Sunday, January 20, 2013

فضائل ومناقب حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالٰی عنہااورحضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ

فضائل ومناقب

مسئلہ۴ : بعض اردوکتابوں میں ہے کہ حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالٰی عنہا حیض ونفاس سے مبرامنزہ تھیں ، یہ سچ ہے یا نہیں؟

الجواب
یہ حدیث میں آیاہے :ان ابتنی فاطمۃ حوراء اٰدمیۃ لمیحض ولم تطمث۱؂بیشک میری صاحبزادی بتول زہرا انسانی شکل میں حوروں کی طرح حیض ونفاس سے پاک ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم

(۱؂کنزالعمال برمز خط عن ابن عباس حدیث ۳۴۲۲۶مؤسسۃ الرسالہ بیرو۱۰۹/۱۲)

مسئلہ۵ : از بنگلور جامع مسجد سید شاہ مرسلہ قاضی عبدالغفارصاحب مورخہ ۱۱جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ۔
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے "قدمی ھٰذہٖ علٰی رقبۃ کل ولی اللہ ۲؂"(میرایہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے ۔ت)فرمایا ہے ،

(۲؂بہجۃ الاسرارومعدن الانوارذکر تعظیم الاولیاء لہ الخ مصطفٰی البابی مصرص۱۸)

اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جن کی تفصیل قرآن واحادیث سے منصوص نہیں ایسے ماوراء متقدمین ومتاخرین سے ان کو فضیلت ہے ۔ اورحضرت شیخ احمد سرہندی کے آخر مکتوبات میں ہے کہ مجدد نائب مناب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے ہیں اصل منبع فیوض حضرت غوث الثقلین ہیں۱؂ ۔

(۱؂مکتوبات امام ربانی دفتر سوم مکتوب۱۲۳منشی نولکشورلکھنئو۲۴۷/۳)

پس اگر کوئی شخص یہ عقید ہ رکھے کہ حضرت غوث الاعظم ان سب اولیاء سے افضل اوران کے بعد خواجہ خواجگان بہاء الدین نقشبند قدس سرہٗ وحضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ سب کے سب حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نائب ہیں تو یہ عقیدہ بخیال صوفیہ جائز ہے یا جائز نہیں ؟

الجواب
عقیدہ وہ چیز ہے جس کا اعتقادومدار سنیت اوراس کا انکار بلکہ اس میں ترددگمراہی وضلالت، اس قسم کے امور ان مسائل سے نہیں ہوتے ، ہاں وہ مسلک جو ہمارے نزیدک محقق ہے اوربشہادت اولیاء وشہادت سیدناخضر علیہ الصلٰوۃ والسلام وبمرویات اکابر ائمہ کرام ثابت ہے یہ ہی ہے کہ باستثناء انکے جن کی افضلیت منصوص ہے جیسے جملہ صحابہ کرم وبعض اکابرتابعین عظما کہ

والذین اتبعوا احسان۲؂ (اورجو بھلائی کے ساتھ ان کےپیروہوئے ۔ ت)ہیں ،

(۲؂القرآن الکریم ۱۰۰/۹)

اوراپنے ان القاب سے ممتاز ہیں ولہذا اولیاء وصوفیہ ومشائخ ان الفاظ سے ان کی طرف ذہن نہیں جاتا اگرچہ وہ خود سرداران اولیاء ہیں ، وہ کہ ان الفاظ سے مفہوم ہوئے ہیں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں ہوں جیسے سائر اولیائے عشرہ کہ احیائے موتٰی فرماتے تھے ، خواہ حضور سے متقدم ہوں جیسےحضرت معروف کرخی وبایزید بسطامی وسید الطائفہ جنیدوابوبکرشبلی وابو سعید خراز،اگر چہ وہ خود حضورکے مشائخ ہیں،اورجو حضور کے بعد ہیں جیسے حضرت خواجہ غریب نواز سلطان الہند وحضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی وحضرت سیدنا بہاؤ الملۃ والدین نقشبند اوان اکابر کے خلفاء ومشائخ وغیرہم قدس اللہ اسرارھم وافاض علینا برکتھم وانوارھم (اللہ تعالٰی انکے اسرار کو مقدس بنائے اوران کی برکات وانوارہمیں عطافرمائے۔ت) حضورسرکارغوثیت مدار بلا استثنا ان سب سے اعلٰی واکمل وافضل ہیں، اورحضور کے بعد جتنے اکابر ہوئے اورتا زمانہ سیدنا امام مہدی ہوں گے کسی سلسلہ کے ہوں یا سلسلہ سے جدا افراد ہوں غوث،قطب ، امامین ، اوتاد اربعہ ،مبدلائے سبعہ،ابدال سبعین، نقبا،نجبا،ہردورہ کے عظماء ،کبرا سب حضورسے مستفیض اورحضور کے فیض سے کامل ومکمل ہیں ؂

یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پرتوآں ہرکجا مینگری انجمنے ساختہ اند

(اس گھرمیں ایک ہی چراغ ہے اس کی روشنی کےسے جہاں کہیں تودیکھے انجمن بنائے ہوئے ہیں۔ت) ؂

یہ چشی نقشبندی، سہروردی ہر اک تیری طرف آئل ہے یا غوث۱؂

(۱؂حدائق بخشش وصل سوم مکتبہ رضویہ کراچی ۱۰/۲)

ملائک کے بشر کے جن کے حلقے تیری ضوماہ ہر منزل ہے یا غوث
بخاراوعراق وچشت واجمیر تیری لوشمع ہر محفل ہے یاغوث۲؂

(۲؂حدائق بخشش وصل اول فضائل سرکارغوثیت رضی اللہ عنہ مکتبہ رضویہ کراچی۸/۲)

شجر سروسہی کس کے اُگائے تیرے معرفت پھول سہی کسی کا کھلایا تیرا
تو ہے نو شاہ براتی ہے یہ ساراگلزار لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہراتیرا
نہیں کس چاند کی منزل میں تیرا جلوۂ نور نہیں کس آئینہ کے گھر میں اجالاتیرا
مزرع چشت وبخاراوعراق واجمیر کون سی کشت پہ برسانہیں جھالاتیرا
کس گلستاں کو نہیں فصل بہاری سے نیاز کون سے سلسلہ میں فیض نہ آیاتیرا
راج کس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام باج کس نہر سے لیتانہیں دریاتیرا۳؂

(۳؂حدائق بخشش وصل سوم درحسن معافرت سرکارغوثیت رضی اللہ عنہ مکتبہ رضویہ کراچی ۷/۱)

یہ ضرورہے کہ ہر شخس اپنی سرکارکی بڑائی چاہتاہے مگرمن وتو زید وعمروکے چاہے کچھ نہیں ہوتا،چاہنا اس کا ہے جس کے ہاتھ میزان فضل ہے ،غلبۂ شوق اورچیزہے اورثبوت دلائل اور۔ ہم جو کہتے ہیں خود نہیں کہتے بلکہ اکابر کاارشاد ہے اجلۂ اعاظم کاجس پر اعتماد ہے ، ایک تو خود حضوروالا کاوہ فرمان واجب الاذعان کہ قدمی ھذہٖ علی رقبۃ کل ولی اللہ۴؂(میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے ۔ت)کہ حضور والا سے متواتر ہوا اور اکابراولیاء نے بحکم الہی اسے قبول کیا اور قدمِ اقدس اپنی گردنوں پرلیا،

(۴؂بہجۃ الاسرارومعدن الانوارذکر اخارالمشائخ عنہ بذٰلک مصطفٰی البابی مصرص۴)

نیز ارشاد اقدس :الانس لھم مشائخ والجن لھم مشائخ والملٰئکۃ لھم مشائخ وانا شیخ الکل لاتقیسونی باحد ولاتقیسواعلٰی احدًا۔رواہ الامام الاوحد ابوالحسن علی بن یوسف بن جریر اللخمی الشطنوفی نورالملۃ والدین ابوالحسن قدس سرہٗ فی بھجۃ الاسرارقال اخبرنا ابوعلی الحسن بن نجم الدین الحور انی قال اخبرنا الشیخ العارف ابو محمد علی بن ادریس الیعقوبی قال سمعت الشیخ عبدالقادر ۱؂ رضی اللہ تعالٰی عنہ فذکرہ۔آدمیوں کیلئے شیخ ہیں او رجن کیلئے شیخ ہیں اورفرشتوں کیلئے شیخ ہیں اورمیں ان سب کا شیخ ہوں، مجھے کسی پر نہ قیاس کر نہ کسی کو مجھ پر قیاس کرو(اس کو روایت کیا امام یکتا ابوالحسن علی بن یوسف بن حریر لخمی شطنوفی نورالملۃ والدین قدس سرہٗ نے بہجۃ الاسرارمیں ، انہوں نے کہا ہمیں خبر دی ابو علی حسن بن نجم الدین حورانی نے،انہوں نے کہاہمیں خبر دی شیخ عارف ابومحمد علی بن ادریس یعقوبی نے ، انہوں نے کہا مین نے شیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ کو فرماتے سنا (آگے وہی حدیث ذکر کی)۔ت)

