کی معافی کا عقلاً عدم جواز تو اس میں انہوں نے عمدۃ الکلام کے مصنف امام نسفی اور اہلسنت کے گروہ قلیل کی پیروی کی ہے، جب کہ جمہور کے نزدیک یہ شرعاً ممتنع اور عقلاً جائز ہے جیسا کہ شرح المقاصد اور مسامرہ وغیرہ میں ہے۔ اور دلائل اسی کے مؤید ہیں لہذا یہی صحیح اور اسی پر بھروسا ہے، تو اب حق وہ ہے جس کی طرف صاحب البحر گئے ہیں اور دُر میں اسی کی پیروی کی ہے، اور مکمل کلام اس مقام پر ردالمحتار پر ہمارے حاشیہ میں ہے۔(ت)

ہاں ابولہب وابلیس لعنہمااﷲ کی مثل کہنا محض افراط اور خون انصاف کرنا ہے، ابوطالب کی عمر خدمت و کفالت و نصرت و حمایتِ حضرت رسالت علیہ وعلٰی آلہ الصلوۃ والتحیۃ میں کٹی اور یہ ملا عنہ درپردہ وعلانیہ درپے ایذاء واضرار رہے کہان وہ جس کا وظیفہ مدح وستائش ہواور کہاں وہ شقی جس کا ورد ذم ونکوہش ہو ایک اگرچہ خود محروم اور اسلام سے مصروف مگر بتسخیر تقدیر نفع اسلام میں مصروف اور دوسرا مردود و متمر دوعدو ومعاندہمہ تن کسر بیضہ اسلام میں مشغوف ۔عببیں تفاوت رہ ازکجا ست تابہ کجا

( ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ت)

آخرنہ دیکھا جو صحیح حدیث میں ارشاد ہوا کہ ابوطالب پر تمام کفار سے کم عقاب ہے اور یہ اشقیاء اُن میں ہیں جن پر اشد العذاب ہے، ابوطالب کے صرف پاؤں آگ میں ہیں اور یہ ملا عنہ اُن میں کہ:لھم من فوقھم ظلل من النارومن تحتھم ظلل۱؂ ۔اُن کے اوپر آگ کی تہیں ہیں اور اُن کے نیچے آگ کی تہیں۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۹ /۱۶)

لھم من جہنّم مھادٌ ومن فوقھم غواش ۲؂ ۔ان کے نیچے آگ کا بچھونا اور اوپر آگ کے لحاف۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۷ /۴۱)

سراپا آگ، ہر طرف سے آگ۔والعیاذ باﷲ رب العلمین ( اور اﷲ رب العالمین کی پناہ۔ت)

بلکہ دونوں کا ثبوتِ کفر بھی ایک سا نہیں، ابوطالب کے باب میں اگرچہ قول حق و صواب وہی کفر و عذاب،اور اس کا خلاف شاذ ومردود باطل و مطرود پھر بھی اس حد کا نہیں کہ معاذاﷲ خلاف پر تکفیر کا احتمال ہو اور ان اعداء اﷲ کا کافر و ابدی جہنمی ہونا تو ضروریاتِ دین سے ہے جس کا منکر خود جہنمی کا فر، توفریقین کا نہ کفر یکساں نہ ثبوت یکساں، نہ عمل یکساں نہ سزا یکساں، ہر جگہ فرقِ زمین و آسمان، پھر مماثلت کہاں۔

" نسأل اﷲ سلوک سوی الصراط ونعوذ باﷲ من التفریظ والافراط"۔ہم اﷲ تعالٰی سے سیدھے راستے پر چلنے کا سوال کرتے ہیں، اور افراط و تفریط سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔(ت)

فصل نہم

ان ائمہ دین و علمائے معتمدین کے ذکر اسمائے طیبہ میں جنہوں نے کفر ابی طالب کی تصریح و تصحیح فرمائی اور اُن کے ارشادات کی نقل اس رسالہ میں گزری

" فمن الصحابۃ "

(۱) امیر المومنین صدیقِ اکبر (۲) امیر المومنین فاروق اعظم
(۳) امیر المومنین علی مرتضٰی (۴) حبر الامتہ سیدنا عبداﷲ بن عباس
(۴) حافظ الصحابہ سیدنا ابوہریرہ (۶)صحابی ابن الصحابی سیدنا مسیّب بن حزن قریشی مخزومی
(۷) حضرت سیدنا عباس عم رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (۸) سیدنا ابوسعید خدری
(۹) سیدنا جابر بن عبداﷲ انصاری (۱۰) حضرت سیدتنا ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین
(۱۱)سیدنا انس بن مالک خادم رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
(۱۲)حضرت سیدتنا ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین

پہلے چھ حضرات سے تو خود اُن کے اقوال گزرے اور انس و ابن عمررضی اللہ تعالٰی عنہم کی تقریر اور باقی چار خود حضور پرُنور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد بیان فرماتے ہیں، اور پر ظاہر کہ یہاں اپنے کہنے سے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد بتانا اور بھی ابلغ ہے۔

ومن التابعین :

(۱۳)آدم آل عبازین العابدین علی بن حسین بن علی مرتضٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہم و کرم وجوھہم
(۱۴)امام عطاء بن ابی رباح استاذ سیّدنا الامام الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہا
(۱۵) امام محمد بن کعب قرظی کہ اجلّہ ائمہ محدثین و مفسرین تابعین سے ہیں۔
(۱۶) سعید بن محمد ابوالسفرتابعی ابن التابعی ابن الصحابی نبیرہ سیّدنا جبیرین مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
(۱۷) امام الائمہ سراج الاُمہ سیّدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

ومن تبع تابعین :

(۱۸) عالم المدینہ امام دارالہجرۃ سیّدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
(۱۹) محررالمذہب مرجع الدنیا فی الفقہ والعلم سیدنا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ
(۲۰)امام تفسیر مقاتل بلخی

(۲۱)سلطان اسلام خلیفۃ المسلمینجن کے آنے کی سیّدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے بشارت دی تھی کہ :" منّا السفاح ومنّا المنصور ومنّا المھدی رواہ الخطیب و ابن عساکر وغیرھما بطریق سعید بن جبیرعنہ قال السیوطی قال الذھبی اسنادہ صالح "۔ہمیں میں سے ہوگا سفاح اور ہمیں میں منصور اور ہمیں میں مہدی۔(اس کو خطیب و ابن عساکروغیرہ نے سعید بن جبیر کے طریق سے روایت کیا اور اُسی کے طریق سے امام سیوطی نے کہا : ذہبی نے کہا اس کا اسناد صالح ہے۔ت)

بلکہ دو حدیثوں میں یہی الفاظ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے آئے :رواہ کذلک الخطیب من طریق الضحاک عن ابن عباس وابن عساکر فی ضمن حدیث عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنہم رفعاہ الی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم"اس کو اسی طرح خطیب نے بطریق ضحاک سیّدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت کیا جب کہ ابن عساکر نے ایک حدیث کے ضمن میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور ان دونوں نے اس کا رفع نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک کیا۔(ت)اعنی امام ابوجعفر منصور نبیرزادہ ابن عم رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

ومن اتباع التبع ومن یلیھم :

(۲۲) امام الدنیا فی الحفظ والحدیث ابوعبداﷲ محمد بن اسمعیل بخاری ۔
(۲۳) امام اجل ابوداؤد سلیمان بن اشعت سجستانی
(۲۴) امام عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی۔
(۲۵) امام ابو عبداﷲ بن یزید ابن ماجہ قزوینی۔

یہ چاروں ائمہ اصحاب صحاح مشہورہ ہیں اور یہی طبقہ اخیرہ عبداﷲ بن المعتز کا ہے۔

وممن بعد ھم من المفسرین :

(۲۶) امام محی السنہ ابومحمد حسین بن مسعود فّراء بغوی
(۲۷) امام ابواسحٰق زجاج ابراہیم بن السری۔
(۲۸) جار اﷲ محمود بن عمر خوار زمی زمخشری
(۲۹) ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری صاحبِ بسیط ووسیط ووجیز۔
(۳۰) امام اجل محمد بن عمر فخر الدین رازی۔
(۳۱) قاضی القضاۃ شہاب الدین بن خلیل خوبی دمشقی مکمل الکبیر۔
(۳۲) علامہ قطب الدین محمد بن مسعود بن محمود بن ابن ابی الفتح سیرافی شفار صاحبِ تقریب۔
(۳۳) امام ناصر الدین ابوسعید عبداﷲ بن عمر بیضاوی۔
(۳۴) امام علامۃ الوجود مفتی ممالک رومیہ ابوالسعود بن محمد عمادی۔
(۳۵) علامہ علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی صوفی صاحبِ تفسیر لباب شہیربہ خازن ۔
(۳۶) امام جلال الدین محمد بن احمد محلی۔
(۳۷) علامہ سلیمان جمل وغیرہم ممن یاتی

ومن المحدثین والشارحین

(۳۸) امام اجل احمد بن حسین بیہقی
(۳۹) حافظ الشام ابوالقاسم علی بن حسین بن ہبتہ اﷲ دمشقی شہیر بابن عساکر ۔
(۴۰) امام ابوالحسن علی بن خلف معروف بابن بطال مغربی شارح صحیح بخاری۔
(۴۱) امام ابوالقاسم عبدالرحمن بن احمد سہیلی۔
(۴۲) امام حافظ الحدیث علامۃ الفقہ ابوزکریا یحیٰی بن شرف نووی۔
(۴۳) امام ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی شارح صحیح مسلم۔
(۴۴) امام ابوالسعادات مبارک بن محمد ابی الکرم معروف بابن اثیر جزری صاحبِ نہایہ وجامع الاصول ۔
(۴۵) امام جلیل محب الدین احمد بن عبداللہ الطبری۔
(۴۶) امام شرف الدین حسن بن محمد طیبی شارح مشکوۃ
(۴۷) امام شمس الدین محمد بن یوسف بن علی کرمانی شارح صحیح بخاری۔
(۴۸) علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی صاحب القاموس۔
(۴۹) امام حافظ الشان ابوالفضل شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی۔
(۵۰) امام جلیل بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی ۔
(۵۱) امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ادریس قرافی صاحبِ تنقیح الاصول۔
(۵۲) امام خاتم الحفاظ جلال الملتہ والدین ابوالفضل عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی۔
(۵۳) امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن خطیب قسطلانی شارح صحیح بخاری۔
(۵۴) علامہ عبدالرحمن بن علی شیبانی تلمیذ امام شمس الدین سخاوی۔
(۵۵) علامہ قاضی حسین بن محمد بن حسین دیار بکری مکی۔
(۵۶) مولانا الفاضل علی بن سلطان محمد قاری ہروی مکی۔
(۵۷) علامہ زین العابدین عبدالروف محمد شمس الدین مناوی۔
(۵۸) امام شہاب الدین احمد بن حجر مکی۔
(۵۹) شیخ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اخباری۔