(۱؂بہجۃ الاسرارومعدن انوارذکر کلمات اخبربہاعن نفسہ محدثابنعمۃ رب مصطفٰی البابی مصر ص۲۲،۲۳)

حضور کے زمانہ اقدس کے دو ولی جلیل حضرت سید ابوالسعودبن احمد بن ابی بکر حریمی وحضرت سیدی ابوعمر وعثمٰن الصریفینی قدس اللہ سرھمافرماتے ہیں :

واللہ مااظھراللہ تعالٰی ولایضھر الی الوجودمثل الشیخ محی الدین عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ رواہ ایضاًفی بھجۃ الاسرار۲؂۔

خدا کی قسم اللہ تعالٰی نے کوئی ولی ظاہر کیا نہ ظاہر کرے مثل شیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ کے ۔(اس کو بھی بہجۃ الاسرارمیں روایت کیاہے۔ت)

(۲؂بہجۃ الاسرارومعدن انوارذکر فصول من کلامہ مرصعابشئی من عجائب احوالہ الخ مصطفٰی البابی مصر ص۲۵)

جب حضرت سیدرفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ جوا ن ہوئے اورحج کو حاضرہوئے باتباع سرکار غوثیت انہوں نے بھی وہ اشعار عرض کئےاورسرکار کرم کے اس کرم سے مشر ف ہوئے ہوں، بہر حال اس پر وہ فقرۂ تراشیدہ کہ اس وقت حضور قطب العالمین غوث العارفین رضی اللہ تعالٰی عنہ نےحضرت رفیع رفاعی کے ہاتھ پر معاذ اللہ بیعت فرمائی کذب وافتراء خالص ودروغ بیفروغ ہے اوراللہ واحد قہارجھوٹ کو دشمن رکھتا ہے نہ کہ ایسا جھوٹ جس سے زمین آسمان ہل جائیں قل ھاتوابرھانکم ان کنتم صٰدقین ۱؂لاؤاپنی دلیل اگر سچے ہو،

(۱؂القرآن الکریم ۱۱۱/۲ )

فان لم یاتوابالشھداء فاولٰئک عند اللہ ھم الکٰذبون ۲؂پھر جب وہ گواہان عادل نہ لاسکے تو جو ایسا دعوٰی کریں اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں ،

(۲؂القرآن الکریم ۱۳/۲۴)

وقد خاب من افتری۳؂خاب وخاسراہوا جس نے افتراء باندھا۔

(۳؂القرآن الکریم ۶۱/۲۰)

حضرت رفیع ورفاعی کی قطبیت سے کسے انکار ہے ، حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وصال اقدس کے بعد حضرت سیدی علی بن ہیتی رضی اللہ تعالٰی عنہ قطب ہوئے ،اورسرکار غوثیت کی عطا سے حضرت خلیل صرصری اپنی موت سے سات دن پہلے مرتبۂ قطبیت پر فائز ہوئے۔ حضرت علی بن ہیتی کا وصال وصال اقدس سرکار غوثیت سے تین سال بعد ۵۶۴ھ میں ہے، پھر حضرت سید رفاعی قطب ہوئےاور۵۷۸ھ میں وصال ہوا۔
بہجہ مبارکہ میں ہے :الشیخ علی بن الھیتی رضی اللہ تعالٰی عنہ احد من تذکر عنہ القطبیۃ ، سکن بلدۃ من اعمال نھر الملک الٰی ان مات بھاسنۃ اربع وستین وخمسمائۃ ۱؂۔جنکی قطیبت کا ذکر کیا جاتاہے ان میں سے ایک شیخ علی بن ہیتی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جو نہر الملک کے ایک قریہ میں سکونت پذیرہوئے یہاں تک کہ اسی قریہ میں ۵۶۴ھ میں وصال فرمایا۔(ت)

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر الشیخ علی بن الہیتمی دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۲۸۹تا۲۹۴)