(۶۰) سید جمال الدین عطاء اﷲ بن فضل اﷲ شیرازی صاحبِ روضۃ الاحباب
(۶۱) امام عارف باﷲ سیدی علاء الملۃ والدین علی بن حسام الدین متقی مکی۔
(۶۲) علامہ شہاب الدین احمد خفا جی شارح شفاء
(۶۳) علامہ علی بن احمد بن محمد بن ابراہیم عزیزی۔
(۶۴ ) علامہ محمد حفنی محشی افضل القرٰی
(۶۵) علامہ طاہر فتنی صاحبِ مجمع بحارالانوار
(۶۶) شیخ محقق مولانا عبدالحق بن سیف الدین بخاری
(۶۷) علامہ محمد بن عبدالباقی بن یوسف زرقانی مصری
(۶۸) فاضل محمد بن علی صبان مصری صاحبف اسعاف الراغبین وغیرہم ممن مضی ویجیئ۔

ومن الفقہاء والاصُولیین :

(۶۹) امام اجل شیخ الاسلام والمسلمین علی بن ابی بکر برہان الدین فرغانی صاحبِ ہدایہ
(۷۰) امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمد حافظ الدین نسفی صاحبِ کنز۔
(۷۱) امام محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن الہمام۔
(۷۲) امام جلال الدین کرلالی صاحبِ کفایہ۔
(۷۳) امام محقق محمد بن محمد بن محمد ابن امیر الحاج حلبی۔
(۷۴) امام ابراہیم بن موسٰی طرابلسی مصری صاحبِ مواہب الرحمن۔
(۷۵) علامہ ابراہیم بن محمد حلبی شارح منیہ
(۷۶) علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی۔
(۷۷) علامہ محقق زین بن نجیم مصری صاحبِ بحر۔
(۷۸) ملک العلماء بحر العلوم عبدالعلی محمد لکھنوی۔
(۷۹) علامہ سید احمد مصری طحطاوی۔

(۸۰) علامہ سید محمد افندی ابن عبابدین شامی وغیر ھم ممن تقدم رحم اﷲ تعالٰی علمائنا جمیعا من تاخر منھم ومن قدم اٰمن( اس کے علاوہ دیگر علماء جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے، اﷲ تعالٰی ہمارے تمام علماء متاخرین و تقدمین پر رحم فرمائے۔ امین ۔ت)

فصل دہم :

اُن کتابوں کے نام جن کی نقول دربارہ ابوطالب اس رسالہ میں مذکور ہوئیں:

کتبِ تفسیر :

(۱) معالم التنزیل امام بغوی (۲) مدارک التنزیل امام نسفی
(۳) انوارالتنزیل امام بیضاوی (۴) ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم للمفتی العلامۃ العماوی
(۴)کشاف حقائق التنزیل للزمخشری (۶) مفاتیح الغیب للامام الرازی
(۷) تکملۃ المفاتیح للشمس الخوبی (۸) جلالین
(۹) فتوحاتِ الہٰیہ للشیخ سلمین (۱۰) عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی للعلامۃ الشہاب
(۱۱) معانی القرآن للزجاج (۱۲) فتوح الغیب للطیبی
(۱۳) تقریب مختصر الکشاف للیسرافی (۱۴) بسیط للواحدی
(۱۵) لباب التاویل فی معانی التنزیل للعلامۃ الخازن (۱۶) الاحکام لبیان مافی القرآن من الابہام للعسقلانی

کتب حدیث:

(۱۷) صحیح بخاری (۱۸) صحیح مسلم (۱۹) سُنن ابی داؤد
(۲۰) جامع ترمذی (۲۱) مجتبٰی نسائی (۲۲) سُنن ابن ماجہ
(۲۳) مؤطا امام مالک (۲۴) مؤطا امام محمد (۲۵) مسند امام شافعی
(۲۶) مسند امام احمد (۲۷) شرح معانی الآثار (۲۸) مشکوۃ المصابیح
(۲۹) تیسیر الوصول الی جامع الاصول (۳۰) جامع صغیر (۳۱) منہج العمال للامام المتقی
(۳۲)کنزالعمال لہ (۳۳) منتخب کنزالعمال لہ (۳۴) مصنف عبدالرزاق
(۳۵) مصنف ابی بکر بن ابی شیبہ (۳۶) مسند ابوداؤد طیالسی (۳۷) مسند اسحق بن راہویہ
(۳۸) طبقات ابن سعد (۳۹)کتاب موسٰی بن طارق ابوقرہ (۴۰) زیادات مغازی ابن اسحق لیونس بن بکیر
(۴۱) صحیح ابن خزیمہ (۴۲) منتفی ابن زود (۴۳) مسند بزار
(۴۴) مسند ابی یعلٰی (۴۵) معجم کبیر طبرانی (۴۶) معجم اوسط لہ
(۴۷)فوائد تمام رازی (۴۸)کامل ابن عدی (۴۹)کتاب الجنائز للمروزی
(۵۰)کتاب مکہ لعمر بن شبہ (۵۱)کتاب ابی بشر (۵۲) فوائد سمویہ
(۵۳) مستخرج اسمعیل (۵۴) مستدرک حاکم (۵۵) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم
(۵۶) سنن بیہقی (۵۷) دلائل النبوۃ (۵۸) سُنن سعید بن منصور
(۵۹) مسند فریانی (۶۰) مسند عبدبن حمید (۶۱) تفسیر ابن جریر
(۶۲) تفسیر ابن المنذر (۶۳) تفسیر ابن ابی حاتم (۶۴) تفسیر ابوالشیخ
(۶۵) تفسیر ابن مردودیہ (۶۶) مغازی ابن اسحق علی ماقررنا وحررنا۔

شروحِ حدیث :

(۶۷) منہاج شرح مسلم اللنووی (۶۸) عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری للعینی
(۶۹) ارشاد الساری شرح صحیح بخاری اللقسطلانی (۷۰) مرقاۃ شرح مشکوۃ للقاری
(۷۱) تیسیر شرح جامع صغیر للمناوی (۷۲) سراج المنیر شرح جامع صغیر للعزیزی
(۷۳) فتح الباری شرح صحیح بکاری للعسقلانی (۷۴)کواکب الدراری شرح صحیح بخاری للکرمانی
(۷۵) مفہم شرح صحیح مسلم للقرطبی

کتبِ فقہ

(۷۶) ہدایہ (۷۷)کافی شرح الوافی کلاہماللامام النفسی
(۷۸) فتح القدیر للمحقق (۷۹)کفایہ شرح ہدایہ
(۸۰) حلیہ شرح منیہ للامام الحلبی (۸۱) غنیہ شرح منیہ للمحقق الحلبی
(۸۲) بحرالرائق شرح کنزالدقائق (۸۳) طحطاوی علی مراقی الفلاح للشر نبلالی
(۸۴) ردالمحتار علی الدرالمختار (۸۵) بنایہ شرح ہدایہ للعینی
(۸۶) برہان شرح مواھب الرحمان کلاھما للطرابلسی

کتب سیر

(۸۷) مواہب للدینہ و منح محمدیہ (۸۸) شرح مواہب للزرقانی
(۸۹) صراط المستقیم للمجد (۹۰) شرح صراط المستقیم للشیخ
(۹۱) مدارج النبوۃ لہ (۹۲) خمیس للدیار بکری
(۹۳) اسعاف الراغبین للصبان (۹۴) روضۃ الاحباب
(۹۵) تاریخ ابن عساکر (۹۶) روض سہیلی
(۹۷) امتاع الاسماع للمقریزی

کتب عقائد واصول وعلوم شتی

(۹۸) فقہ اکبر للامام اعظم (۹۹) شرح المقاصد للعلامۃ الماتن
(۱۰۰) اصابہ تمیز الصحابۃ للامام ابن حجر
(۱۰۱) مسلک الحنفاء فی والدی المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم للامام سیوطی
(۱۰۲) افضل القراء ام القری للامام ابن حجر (۱۰۳) شرح شفاء لعلی القاری
(۱۰۴) نسیم الریاض للخفاجی (۱۰۵) حفنی شرح الہمزیہ
(۱۰۶) مجمع البحار للفتنی (۱۰۷) فواتح الرحموت لبحر العلوم
(۱۰۸) التقریر و التحریر فی الاصول للعلامۃ ابن امیر الحاج
(۱۰۹) نہایہ فی غریب الحدیث لابن اثیر (۱۱۰) شرح تنقیح الفصول فی الاصول کلا ہما للقرانی
(۱۱۱) ذخائر العقبی فی منا قب ذوی القر بی للحافظ المحب الطبری

تذییل

وہ کتابیں جن سے اس رسالہ میں مدد لی گئی:

(۱۱۲) شرح عقائد نسفی (۱۱۳) شرح عقائد عضدی (۱۱۴) سیرت ابن ہشام
(۱۱۵) اتقان فی علوم القرآن (۱۱۶) میزان الاعتدال (۱۱۷) تقریب التہذیب
(۱۱۸) تقریب امام نووی (۱۱۹) تدریب امام سیوطی (۱۲۰) مسلم الثبوت
(۱۲۱) درمختار (۱۲۲) تاریخ الخلفاء (۱۲۳) تحفہ اثناء عشریہ
(۱۲۴) صحیح ابن حبان (۱۲۵) القاب شیرازی (۱۲۶) استیعاب ابو عمر
(۱۲۷) معرفۃ الصحابہ لابی نعیم (۱۲۸) مسند الفردوس دیلمی
(۱۲۹) خادم الامام بدر الدین الزرکشی (۱۳۰) شعب الایمان للامام البیہقی

ختم اللہ تعالٰی لنا بالایمان والآمان آمین آمین الحمد للہ علی الاختتام و نسألہ حسن الختام ۔اللہ تعالٰی ایمان اور امان کے ساتھ ہمارا ختمہ کرے ، آمین ۔حسن اختتامِ رسالہ پر تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں ،اور ہم اللہ تعالٰی سے حسنِ کاتمہ کا سوال کرتے ہیں ،(ت)

پہلے یہ سوال بدایوں سے آیا تھا جواب میں ایک موجز رسالہ چند ورق کا لکھا اور اس کا نام"معتبر الطالب فی شیون ابی طالب"(۱۲۹۲ھ)رکھا ، اب کہ دوبارہ احمد آباد سے سوال آیا اور بعض علمائے بمبئی نے بھی اس بارہ میں توجہ خاص کا تقاضا فرمایا حسب حالت راہنہ و فرصت حاضرہ شرح وبسط کا فی کو کام میں لایا اور اسے اس اجمال اول کی شرح بنایا نیز شرح مطالب وتسکین طالب میں بحمداللہ تعالی حافل وکامل پایا ،لہذا"شرح المطالب فی مبحث ابی طالب"(۱۳۱۶ھ)اس کانام رکھا اور یہی اس کی تاریخِ آغاز و انجام ۔

والحمدﷲ ولی الانعام وافضل الصلوۃ واکمل السلام علی سیّدنا محمد ھادی الانام وعلٰی اٰلہ وصحبہ الغرالکرام وعلینا بھم و لھم الٰی یوم القیٰمۃ ائمین یاذاالجلال والاکرام ، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم و احکم۔

سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو انعام کا مالک ہے، اور افضل درود و اکمل سلام ہو ہمارے آقا محمد مصطفی پر جو کُل جہان کے ہادی ہیں، اور آپ کے روشن پیشانیوں والے اہل کرم آل و اصحاب پر اور انکے صدقے میں ہم پر اور اُن کے لیے یوم قیامت تک ہماری دعا قبول فرما اے بزرگی اور اکرام والے۔ اﷲ سبحنہ وتعالی خوب جانتا ہے ، اور اس کا علم اتم اور مستحکم ہے۔(ت)


رسالہ
شرح المطالب فی مبحث ابی طالب
ختم ہوا


47 comments:

  1. Replies
    1. اتنی بکواس کرنا حضرت علی رض سے بغض رکھنا ٹھیک نہیں۔ اس کا مقصد صرف اور صرف حضرت علی کی فٖضیلت کم کرنا ہے۔ ایمان ابوطالب کے ایک ہزار ثبوت ہیں میرے پاس ۔ ان لوگوں کو مولا علی کا فرمان پڑھ کر سنانا چاہیے قیامت کے دن ابوطالب بادشاہوں کی طرح لائے جائیں گے۔ دونوں ایات جو قران کی بتا رہے ہو وہ ایک مدنی ہے اور جو مکی ہے وہ بھی ابوطالب کے بارے میں نہیں ہے جناب ۔ حضرت علی گواہ ہیں اس کے۔ حضرت علی کی گواہی مانی جائے گی یا آپ کی

      Delete
  2. فصل
    في ذكر العلماء الذين قالوا بإيمان أبي طالب ونجاته

    ذكر مفتي الشافعية في مكة المكرمة في وقته السيد أحمد زيني دحـلان في كتابه هذا (( أسنى المطالب في نجاة أبي طالب )) أسماء بعض العلماء الذين قالوا بنجاته وإيمانه رضي الله عنه وهم : العلامة الشريف محمد بن رسول البرزنجي صاحب الأصل ، والأجهوري، والتلمساني ، والحافظ السيوطي الشافعي ، وأحمد بن الحسين الموصلي الحنفي ، ومحمد بن سلامة القضاعي ، والقرطبي ، والسبكي ، والشعراني .
    وذكر الحافظ ابن حجر في (( الفتح )) (7/195) أن السهيلي (( رأى في بعض كتب المسعودي أنه أسلم ))(32) .
    أقول : وقـد وقفت على بعـض أسماء مؤلفـات من قال بنجـاة أبي طالب وإليـــك ذلك :
    1- (( بغية الطالب لإيمان أبي طالب وحسن خاتمته )) تأليف العلامة البرزنجي ، مخطوط بدار الكتب المصرية .
    وهذا الكتاب منسوب إلى الإمام الحافظ السيوطي ولما أتينا بمخطوطته من دار الكتب المصرية وجدناه للعلامـة البرزنجي وهو موضوع بين رسائل للحافظ السيوطي .
    2- (( إثبات إسلام أبي طالب )) تأليف : مولانا محمد معين الهندي السندي التتوي الحنفي (ت1161هـ) .
    3- (( السهم الصائب لكبد من آذى أبا طالب )) تأليف أبو الهدى محمد أفندي بن حسن الصيادي الرفاعي (1266هـ -1327هـ) كما في الأعلام (6/94) .
    4- (( غاية المطالب في بحث إيمان أبي طالب )) تأليف السيد علي كبير بن علي جعفر الحسيني الهندي الإله أبادي (1212هـ -1285هـ) . انظر نزهة الخواطر (7/342) .
    5- (( فيض الواهب في نجاة أبي طالب )) تأليف الشيخ : أحمد فيضي بن علي عارف الجورومي الخالدي الرومي الحنفي (1253هـ ـ1327هـ) . انظر هدية العارفين (1/195) .
    6- (( أبو طالب بطل الإسلام )) تأليف صديقنا القاضي الفاضل السيد حيدر ابن العلامة السيد محمد سعيد العرفي حفظـه الله تعالى ، وللعـلامة السيد محمد سعيد العرفي مراسلات مع السيد محمد بن عقيل الباعلـوي صاحب (( النصائح الكافية )) و (( العتب الجميل )) أثبتنا جملة منها في مقدمة تحقيقنا (( للعتب الجميل )) وهي مهمة فلينظرها من شاء .
    وهناك كتب أخرى يمكن تتبعها في (( معجم ما ألف عن أبي طالب عليه السلام )) لعبدالله صالح المنتفكي في مجلة ( تراثنا ) العدد الثالث والرابع سنة 1421هـ .
    7- وأما الإمامية ففي كتاب (( الميزان في تفسير القرآن )) (16/57) ما نصه :
    (( وروايات أئمة أهل البيت عليهم السلام مستفيضة على إيمانه ، والمنقول من أشعاره مشحون بالإقرار على صدق النبي صلى الله عليه وآله وسلم وحقيّة دينه ... )) .
    8- وقال الشيخ الطوسي في تفسيره (( التبيان )) (8/164) :
    (( وعن أبي عبدالله وأبي جعفر أن أبا طالب كان مسلماً وعليه إجماع الإمامية لا يختلفون فيه ، ولهم على ذلك أدلة قاطعة موجبة للعلم ليس هذا محل ذكرها )) .
























    ReplyDelete
  3. ایمان حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ پر اثباتی دلیلیں:
    --ایمان ابوطالب پر اثباتی دلیلیں اسلام سے پہلے آپ دین ابراہیم علیہ السلام پر تھے چنانچہ ان کی بت پرستی کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔
    --آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح پڑھایا تھا جس کا آغاز کلمہ بسم اللہ سے ہوا تھا۔ اللہ کا نام وہ لوگ استعمال کرتے تھے جو دینِ ابراہیمی پر عمل کرتے تھے۔
    --ان کی زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا تو... ان کا نکاح فسخ نہ ہوا جبکہ اگر کسی مشرک یا کافر کی زوجہ اسلام قبول کرتی تو اس کی شادی فسخ ہو جاتی۔
    --آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مسلمان ہونے پر کچھ نہ کہا حالانکہ وہ سن و سال میں چھوٹے تھے۔
    --آپ کے اشعار جو سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری وغیرہ کے علاوہ عربی ادب میں عموماً ملتے ہیں، آپ کے ایمان پر سند ہیں۔
    --حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے عمومی اعلان کے بعد بھی حضرت ابو طالب کے دسترخوان پر کھانا کھاتے جبکہ کسی مشرک و کافر کے ساتھ نہ کھاتے۔
    --جس سال حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید دکھ ہوا اور انہوں نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا یعنی غم کا سال
    --حضرت ابوطالب نے ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی یہاں تک کہ ان کے بستر پر بدل بدل کر اپنے بیٹوں خصوصاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سلاتے تاکہ قریش حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ بھتیجے کی محبت کے علاوہ اسلام سے بھی محبت کا ثبوت ہے کیونکہ بھتیجے کی محبت بیٹوں سے فوقیت نہیں رکھتی
    --سیرت ابن ہشام و سیرت ابن اسحاق کے مطابق وفات کے وقت ایک صحابی (حضرت عباس رضی اللہ عنہ) نے کان لگا کر سنا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ خدا کی قسم یہ وہی کلمات کہہ رہے ہیں جو اس سے قبل آپ ان کو کہنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا تھا۔

    ReplyDelete
  4. ایمان والدین مصطفی و ابو طالب رضی الللہ عنہ از امام بدر الدین عینی شارح بخاری
    ”و قال قرطبی : و قد سمعت ان اللّٰہ احی عمہ ابا طالب فامن بہ و روی اسھیلی فی الرض بسنہ ان اللّٰہ احیا ام النبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم و اباہ فآمنا بہ“۱#
    اور فرمایا قرطبی نے اور بیشک سنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور ﷺ کے چچا ابو طالب ﷼ کو زندہ فرمایا، پس وہ ایمان لائے اور روایت بیان کی سہیلی نے اپنی کتاب ” الروض “ میں سند کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے والدہ ماجدہ اور والدہ مکرم کو زندہ فرمایا ، تو وہ آپ پر ایمان لائے ۔
    حوالہ :عمدة القاری شرح بخاری ، ج / ۱۸ ص/
    -----------------------------------------------------------------------------
    ایمان حضرت ابوطالب از خواجہ خواجگان محبوب الٰہی حضرت نظام الدین دہلوی ۻ
    بعد از آن ، آن حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ابو طالب ﷼ کے بارے میں گفتگو ہوئی تو فرمایا کہ لکھتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن دوزخ میں نہیں جائیں گے ۔
    ایک مرتبہ خواجہ شفیق بلخی ۺ کی ملاقات مہتر خضر علیہ السلام سے ہوئی ۔ آپ نے عجیب و غریب سوال کیا ۔ منجملہ ایک یہ بھی ہے کہ میں نے سنا ہے کہ قیامت کے دن ابو طالب ﷼ دوزخ می...ں نہیں جائیں گے ، فرمایا: ٹھیک ہے ۔ میں نے سرور کائنات خواجہ ٴ عالم کی زبان مبارک سے سنا ہے ۔ جو فرماتے ہیں کہ ابو طالب قیامت کے دن بہشت میں جائیں گے ۔
    خواجہ شفیق بلخی نے پوچھا دلیل ۔ فرمایا : ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آپ فوت ہوئے ہیں تو دنیا سے باایمان گئے ہیں ۔ اس دن سے شیطان غمناک ہے ۔ اور جب اس کی قوم نے غمناکی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا : اس واسطے کہ وہ دنیا سے با ایمان گیا ہے ۔۱#
    ،نقل از راحت المحبین مترجم جلد /۲ ص/ ۱۱۶ ، مرتبہ امیر خسرو

    ReplyDelete
  5. تمام اہل سنت و جماعت اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امام الانبیاء علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی خبر سن کر ابو لہب نے خوشی سے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا اور خدا کی طرف سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن اور نبی کریم علیہ السلام کے سب سے بڑے مخالف اس ابو لہب کو یہ انعام ملا کہ جہنم کی آگ میں جلنے کے باوجود بھی اشارہ کرنے والی اس انگلی سے دودھ نکلتا ہے اگر ابو لہب کے لئے یہ انعام ہو سکتا ہے تو جس ابو طالب نے اسلام کی کبھی مخالفت نہ کہ ہو اور محبوب خدا کی کبھی مخالفت نہ کی ہو ابلکہ ہر لحظہ اپنے بھتیجے کا ساتھ دیا ہو ۔ ہر مصیبت میں کام آیا ہو ۔ کفار مکہ کو مقابلہ کے لئے للکارا ہو ۔ اور آخر مکہ کی بستی سے آمنہ کے لال کو مشرکین عرب کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے نکال کر شعب ابی طالب میں لے آیا ہو ۔ اور پھر متواتر کئی سال تک ساری رات اس در یتیم کی حفاظت کی خاطر ننگی تلوار سے پہرہ دیتا رہا ہو کیا اس کی وفا و اطاعت کا صلہ خدا وند تعالیٰ کے رحمت و بخشش کے خزانوں میں سے کچھ بھی نہیں؟
    اور کیا تاریخ اسلام میں رسول اکرم ﷺکی قدم قدم پر حمایتکرنے اور شعب ابی طالب کے سنہری باب کو مٹا دیا جائے ؟

    ReplyDelete
  6. ایمان حضرت سیدنا ابو طالب رضی اللہ عنہ ایک اور آئینہ سے!
    جناب ابو طالب کے ایمان کے منکر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ سید المرسلین علیہ السلام نے آخری وقت بھی ابو طالب پر اسلام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ چچا میرے کان میں ہی کلمہ شریف پڑھ دو تو انھوں نے کہا تھا : قریش کیا کہیں گے گویا کہ قریش کے خوف سے ابو طالب نے آخری وقت بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ میں ان حضرات کرام سے نہایت ادب سے پوچھتا ہوں کہ بھل...ا جس مرد حق پرست نے علی المرتضیٰ جیسا جری ، بہادر ، قاتل مرحب غارتگر ابن ود اور شیر خدا کو جنم دیا ہو وہ خود قریش کے چند جوانوں سے ڈر کر دین و ایمان جیسی متاع عزیز سے محروم رہ جائے حیران کن بات نہیں تو کیا ہے ؟
    اور جس مرد حق شناس نے ایک دفعہ صرف اپنے بھتیجے کو ہی نہیں سید المرسلین اور محبوب خدا کو بھی کفار مکہ کی طرف سے ایذا رسائی پر قبیلہ قریش کے بڑے بڑے بہادروں ، پہلوانوں اور سورماؤں کے خلاف میان سے تلوار نکال کر انھیں مقابلہ کے لئے للکارا تھا وہ آج انھیں لوگوں سے ڈر کر اسلام قبول نہیں کرتا تعجب نہیں تو اور کیا ہے ؟
    اس روایت کو ابو طالب کے کفر کی دلیل ٹھہرانے والے حضرات کی نظر سے شاید شیخ دہلوی ۺ کی کتاب ”مدارج النبوت “جلد دوم صفحہ ۶۸ کی یہ عبارت نہیں گزری جس میں انھوں نے حضرت ابو طالب کا آخروقت اسلام و ایمان ثابت کرکے اختلافات کے تمام قلعے مسمار کر دیئے ہیں ۔
    ” در روایت ابن اسحاق آمدہ کہ وی اسلام آورد نزدیک بوقت موت و گفتہ کہ چون قریب شد موت وی نظر کرد عباس بسوی وی دید کہ می جنباند لبہای خود را ۔ پس گوش نہاد عباس بسوی او و گفت بآنحضرت علیہ السلام یابن اخی واللہ بتحقیق گفت برادر من کلمہ را کہ امر کردی تو اورا “
    ”ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت ابو طالب موت کے وقت اسلام لے آئے تھے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا اور دیکھا کہ حضرت ابو طالب کے ہونٹ ہل رہے ہیں پھر حرت عباس نے اپنے کان ان کے لبو ں پر رکھے اور سنا کہ وہ کلمہ شریف پڑھ رہے ہیں ۔ حضرت عباس نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور عرض کی : اے مرے بھائی کے بیٹے خدا کی قسم میں پورے یقین اور پوری تحقیق کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرے بھائی ابو طالب نے کلمہ پڑھ لیا ہے جس کا آپ نے انھیں حکم فریا تھا “
    اور شاید ان حضرات کی نظر سے شیخ دہلوی کی عبارت بھی آج تک پوشیدہ رہی ہے کہ ” صاحب جامع الاصول آوردہ کہ زعم اہل بیت آن است کہ ابو طالب مسلمان از دنیا رفتہ“
    کذافی ، روضة الاحباب ، مدارج النبوة ، جلد دوم صفحہ ۲۴، صاحب جامع الاصول اور صاحب روضة الاحباب اسی بات پر متفق ہیں اہل بیت اطہار ﷼ کا یہ گمان ہے ابو طالب ﷼ اس دنیا سے مسلمان گئے ہیں ۔ ہر مکتب فکر کے علمائے کرام اور خصوصا اکابرین اہل سنت و جماعت شیخ دہلوی رحمة اللہ علیہ کو جب محدث و محقق مانتے ہیں تو پھر حضرت ابو طالب کے ایمان و اسلام کے بارے میں ان کی تلاش و تحقیق سے انکار کیوں ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. کیا موت کے وقت اگر کوئی ایمان لائے تو وہ معتبر ہوگا؟
      آپ کے اس اعتراض کا جواب اس کتاب میں دیا ج چکا ہے

      Delete
  7. بہرکیف اب اگر ان روایات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو سیکنڑوں قرآنی نصوص کا انکار لازم آتا ہے ۔ کیونکہ روایات کے مطابق حضرت
    ابوطالب رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے کافر و مشرک ہونے کی وجہ سے جہنم میں ڈالا گیا ہے ۔اور قرآن مجید ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کافر و مشرک کو کسی قسم کی رعایت دی جائے
    روایت میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کی نصرت و حمایت فرمائی لیکن قرآن کہتا کہ کفاروں مشرکین کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہو گا ۔ روایت میں ہے کہ حضرت ابوطالب کی خدمات کے صلہ میں ان کے عذاب میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ کفارو مشرکین کی تمام نیکیاں سلب کر لی جائیں گی ۔
    روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوطالب رضی اللہ تعالی عنہ کے عذاب میں کمی ہو گی لیکن قرآن کہتا ہے کہ کفاروں مشرکین کے لیے کوئی سفارش نہیں کر سکے گا ،روایت میں ہے کہ حضرت ابوطالب رضی اللہ تعالی عنہ کے عذاب میں کمی ہو گی لیکن قرآن کہتا ہے کہ کفاروں مشرکین کے عذاب میں تخفیف نہیں ہع گی ایسی صورت میں کس چیز کو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔قرآنی آیات کو یا ان روایات کو۔
    . فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن ناصِرِينَ
    . پھر جو لوگ کافر ہوئے انہیں دنیا اور آخرت (دونوں میں) سخت عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گ
    91. إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ
    91. بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور حالتِ کفر میں ہی مر گئے سو ان میں سے کوئی شخص اگر زمین بھر سونا بھی (اپنی نجات کے لئے) معاوضہ میں دینا چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، انہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہو سکے گا
    ( Sura Āl ‘Imrān)
    إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
    بیشک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو یقیناً اﷲ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور ظالموں کے لئے کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا
    (72, Sura al-Mā’idah )
    لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ
    ان کے لئےاللہ کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ (کوئی) سفارشی
    (51, Sura al-An‘ām)
    . إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا
    64. بیشک اللہ نے کافروں پر لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لِئے (دوزخ کی) بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے
    65. خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَّا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
    65. جِس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ نہ وہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ مددگار
    (Sura al-Ahzāb)

    ReplyDelete
  8. أُولَـئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ
    22. یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت (دونوں) میں غارت ہوگئے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا
    (Sura Āl ‘Imrān)
    وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ
    اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا
    (5,Sura al-Mā’idah)
    106. ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا
    106. یہی دوزخ ہی ان کی جزا ہے اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے رہے اور میری نشانیوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے رہے
    (Sura al-Kahf)
    عزاب میں تخفیف نہیں ہو گی
    161. إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
    161. بیشک جنہوں نے (حق کو چھپا کر) کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہی تھے ان پر اﷲ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے
    162. خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ
    162. وہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں (گرفتار) رہیں گے، ان پر سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی
    (Sura al-Baqarah)
    86. أُولَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنْصَرُونَ
    86. یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے میں دنیا کی زندگی خرید لی ہے، پس نہ ان پر سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی ان کو مدد دی جائے گی
    (Sura al-Baqarah)
    36. وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ
    36. اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے، نہ ان پر (موت کا) فیصلہ کیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ ان سے عذاب میں سے کچھ کم کیا جائے گا، اسی طرح ہم ہر نافرمان کو بدلہ دیا کرتے ہیں
    (Sura Fātir)
    88. الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يُفْسِدُونَ
    88. جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے روکتے رہے ہم ان کے عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے اس وجہ سے کہ وہ فساد انگیزی کرتے تھے
    (Sura an-Nahl)
    دائیمی عذاب
    وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ
    اور کافروں سے آتشِ دوزخ کا وعدہ فرما رکھا ہے (وہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے، وہ (آگ) انہیں کافی ہے، اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے ہمیشہ برقرار رہنے والا عذاب ہے
    (Sura at-Tawbah)
    وَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
    اور یہی لوگ اہلِ جہنم ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
    (5,Sura ar-Ra‘d)
    اولاد و مال نہیں بچا سکے گا

    ReplyDelete
  9. 116. إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلاَ أَوْلاَدُهُم مِّنَ اللّهِ شَيْئًا وَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
    116. یقینا جن لوگوں نے کفر کیا ہے نہ ان کے مال انہیں اللہ (کے عذاب) سے کچھ بچا سکیں گے اور نہ ان کی اولاد، اور وہی لوگ جہنمی ہیں، جو اس میں ہمیشہ رہیں گے
    (Sura Āl ‘Imrān)
    احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم
    اھل کبائر کی شفاعت
    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہے
    (ترمذی ابوداود مشکوٰۃ ج۱ص۵۱۳)
    مشرک کی شفاعت نہیں ہو گی
    عوف ابنِ مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس رب تعالی کی طرف سے آنے والا آیا
    تو مجھے اس کا اختیار دیا گیا کہ یا تونصف اُمت کو جنت میں داخل کروا دوں یا شفاعت کروں
    تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا اور میری شفاعت ہر اس شخص کو پہنچے گی جس نے شرک نہ کیا ہو
    (ترمذی مشکوٰۃ شریف ج۱ص۵۱۳ابن ماجہ)
    ان دونوں روایتوں سے صاف ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبرہ گناہ والوں کی شفاعت فرمائیں گے اور مشرکین کی شفاعت ہرگز نہیں
    فرمائیں گے ،
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنت الہیہ اور قانون خداوندی کا ترجمان ہے کہ کوئی مشرک لائق سفارش و شفاعت نہیں یہ ایک اٹل دستور ہے جسے بہر صورت تسلیم کرنا ہو گا۔
    قرآن و حدیث کی کوئی ایسی نص نہیں ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ مشرکین کے عذاب میں کمی ہو گی یا ان کے لیے شفاعت قبول کی جائے گی بلکہ اس کے برعکس سیکنڑوں آیات قرآن مجید میں موجود یہں کہ کسی مشرک کی نہ تو سفارش ہو گی اور نہ ہی اس کے عذاب میں تخفیف ہو گی اب اگر آپ بخاری شریف کی کلمہ نہ پڑھانے والی روایت پر یقین رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ حضرت ابوطالب کو مشرک سمجھتے ہیں کیونکہ اس روایت میں ان کے مشرک ہونے کی وجہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کرنے سے روکا گیا ہے
    اور اگر واقعی آپ ایسا سمجھتے ہیں تو اس حدیث سے انکار کرنا ہو گا جس میں تخفیف عذاب کے متلق آیا ہے کہ وہ غمرات نار اور درکِ اسفل میں تھے انہیں اوپر کھینچ لیا گیا یا اوپر لائے جائیں گے یا قیامت میں ان کی سفارش و شفاعت ہو گی ۔

    ReplyDelete
  10. صحیح بخاری،
    ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے، ان سے انکے والد نے کہا کہ میں نے ابن عمر کو ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے سنا تھا (ترجمہ) گورا انکا رنگ انکے چہرے کے واسطے سے بارش کی (اللہ سے) دعا کی جاتی ہے، یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کا سہارا۔
    حضرت ابوطالب کس درجہ معرفت رسول کریم سے سرشار تھے . پر جو حضرت ابوطالب کی کہی ہوئی ان نعتوں کو پڑھنے کے بعد اب بھی آپ کو کافر کہتے ہیں۔
    اس شعر میں گواہی ہے کہ حضرت ابو طالب "اللہ سے دعا" کرتے تھے، اور اللہ انکی دعا قبول بھی کرتا تھا۔
    جبکہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ دعا ایمان والوں کی ہی قبول ہے جبکہ کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔
    القرآن، سورۃ الشوری (42 نمبر سورہ)، آیت 26:

    ReplyDelete
  11. چنانچہ یہاں حضرت ابو طالب کے ایمان کی پہلی گواہی یہ ہے کہ وہ "اللہ" سے دعا کر رہے ہیں نبی کریم کو وسیلہ بناتے ہوئے۔۔۔۔۔ اور آپ کے ایمان کی دوسری گواہی یہ ہے کہ اللہ انکی دعا کو قبول فرماتا ہے اور بارش بھیجتا ہے۔
    اسی کو دیکھ کر بقیہ مسلمان اس کی سنت پر عمل کرتے ہیں اور عبداللہ ابن عمر اس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسی کے طریقے سے اللہ سے دعا کرتے ہیں

    ReplyDelete
  12. ابن اثير الكامل فى التاريخ میں اس طرح رقم طراز ہیں:"فعظمت المصيبة على رسول الله بهلاكهما فقال رسول الله ( ما نالت قريش مني شيئا أكرهه حتى مات أبو طالب. وذلك أن قريشا وصلوا من أذاه بعد موت".جناب ابوطالب اور خدیجہ کی وفات، پیغمبر اسلام کےلئے بہت سخت مرحلہ تھا اسی لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تک ابوطالب زندہ تھے قریش کے کسی فرد میں اتنی مجال نہیں تھی کہ مجھے نقصان پہنچاسکے، قریش نے ابوطالب کی وفات کے بعد سے مجھ پر ظلم کرنا شروع کردیا ۔[4] الكامل في التاريخ، ج 1، ص 606

    ReplyDelete
  13. جناب بھائی صاحب سیدی اعلی حضرت سے پہلے بزرگ ہے سید احمد زینی دحلان کا پورا رسالہ لکھا ہوا ہے ایمان ابو طالب پر جنکو ا اعلی حضرت کے استاد کے نام سے جانا جاتا ہے

    ReplyDelete
  14. پاکستان کی ایک بہت بڑھی ہستی جن کے ہزاروں شاگرد ہیں عطا محمّد بندیالوی علیہ رحم آپ کا بھی ایمان ابو طالب پر رسالہ موجود ہے

    ReplyDelete
  15. " عن ابی اسحاق أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم قال لِعُقَيْلِ بن أبي طَالِبٍ: يا أَبَا يَزِيدَ اني احبك حُبَّيْنِ لِقَرَابَتِكَ مِنِّي وَحُبٌّ لِمَا كنت أَعْلَمُ من حُبِّ عَمِّي إِيَّاك"َ نبی علیہ السلام نے جناب عقیل سے فرمایا: اے عقیل میں تم سے دو وجہ سے محبت کرتا ہوں،پہلے تو یہ کہ تم میرے رشتہ دار ہو اس لئے تم کو چاہتا ہوں، دوسرے یہ کہ تم سے چچا ابوطالب محبت کرتے تھے اس لئے میں محبت کرتا ہوں۔[1] الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، و المعجم الكبير، ج 17، ص 191 و المستدرك على الصحيحين، ج 3، ص 667، و الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3، ص 1078،

    ReplyDelete
  16. ابن اثير الكامل فى التاريخ میں اس طرح رقم طراز ہیں:"فعظمت المصيبة على رسول الله بهلاكهما فقال رسول الله ( ما نالت قريش مني شيئا أكرهه حتى مات أبو طالب. وذلك أن قريشا وصلوا من أذاه بعد موت".جناب ابوطالب اور خدیجہ کی وفات، پیغمبر اسلام کےلئے بہت سخت مرحلہ تھا اسی لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تک ابوطالب زندہ تھے قریش کے کسی فرد میں اتنی مجال نہیں تھی کہ مجھے نقصان پہنچاسکے، قریش نے ابوطالب کی وفات کے بعد سے مجھ پر ظلم کرنا شروع کردیا ۔[4] الكامل في التاريخ، ج 1، ص 606

    ReplyDelete
  17. ایمان ابوطالب

    ایک ناقابل تردید دلیل
    سبھی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ:
    جناب ابو طالب کی زوجہ اور جناب علی کرم اللہ وجہہ کی والدہ ماجدہ جنابہ فاطمہ بنت اسد ابتدا میں ہی اپنے ایمان کو ظاہر کر چکی تھیں
    وہ جناب ابوطالب کے یوم وفات تک انکے گھر میں انکی زوجہ کی حیثیت سے قیام پذیر رہیں
    کیا ایک مومنہ ـــــ ایک مشرک کے ساتھ بحیثت زوجہ اس کے گھر میں رہ سکتی ہے
    یہ ہے وہ دلیل جس کا کوئی جواب نہیں
    والسلام من تبع الہدیٰ

    ReplyDelete
  18. بيهقى دلائل النبوة میں لکھتے ہیں: "عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم عاد من جنازة أبي طالب فقال: «وصلتك رحم، وجزيت خيرا يا عم"ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام جناب ابوطالب کو دفنا کر لوٹ رہے تھے کہ اثناء راہ میں فرمایا: اے چچا جان بے شک آپ نے صلہ رحم کو بطور احسن انجام دیا اور بہترین نیکی کو انجام دیا ہے[2] دلائل النبوة، ج 2، ص 349 و تاريخ بغداد، ج 13، ص 196 و البداية والنهاية، ج 3، ص 125۔

    ReplyDelete
  19. صحیح بخاری،
    ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے، ان سے انکے والد نے کہا کہ میں نے ابن عمر کو ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے سنا تھا (ترجمہ) گورا انکا رنگ انکے چہرے کے واسطے سے بارش کی (اللہ سے) دعا کی جاتی ہے، یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کا سہارا۔
    حضرت ابوطالب کس درجہ معرفت رسول کریم سے سرشار تھے . پر جو حضرت ابوطالب کی کہی ہوئی ان نعتوں کو پڑھنے کے بعد اب بھی آپ کو کافر کہتے ہیں۔
    اس شعر میں گواہی ہے کہ حضرت ابو طالب "اللہ سے دعا" کرتے تھے، اور اللہ انکی دعا قبول بھی کرتا تھا۔
    جبکہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ دعا ایمان والوں کی ہی قبول ہے جبکہ کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔
    القرآن، سورۃ الشوری (42 نمبر سورہ)، آیت 26:

    ReplyDelete
  20. " عن ابی اسحاق أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم قال لِعُقَيْلِ بن أبي طَالِبٍ: يا أَبَا يَزِيدَ اني احبك حُبَّيْنِ لِقَرَابَتِكَ مِنِّي وَحُبٌّ لِمَا كنت أَعْلَمُ من حُبِّ عَمِّي إِيَّاك"َ نبی علیہ السلام نے جناب عقیل سے فرمایا: اے عقیل میں تم سے دو وجہ سے محبت کرتا ہوں،پہلے تو یہ کہ تم میرے رشتہ دار ہو اس لئے تم کو چاہتا ہوں، دوسرے یہ کہ تم سے چچا ابوطالب محبت کرتے تھے اس لئے میں محبت کرتا ہوں۔[1] الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، و المعجم الكبير، ج 17، ص 191 و المستدرك على الصحيحين، ج 3، ص 667، و الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3، ص 1078،

    ReplyDelete
  21. ابوالفدا اور شعرانی حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی بیماری سخت ہوئی رسول خدا (ص) نے ان سے کہا اے چچا جان توحید ورسالت کی گواہی دیجئے تاکہ روز قیامت آپ کی شفاعت کر سکوں،ابوطالب کہنے لگے بھتیجے اگر مجھے قریش کے اس طعنہ کا اندیشہ نہ ہوتا کہ میں نے موت کے خوف سے یہ کلمہ کہا ہے تو میں ضرور یہ کلمہ کہہ دیتا لیکن جب ابوطالب کی موت اور قریب ہوئی تو ان کے ہونٹ ہلنے لگے اس وقت عباس نے اپنے کان کو ان کے ہونٹوں کے قریب کر لیا اور ان کی بات کو سنا اور کہا: اے بھتیجے مجھے اللہ کی قسم ہے جو کلمہ آپ ان سے سننا چاہ رہے تھے انہوں نے کہہ دیا ہے، رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے چچا جان! حمد ثنا ہے اسی خدا کہ جس نے آپکو ہدایت بخشیـ

    ReplyDelete
  22. جناب حضرت ابو طالب آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نکاح پڑھایا تھا جس کا آغاز کلمہ بسم اللہ سے ہوا تھا۔ اللہ کا نام وہ لوگ استعمال کرتے تھے جو دینِ ابراہیمی پر عمل کرتے تھے۔

    ReplyDelete
  23. ان کی زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا تو ان کا نکاح فسخ نہ ہوا جبکہ اگر کسی مشرک یا کافر کی زوجہ اسلام قبول کرتی تو اس کی شادی فسخ ہو جاتی۔
    آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مسلمان ہونے پر کچھ نہ کہا حالانکہ وہ سن و سال میں چھوٹے تھے۔

    ReplyDelete
  24. آپ کے اشعار جو سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری وغیرہ کے علاوہ عربی ادب میں عموماً ملتے ہیں، آپ کے ایمان پر سند ہیں۔

    ReplyDelete
  25. جس سال حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید دکھ ہوا اور انہوں نے اس سال کا نام عام الحزن (یعنی غم کا سال) رکھا۔

    ReplyDelete
  26. سیرت ابن ہشام و سیرت ابن اسحاق کے مطابق وفات کے وقت ایک صحابی نے کان لگا کر سنا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ خدا کی قسم یہ وہی کلمات کہہ رہے ہیں جو اس سے قبل آپ ان کو کہنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا تھا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. موت کے وقت جب غرغرہ طاری ہو جائے ایمان لانا معتبر نہیں
      اگر وہ پہلے سے مومن تھے تو آخری وقت میں کلمہ پڑھنے سے انکار کیوں کیا؟

      Delete
  27. شفا شریف کا حوالہ ہے ...حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم علیہ السلام سے عرض کیا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے آپ علیہ السلام کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ حضرت ابو طالب کا کا اسلام لانا میرے لیے ان کے اسلام لانے یعنی انکے والد حضرت ابو قحافہ رضی الله کےاسلام لانے سے زیادہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب ہے کیوں کہ حضرت ابو طالب کا اسلام لانا آپ علیہ السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے

    ReplyDelete
  28. ابن جوزی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھ پر نازل ہوئے جبریل اور کہا:اللہ تعالی آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: آتش دوزخ حرام ہے اس پر جس کی پشت سے آپ شکم مادر میں آئے اور آتش دوزخ حرام ہے اس پر جس نے اپنے شکم میں آپ کی پرورش کی اورآتش دوزخ حرام ہے اس پر جس نے اپنے دامن آغوش میں آپ کی پرورش کیـ وہ پشت عبداللہ والدِ پیغمبر کی ہے، اور وہ شکم آپ کی والدہ آمنہ کا ہے اور وہ دامن آغوش آپ کے چچا ابو طالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بنت اسد کا ہےـ
    ﴿ التعظیم و المنه از سیوطی ص 25﴾

    ReplyDelete
  29. ابوالفدا اور شعرانی حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی بیماری سخت ہوئی رسول خدا (ص) نے ان سے کہا اے چچا جان توحید ورسالت کی گواہی دیجئے تاکہ روز قیامت آپ کی شفاعت کر سکوں،ابوطالب کہنے لگے بھتیجے اگر مجھے قریش کے اس طعنہ کا اندیشہ نہ ہوتا کہ میں نے موت کے خوف سے یہ کلمہ کہا ہے تو میں ضرور یہ کلمہ کہہ دیتا لیکن جب ابوطالب کی موت اور قریب ہوئی تو ان کے ہونٹ ہلنے لگے اس وقت عباس نے اپنے کان کو ان کے ہونٹوں کے قریب کر لیا اور ان کی بات کو سنا اور کہا: اے بھتیجے مجھے اللہ کی قسم ہے جو کلمہ آپ ان سے سننا چاہ رہے تھے انہوں نے کہہ دیا ہے، رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے چچا جان! حمد ثنا ہے اسی خدا کہ جس نے آپکو ہدایت بخشیـ

    ReplyDelete
  30. شرح ابن ابی الحدید 311 / 3 میں لکھا ہے: رسول خدا (ص) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھ سے کہا کہ اللہ تعالی چھ افراد کے بارے میں آپ کی شفاعت کو قبول فرماتا ہے: وہ جس نے آپ کو اپنے شکم میں جگہ دی اور حاملہ ہوئی ، آمنہ بنت وہب
    اور وہ جس کی پشت سے آپ شکم مادر میں آئے عبداللہ بن عبدالمطلب
    اور وہ جس نے آپ کی اپنے دامن میں پرورش کی، ابوطالبـ
    اور وہ جس نے آپ کو اپنے گھر میں پناہ دی، عبدالمطلب
    اور وہ بھائی جو اعلان اسلام سے پہلے تھا

    ReplyDelete
  31. حضرت ابوطالب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پہلے اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ہمراہ شام گئے تھے وہ اپنے بارہ سالہ بھتیجے "محمد" کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انہوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔

    ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جوں ہی قافلہ کتب عہدین کے بڑے عالم اور قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت”بحیرا“ نامی مسیحی راہب – جس کی زیارت کے لئے تجارتی قافلے رک جاتے تھے - کے قریب سے گذرا، تو راہب کی نظریں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں۔

    بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران و ششدر رہنے اور گہری اور پُر معنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا: یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟ لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ بحیرا نے کہا اس بچے کے ماں باپ زنده نھیں ہونےا چاہئیں. تو حضرت ابوطالب نے کہا جی ہاں ان کے والدین کا انتقال ہوا ہے اور اب میں ان کے چچا کی حیثیت سے ان کا کفیل ہوں.

    ” بحیرا“ نے کھا : اس بچے کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کی نبوت و رسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اس کی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑہی ہیں ۔
    ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔

    ReplyDelete
  32. مشھورعالم شھرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اہل مکہ سے روک لی اور شدید قحط سالی نے لوگوں کو گہیر لیا تو ابوطالب نے حکم دیا کہ ان کے بہتیجے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو – جو ابھی شیر خوار ہی تھے لایا جائے-، جب بچے کو کپڑے میں لپٹا ہؤا لایا گیا اور انہیں دے دیا گیا تو وہ اسے لے کر خانہٴ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع و زاری کی حالت میں اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور تین مرتبہ کہا:، پروردگارا، اس بچے کے حق کا واسطہ ہم پر برکت والی بارش نازل فرما ۔

    کچھ زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہؤا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ہی ویران نہ ہوجائے “۔
    اس کے بعد شھرستانی لکھتا ہے کہ یہی واقعہ جو ابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعے کی مناسبت سے کہے تھے :

    و ابیضُ یستسقی الغمام بوجہہ
    ثمال الیتامی عصمة الارامل
    ” وہ ایسا روشن چھرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “

    یلوذ بہ الھلاک من آل ہاشم
    فہم عندہ فی نعمة و فواضل
    ” بنی ہاشم میں سے جو چل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقے نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند ہوتے ہیں ،،

    و میزان عدلہ یخیس شعیرة
    ووزان صدق وزنہ غیر ھائل
    ” وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَو برابر بھی ادہر ادہر نہیں ہوتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک و شبہ کا خوف نہیں ہے “
    قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے ۔“

    ReplyDelete
  33. اشعار ابوطالب زندہ گواہ
    مشھور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں ان میں سے کچھ اشعار ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں :

    والله ان یصلوالیک بجمعھم
    حتی اوسد فی التراب دفینا
    ”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب خاک میں نہ سو یا ہو اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے“
    فاصدع بامرک ما علیک غضاضتہ
    و ابشر بذاک و قرمنک عیونا
    ”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔

    ودعوتنی وعلمت انک ناصحی
    ولقد دعوت وکنت ثم امینا
    ”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف و مقصد صرف خیرخواہی ہے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہے“
    ولقد علمت ان دین محمد(ص)
    من خیر ادیان البریة دیناً
    ” میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین و مکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ہے“۔
    اور یہ اشعار بھی انہوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں :
    الم تعلموا انا وجدنا محمد اً
    رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب
    ” اے قریش ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم نے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو موسیٰ (علیہ السلام) کی مانند خدا کا پیغمبر اور رسول پایا جن کے آنے کی پیشین گوئی پہلی آسمانی کتابوں میں لکہی ہوئی ہے“۔
    وان علیہ فی العباد محبة
    ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب
    ” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وند متعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤ بے جا نہیں ہے۔“
    ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد – جن کا مجموعہ ابن شھر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار پر مشتمل بتایا ہے – کہتے ہیں: ”ان تمام اشعار کے مطالعے سے کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔

    ReplyDelete
  34. ایمان ابوطالب پر لکھی جانے والی کتب اورمصنفین کے اسماء

    فصل
    في ذكر العلماء الذين قالوا بإيمان أبي طالب ونجاته

    ذكر مفتي الشافعية في مكة المكرمة في وقته السيد أحمد زيني دحـلان في كتابه هذا (( أسنى المطالب في نجاة أبي طالب )) أسماء بعض العلماء الذين قالوا بنجاته وإيمانه رضي الله عنه وهم : العلامة الشريف محمد بن رسول البرزنجي صاحب الأصل ، والأجهوري، والتلمساني ، والحافظ السيوطي الشافعي ، وأحمد بن الحسين الموصلي الحنفي ، ومحمد بن سلامة القضاعي ، والقرطبي ، والسبكي ، والشعراني .
    وذكر الحافظ ابن حجر في (( الفتح )) (7/195) أن السهيلي (( رأى في بعض كتب المسعودي أنه أسلم ))(32) .
    أقول : وقـد وقفت على بعـض أسماء مؤلفـات من قال بنجـاة أبي طالب وإليـــك ذلك :
    1- (( بغية الطالب لإيمان أبي طالب وحسن خاتمته )) تأليف العلامة البرزنجي ، مخطوط بدار الكتب المصرية .
    وهذا الكتاب منسوب إلى الإمام الحافظ السيوطي ولما أتينا بمخطوطته من دار الكتب المصرية وجدناه للعلامـة البرزنجي وهو موضوع بين رسائل للحافظ السيوطي .
    2- (( إثبات إسلام أبي طالب )) تأليف : مولانا محمد معين الهندي السندي التتوي الحنفي (ت1161هـ) .
    3- (( السهم الصائب لكبد من آذى أبا طالب )) تأليف أبو الهدى محمد أفندي بن حسن الصيادي الرفاعي (1266هـ -1327هـ) كما في الأعلام (6/94) .
    4- (( غاية المطالب في بحث إيمان أبي طالب )) تأليف السيد علي كبير بن علي جعفر الحسيني الهندي الإله أبادي (1212هـ -1285هـ) . انظر نزهة الخواطر (7/342) .
    5- (( فيض الواهب في نجاة أبي طالب )) تأليف الشيخ : أحمد فيضي بن علي عارف الجورومي الخالدي الرومي الحنفي (1253هـ ـ1327هـ) . انظر هدية العارفين (1/195) .
    6- (( أبو طالب بطل الإسلام )) تأليف صديقنا القاضي الفاضل السيد حيدر ابن العلامة السيد محمد سعيد العرفي حفظـه الله تعالى ، وللعـلامة السيد محمد سعيد العرفي مراسلات مع السيد محمد بن عقيل الباعلـوي صاحب (( النصائح الكافية )) و (( العتب الجميل )) أثبتنا جملة منها في مقدمة تحقيقنا (( للعتب الجميل )) وهي مهمة فلينظرها من شاء .
    وهناك كتب أخرى يمكن تتبعها في (( معجم ما ألف عن أبي طالب عليه السلام )) لعبدالله صالح المنتفكي في مجلة ( تراثنا ) العدد الثالث والرابع سنة 1421هـ .
    7- وأما الإمامية ففي كتاب (( الميزان في تفسير القرآن )) (16/57) ما نصه :
    (( وروايات أئمة أهل البيت عليهم السلام مستفيضة على إيمانه ، والمنقول من أشعاره مشحون بالإقرار على صدق النبي صلى الله عليه وآله وسلم وحقيّة دينه ... )) .
    8- وقال الشيخ الطوسي في تفسيره (( التبيان )) (8/164) :
    (( وعن أبي عبدالله وأبي جعفر أن أبا طالب كان مسلماً وعليه إجماع الإمامية لا يختلفون فيه ، ولهم على ذلك أدلة قاطعة موجبة للعلم ليس هذا محل ذكرها )) .

    ReplyDelete
  35. ایمان ابوطالب پر سیدی ا علی حضرت کے استاد
    سید احمد زینی دحلان مفتی مكّہ معظمہ جوعقائد محمد بن عبدالوہاب کے رد کے لیے مشہور ہیں اور انہوں نے اس ضمن میں بہت ساری کتابیں تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے:
    فتنة الوھابیة
    الفتوحات الاسلامیہ
    الدرر السنیة فی الردّ علی الوھابیة
    مشہور ہیں

    ان کی کتاب
    اسنی المطالب فی نجات ابی طالب
    اس موضوع پر نہایت تحقیق و تدقیق کی حامل ہے

    ReplyDelete
  36. سیدہ فاطمہ بنت اسد اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو ایمان ابو طالب کی کیفیت معلوم تھی اس لیے نہ تو سیدہ فاطمہ نے تادم مرگ جناب ابو طالب کو چھوڑا اور نہ ہی رسول اللہ نے جناب ابو طالب سے سیدہ فاطمہ کی علیحدگی کروائی ـ فافھم
    جبکہ دوسری جانب ابوسفان کی بیٹی ام الومنین کا رویہ آپ کے سامنے ہے کہ انہوں نے ابوسفیان سے اس قدر کراہت کا اظہار فرمایا کہ انہیں رسول اللہ کے بستر پر بیٹھنے بھی نہیں دیا کیونکہ وہ اس وقت غیر مسلم تھے

    ReplyDelete
  37. ab سب سے پہلے مخالفین جناب ابو طالب کا (معاذ اللہ) کفر ثابت کرنے کے لیے یہ روایت استعمال کرتے ہیں:
    صحیح بخاری، کتاب التفسیر
    زہری نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ابو طالب جب قریب الموت ہوئے تو رسول ﷲ (ص) ان کے پاس تشریف لائے جب کہ ابوجہل اور عبداللہ بن امیّہ وہاں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا اے چچا کلمہ طیبہ لا الہٰ الا اﷲ پڑ ھ لیں تاکہ میں اس کے ذریعے آپ کا دفاع کروں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ وہ دونوں مسلسل ابوطالب سے یہی بات کہتے رہے ، یہاں تک کہ ابوطالب نے جو آخری بات انہیں کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ تو نبی کریم (ص) نے فرمایا کہ جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
    (القرآن 9:113)نبی (ص) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں
    اور پھر خاص یہ آیت ابو طالب کے لیے نازل ہوئی ۔
    (القرآن 28:56) بلاشُبہ تم (اے نبی) نہیں ہدایت دے سکتے جسے چاہو لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔
    بہت سی روایات جھوٹی گھڑ کر کتب حدیث میں داخل کر دی ہیں۔ اگر تدبر اور تفکر سے کام لیں تو آپ کو یہ جھوٹ گھڑی ہوئی روایات نظر آ سکتی ہیں۔
    سعید ابن مسیب کی یہ روایت تدلیس شدہ ہے:
    1۔ یہ روایت سعید نے اپنے والد مسیب ابن حزن سے روایت کی ہے۔
    مسیب اپنے باپ حزن کے ساتھ "فتح مکہ" کے بعد مسلمان ہوئے۔ جب حزن مسلمان ہوئے تو رسول اکرم (ص) نے ان سے اپنا نام بدلنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اور اس وقت مسیب بہت کم سن تھے۔ سعید بن المسیب یہ بذات خود حضرت عمر کے مرنے کے 2 سال بعد پیدا ہوئے تھے، یعنی 24 یا 25 ہجری میں۔
    اس طرح یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے یا انکے والد نے حضرت ابو طالب کو بستر مرگ پر دیکھا ہو کیونکہ یہ اسکے دس گیارہ سال بعد اسلام لا رہے ہیں۔ اس روایت میں تدلیس ہے کیونکہ اصل عینی گواہ کا کچھ علم نہیں ہے۔
    علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب سیرۃ النبی میں ابن مسیب کی اس روایت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
    مگر محدثانہ نقطہ نظر سے بخاری کی اس روایت کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس پر یقین کیا جائے کیونکہ اسکا آخری راوی المسیب فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا۔ چنانچہ وہ ابو طالب کی وفات کے وقت موجود ہی نہ تھا۔ اسی وجہ سے علامہ عینی نے صحیح بخاری کی شرح میں اس روایت کو "مرسل" لکھا ہے۔

    ReplyDelete
  38. ۔ اور یہ روایت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے، مگر یہ بھی جھوٹی گھڑی ہوئی روایت ہے۔
    ابو ہریرہ ایمان لائے ہیں مدینے میں رسول اللہ (ص) کی وفات سے فقط ڈھائی یا تین سال پہلے۔۔۔۔۔ جبکہ جناب ابو طالب کا انتقال ہوا تھا مکی زندگی میں۔ چنانچہ ابو ہریرہ بھی دس گیارہ سال بعد مسلمان ہو کر مدینے آتے ہیں۔ چنانچہ یہ روایت بھی تدلیس شدہ ہے یا پھر ابو ہریرہ قیاس کی بنیاد پر بذاتِ خود اس آیت کو ابو طالب کی وفات سے جوڑ رہے ہیں۔
    سورۃ براۃ (توبہ) کی یہ آیت وفات ابو طالب کے دس گیارہ سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی
    جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اور جھوٹ بولنے کے لیے عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
    جس شخص نے یہ بھی یہ جھوٹی روایت گھڑی ہے، اسکے جھوٹ کا پردہ اللہ تعالی نے یوں فاش کیا ہے کہ اس روایت میں دعوی کیا گیا ہے کہ سورۃ براۃ کی آیت (9:113) ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی۔
    یہ ناممکنات میں سے ہے۔
    سورۃ براۃ بالاتفاق جناب ابو طالب کی وفات کے کئی سالوں بعد مدینے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اسکی گواہی ہر قرآنی تفسیر میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری کی ہی دوسری روایت ہے:۔
    البراء کہتے ہیں: آخری سورۃ جو نازل ہوا، وہ سورۃ براۃ تھی۔
    حوالہ: صحیح بخاری، کتاب التفسیر
    جتنی قرآنی تفاسیر ہیں، انہیں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو یہی نظر آئے گا کہ سورۃ براۃ جناب ابو طالب کی وفات کے دس گیارہ سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔
    چنانچہ سعید بن المسیب کی تدلیس شدہ روایت اس لحاظ سے بھی احمقانہ حد تک مضحکہ خیز ہے کہ رسول اللہ (ص) وفاتِ جناب ابو طالب کے دس گیارہ سال بعد تک مسلسل انکی مغفرت کی دعا کرتے رہے، اور صرف دس گیارہ سال کے بعد اللہ کو (معاذ اللہ) اسکی ممانعت کرنا یاد آیا۔
    لاحول واللہ قوۃ

    ReplyDelete
  39. سعید ابن مسیب کی متعارض روایت کے مقابلے میں دوسرے اہلسنت صحیح روایات کی گواہی
    نہ صرف یہ کہ سعید ابن مسیب کی اس روایت میں وقتِ نزول کے حوالے سے تضاد ہے، بلکہ دیگر اہلسنت صحیح روایات بھی اسکے خلاف گواہی دے رہی ہیں۔
    پہلی روایت: علی ابن ابی طالب کی گواہی یہ آیت ابو طالب کے لیے نازل نہیں ہوئی
    امام اہلسنت جلال الدین سیوطی تفسیر در منثور میں آیت 9:113 کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
    امام طیالسی، ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، نسائی، ابو یعلی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، اور امام حاکم اور انہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، ابن مردویہ، بیہقی نے شعب الایمان (باب فی مباعدۃ الکفار و المفسدین) میں اور ضیاء نے المختارہ میں حضرت علی ابن ابی طالب کا یہ قول بیان کیا ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنے والدین کے لیے استغفار کر رہا تھا حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے۔ تو میں نے کہا: کیا تو اپنے والدین کے لیے استغفار کر رہا ہے حالانکہ وہ دونوں مشرک ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: کیا حضرت ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) کے لیے استغفار نہیں کی تھی؟ سو میں نے اسکا ذکر حضور نبی (ص) سے کیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔
    امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
    امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
    اس روایت کے متعلق امام اہلسنت سید زینی دحلان لکھتے ہیں:۔
    یہ حدیث صحیح ہے اور اسکے ثبوت میں ہمارے پاس ابن عباس کی ایک روایت موجود ہے جس کا مضمون یہ ہے:”لوگ اپنے باپ دادا کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تھے۔ حتی کہ سورہ توبہ کی زیر بحث آیت 113 نازل ہوئی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اپنے مشرک مردگان کے لیے استغفار کرنا ترک کر دیا لیکن اپنے زندہ مشرک عزیزوں کے لیے انکی زندگی تک استغفار کرنا نہ چھوڑا۔ تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:۔"اور ابراہیم کا اپنے چچا (آذر) کے لیے معافی کی دعا مانگنا ۔۔۔۔"
    یعنی جب تک ابراہیم کے چچا (آذر) زندہ رہا، وہ اسکے لیے استغفار کرتے رہے، لیکن اس کے فوت ہو جانے کے بعد انہوں نے یہ عمل ترک کر دیا اور۔۔۔۔"
    یہ ایک سچی گواہی ہے اور جب یہ سابق الذکر روایت کی تائید کر رہی ہے تو پھر اس کی صحت یقینی ہو جائے گی اور اس پر لازما عمل کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس پہلی روایت کا واضح مطلب یہ ہے کہ آیت استغفار جس پر بحث ہو رہی ہے، وہ ابو طالب کے بارے میں نہیں بلکہ عام لوگوں کو اپنے مشرک اجداد کے لیے استغفار کی ممانعت کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔
    اور امام جلال الدین سیوطی تفسیر در منثور میں آیت 9:113 کے تحت پہلے عطیہ عوفی سے ابن عباس کی ایک روایت لاتے ہیں، اور پھر خود اسکا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی یہ والی روایت صحیح ترین ہے جبکہ عطیہ عوفی والی ضعیف ہے۔ مکمل تحریر یوں ہے:
    تفسیر در منثور، تفسیر آیت 9:113، علامہ جلال الدین سیوطی:
    امام ابن جریر نے عطیہ العوفی کی سند سے ذکر کیا ہے ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ رسول (ص) نے اپنے باپ (چچا) کی مغفرت کا ارادہ فرمایا تو اللہ نے اس سے منع کر دیا۔۔۔ میں (یعنی صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ یہ اثر ضعیف اور معلول ہے کیونکہ عطیہ ضعیف راوی ہے۔ اور یہ روایت علی بن ابی طلحہ عن ابی عباس والی سابقہ روایت کے خلاف ہے۔ وہ روایت اصح ہے اور علی بہت ثقہ راوی ہیں۔
    المسیب کی تدلیس شدہ روایت کے مقابلے میں علی ابن ابی طالب وفاتِ ابو طالب کے وقت موجود تھے، ہر بات کے چشم دید گواہ تھے، اور آپ اسکے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ یہ آیت کب اور کس شخص کے مشرک والدین کے لیے نازل ہوئی۔
    اب یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ سعید ابن مسیب کی اس تدلیس شدہ روایت کو تسلیم کریں، یا پھر علی ابن ابی طالب جیسے جلیل القدر صحابی کی گواہی کو تسلیم کریں جو کہ ہر دو موقعوں(یعنی وفات ابو طالب اور اس آیت کے دوسرے موقع پر نازل ہونے) کے چشم دید گواہ ہیں اور مدینۃ العلم ہیں۔ ساتھ میں ابن عباس بھی ہیں کہ جن کو اہلسنت “امام المفسرین” کا خطاب دیتے ہیں۔
    سعید ابن مسیب کی روایت میں مزید تضادات
    اوپر جو کچھ ہو چکا ہے، وہ کافی ہے کہ سعید ابن مسیب کی تدلیس شدہ روایت کے مقابلے میں علی ابن ابی طالب کی اصح روایت کو قبول کیا جائے۔ مگر ریکارڈ کے لیے بیان ہے کہ سعید ابن مسیب کی اس روایت میں مزید کئی تضادات اور سقم ہیں

    ReplyDelete
  40. مثلا:
    1۔ علی ابن ابی طالب سے ہی ایک جھوٹی روایت منسوب کر دی گئی کہ آیت 9:113 وفاتِ ابو طالب کے کچھ دن بعد نازل ہوئی۔
    یہ روایت الٹا جا کر مخالفین کے ہی گلے پڑ گئی کہ علی ابن ابی طالب کیسے ایک ہی آیت کے نزول کے دو وقت بیان کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ان میں سے صرف ایک درست ہے جبکہ دوسرا علی ابن ابی طالب پر گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔
    یہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جس کا ذکر امام اہلسنت جلال الدین سیوطی نے اوپر کیا ہے کہ ابن عباس سے اوپر علی ابن طلحہ والی روایت اصح طریقے سے آئی، انہی ابن عباس کے نام سے جھوٹی روایت گھڑ دی گئی کہ یہ روایت وفات ابو طالب کے وقت نازل ہوئی۔
    2۔ اس آیت 9:113 کے نزول کے متعلق فقط یہ دو زمانے ہی نہیں پائے جاتے، بلکہ اہلسنت کی حدیث کی کتب اور ابن کثیر اور تمام مفسرین نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے وفات کے سالہا سال بعد اُس وقت نازل ہوئی جب غزوہ تبوک سے واپسی پر رسول (ص) اپنی والدہ آمنہ کی قبر پر گئے۔
    امام حاکم، طبری، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے ابن مسعود کے طریقے سے جبکہ بریدہ، طبرانی، ابن مردویہ اور طبری نے عکرمہ کے طریقے سے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
    "جب رسول اکرم (ص) غزوہ تبوک سے واپس آئے تو آپ نے عمرہ ادا کیا اور پھر اپنی والدہ کی قبر پر گئے۔ تب آپ نے اللہ تعالی سے ان کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی اور یہ تمنا بھی کی کہ وہ آپ کو قیامت کے دن انکی شفاعت کرنے کی اجازت بھی دے۔ لیکن خدا تعالی آپ (ص) کی یہ دونوں دعائیں قبول نہ فرمائیں اور اس وقت آیت استغفار (سورۃ توبہ آیت 113) نازل ہوئی۔"
    یہ روایت بھی زمانہ نزول کے اعتبار سے سعید بن المسیب کی روایت کو جھٹلا رہی ہے۔ مگر مخالفین کو چونکہ جناب ابو طالب کو کافر ثابت کرنا ہے، اس لیے ان بقیہ روایات کو چھوڑ کر سعید ابن مسیب کی تدلیس شدہ روایت کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

    ReplyDelete
  41. 3۔ اس آیت کے نزول کے وقت کے متعلق فقط یہ تین مختلف روایات ہی نہیں، بلکہ علامہ عبداللہ خنیزی نے اپنی کتاب “ابو طالب، مومنِ قریش " میں یہ 18 اہلسنت روایات نقل کرتے ہیں اور پھر انکے متعلق یہ تبصرہ کرتے ہیں:
    اس آیت استغفار 9:113 کے متعلق یہ اٹھارہ عدد نزول کی داستانیں ہیں جن کو احادیث و روایات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہمیں نہ ان پر تنقید و تبصرہ کرنا ہے اور نہ ان کے متعلق کوئی فیصلہ دینا ہے، یہ بات ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ ہماری نظر میں یہ سب بے ربط و بے بنیاد ہیں۔ ہمارا مقصد تو فقط یہ واضح کرنا ہے کہ آیت کے نزول کے بارے میں کتنا شدید اختلاف اور کتنا عظیم تعارض ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ آیت کو اسکے مرکز سے ہٹانے کے لیے کتنے ہتھکندے روئے کار لائے گئے ہیں اور قرآن کو کس کس انداز سے برباد کیا گیا ہے۔
    4۔ امام اہلسنت علامہ زمخشری کو بھی ان تضادات کا احساس تھا اس لیے وہ تحریر فرماتے ہیں:
    اس آیت کا رسول (ص) کی والدہ کے متعلق نزول کا قول صحیح ہے کیونکہ ابو طالب کی وفات ہجرت سے قبل واقع ہو گئی تھی جبکہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ (حوالہ: تفسیر کشاف، تفسیر آیت 9:113۔۔۔۔ اور تفسیر بیضاوی)
    ہم تو اسکے قائل نہیں کہ یہ آیت رسول (ص) کی والدہ کے لیے نازل ہوئی ہو۔ مگر یہاں انکے قول کو نقل کر کے فقط ابن مسیب کی روایت میں ان تضادات کو دکھانا مقصود ہے کہ امام اہلسنت علامہ زمخشری بھی اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے کہ مدینہ میں نازل ہونے والے اس آخری سورے کی آیت کو پکڑ کر مکی زندگی میں فوت ہونے والے جنابِ ابو طالب پر زبردستی جڑ دیا جائے۔
    5۔ امام اہلسنت علامہ قسطلانی کہتے ہیں کہ:
    تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ رسول اکرم (ص) اپنی والدہ کی قبر پر آئے اور استغفار کرنا چاہا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔۔۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد نازل ہوئی ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل نہیں ہوئی ہے۔ (حوالہ: ارشاد الساری از قسطلانی، جلد 7، صفحہ 270)

    ReplyDelete
  42. 6۔امام اہلسنت اور مایہ ناز مفسر امام قرطبی اس آیت کے ذیل میں حسین ابن فضل کے قول کو درست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
    وقال الحسين بن الفضل: وهذا بعيد؛ لأن السورة من آخر ما نزل من القرآن، ومات أبو طالب في عنفوان الإسلام والنبيّ صلى الله عليه وسلم بمكة.
    ترجمہ:
    ... اور حسین بن فضل کہتے ہیں: اس آیت کا جناب ابو طالب کے بارے میں نازل ہونا ایک بعید بات ہے۔ کیونکہ یہ سورہ توبہ میں ہے جو قرآن مجید میں نازل ہونیوالے آخری سوروں میں سے ہے، جبکہ ابو طالب اسلام کے ابتدائی دور میں ہی فوت ہو گئے تھے اور اس وقت رسول اللہ (ص) ابھی مکہ میں ہی تھے۔
    ابن مسیب کی اس روایت پر مزید بہت ہی تفصیلی تنقید (جن میں تمام رواۃ پر بات کی گئی ہے اور ان کا ضعیف ہونا ثابت کیا گیا ہے) پڑھیے علامہ عبداللہ خنیزی کی کتاب “ابو طالب، مومنِ قریش" میں۔
    کیا آیت 9:113 رسول (ص) کی والدہ کے لیے نازل ہوئی (معاذ اللہ)
    بہتر ہے کہ ان مخالفین کے ایک اور تضاد کو واضح کر دیا جائے تاکہ لوگ گمراہی سے بچ سکیں۔
    ان مخالفین کا دعوی ہے کہ مکہ میں ابو طالب کی وفات کے وقت یہ آیت نازل ہوئی:
    (القرآن 9:113)نبی (ص) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ اہلِ جہنم ہیں۔
    تو سوال یہ ہے کہ رسول (ص) پھر کیوں اس آیت کے نزول کے سالہا سال بعد تبوک کے وقت اپنی مشرکہ والدہ (معاذ اللہ) کے لیے استغفار کی اجازت مانگ رہے ہیں؟ کیا یہ بات رسول (ص) کی شان کے لائق ہے؟
    ان مخالفین نے تو وہ توہینِ رسالت مچا رکھی ہے کہ رسول (ص) کو ایک عام مومن کی شان سے بھی گرا دیا ہے۔ اللہ صاف صاف فرما چکا ہے کہ نبی (ص) اور مومن کی یہ شان ہی نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں۔
    مزید طرہ یہ کہ استغفار کی ممانعت کے بعد بھی معاذ اللہ رسول (ص) باز نہیں آتے اور اپنی مشرکہ والدہ کے لیے شفاعت کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ لاحول واللہ قوۃ۔

    ReplyDelete
  43. اس موقع پر چند قرآنی آیات پیش خدمت ہیں جو سب کی سب تبوک کے واقعے سے پہلے کی ہیں:
    (سورۃ المجادلہ، آیت 22) جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے، اگرچہ کہ وہ انکے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ کیوں نہ ہوں۔ یہی وہ گروہ مومنین ہے جن کے دلوں میں خدا نے ایمان کو ثابت کر دیا ہے اور خاص اپنی روح سے انکی تائید کی ہے۔
    ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم، ابو نعیم، بیہقی، ابن کثیر، شوکانی اور آلوسی نے نقل کیا ہے:
    "بعض تفاسیر کے مطابق سورہ مجادلہ کی یہ آیت ہجرت کے دوسرے سال میں جنگ بدر کے دن نازل ہوئی تھی، جبکہ سیرت حلبیہ کے مطابق مؤرخین اور مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیت ہجرت کے تیسرے سال میں جنگ احد کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔"
    سورۃ النساء، آیت 144:
    "اے ایمان والو! مومنوں کی بجائے کافروں کو اپنا سرپرست اور دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا ایک صریح الزام قائم کر لو؟"
    یہ آیت سورہ نساء میں آئی ہے جو مکی سورۃ ہے۔ امام قرطبی کے مطابق سورہ نساء ہجرت کے ابتدائی سالوں میں مدینہ میں نازل ہوئی۔
    سورۃ المنافقون، آیت 6:
    (القرآن، سورۃ المنافقون، آیت 6) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ خدا انہیں ہرگز بخشنے والا نہیں۔"
    یہ آیت سورہ منافقون میں ہے اور اسکے حکم میں منافق اور کافر دونوں شامل ہیں۔ اور جیسا کہ سیرت رسول (ص) اور غزواتِ پیغمبر کی کتابوں کے مؤلفین میں مشہور ہے کہ یہ سورہ ہجرت کے چھٹے سال میں غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر نازل ہوا۔ یہی بات ابن کثیر نے بھی نقل کی ہے اور امام قرطبی نے بھی۔
    ایمان والوں کے لیے سبق پورا ہے کہ وہ دیکھ سکیں کہ گھڑی گئی ان بیہودہ روایتوں نے رسول اکرم (ص) کی وہ توہین کی ہے کہ جس پر ایمان والے ان بیہودہ باتوں پر فقط منہ پھیر کر لاحول پڑھتے ہوئے گذر جائیں۔

    ReplyDelete
  44. علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
    مسئلہ اسلامہ خلافیۃ ...... ثم انہ علی القول بعدم اسلامہ لا ینبغی سبہ والتکلم فیہ بفضول الکلام فان ذلک مما یأذی بہ العلویون بل لا یبعد ان یکون مما یتأذی بہ انبی علیہ الصلوٰۃ والسلام الذی نطقت الایہ بناء علی ھذا الروایات بحبہ ایاہ الاحتیاط لا یخفی علی ذی فہم۔ ع
    لا جل عین الف عین تکرم
    ترجمہ:۔ ’’حضرت ابو طالب‘‘ کے ایمان کا مسئلہ ہے اور جو لوگ آپ کے ایمان کے قائل نہیں انہیں بھی یہ مناسب نہیں کہ اپنی زبان پر کوئی ناروا جملہ لے کر آئیں ۔ کیونکہ اس سے حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد کو اذیت پہنچتی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دل مبارک بھی رنجدیدہ ہوتا ہو۔ ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ ایسے نازل مقامات پر احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

    ReplyDelete