اسی میں ہے :الشیخ احمد بن ابی الحسن الرفاعی احد من تذکر عنہ القطبیۃ، سکن بام عبیدۃ قریۃ بارض البطائح الی ان مات بھا فی سنۃ ثمان وسبعین وخمسمائۃ وقدنا ھذا الثمانین۲؂۔جن کی قطبیت کا ذکر کیا جاتاہے ان میں سے ایک شیخ احمد بن ابوالحسن رفاعی ہیں جو سرزمین طبائح کے قریبہ ام عبیدہ میں ساکن تھے اوروہان ہی ۵۷۸ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ نے اسی برس کے قریب عمر پائی۔(ت)

(۲؂بہجۃ الاسرارذکر الشیخ احمد بن ابی الحسن الرفاعی مصطفٰی البابی مصر۲۳۵تا۲۳۷)

اسی میں ہے حضرت شیخ جاگیر مرید جلیل تاج العارفین ابوالوفاء نے حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رفعت شان وبے مثلی بیان کر کے فرمایا : منہ انتقلت القطبیۃ الی سیدی علی الھیتمی رضی اللہ تعالٰی عنہ۳؂ ۔ان سے قطبیت میرے سردارشیخ علی بن ہیتی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طر ف منتقل ہوئی۔(ت)

(۳؂بہجۃ الاسرارذکر الشیخ جاکیر رضی اللہ عنہ مصطفٰی البابی مصر ص۱۶۹)

اسی میں ہے :اخبرنا الشیخ الشریف ابوجعفرمحمد بن ابی القاسم العلوی الحسنی قال اخبرنا الشیخ العارف ابوالخیر محمد بن محفوظ قال کنت انا (وفلان وفلان عدعشرۃ انفس من طالبی الاٰخرۃ وثلٰثۃ من اھل الدنیا)حاضرین عند شیخنا الشیخ محی الدین عبدالقادر الجیلی رضی اللہ تعالٰی عنہ فقال لیطلب کل منکم حاجۃ اعطیہالہ (فذکر حوائجھم منھا )قال الشیخ خلیل بن الصرصری اریدان الاموت حتی انال مقام القطبیۃ قال فقال الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ "کل نمداھٰؤلاء وھٰؤلاء من عطاء ربک وما کان عطاء ربک کان محظورا۔"قال فواللہ لقد نالواکلہم ماطلبوا۱؂۔

ہمیں شیخ شریف ابو جعفر محمد بن ابوالقاسم علوی حسنی نے بحوالہ شیخ ابوالخیر خبردی کہ ایک روز عارف باللہ محمد بن محفوظ اوردس حضرات اورطالبان آخرت اورتین شخص طالبان وزارت وغیرہا مناصب دنیا حاضر بارگاہ عالم پناہ سرکارغوثیت تھے حضور نے ارشادفرمایا ہر ایک اپنی حاجت عرض کرے میں اسے عطافرماؤں ، سب نے اپنی اپنی دینی ودنیوی مرادیں عرض کیں ، ان میں شیخ خلیل صرصری کی عرض یہ تھی کہ میں اپنی زندگی میں مرتبۂ قطبیت پاؤں۔حضور نے فرمایا "ہم ان کی اورانکی سب کی مدد کرتے ہیں رب کی عطاسے اورتیرے رب کی عطا پر روک نہیں ۔"عارف موصوف فرماتے ہیں خدا کی قسم جس نے جو مانگا تھا پایا۔

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر فصلو منکالمہ مرصعابشئی من عجائب اھوالہٖ مختصراً مصطفٰی البابی مصر۳۰و۳۱)

اسی میں حضرت سید ابو عمروعثمٰن بن یوسف وحضرت علی بن سلیمٰن خباز وحضرت ابو الغیث ابن جمیل یمنی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے کہ ان سب نے فرمایا :قطب الشیخ خلیل الصرصری رحمہ اللہ تعالٰی قبل موتہ بسبعۃ ایام۲؂۔حضرت خلیل صرصری اپنی موت سے سات دن پہلے قطب کئے گئے۔

(۲؂بہجۃ الاسرارذکر فصول من کالمہ مرصعابشئی من عجائب اھوالہٖ مختصراً مصطفٰی البابی مصر۳۲)

یہ قطبیت بمعنی غوثیت ہے اوراقطاب اصحاب خدمت کو بھی کہتے ہیں جو ہر شہر وہر لشکر میں ہیں شک نہیں کہ ہر غوث اپنے دورہ میں ان سب اقطاب کا افسر وسرور ہے کہ وہ تمام اولیائے دورہ کا سردار ہوتاہے تو اس معنٰی پر ہر قط یعنی غوث قطب الاقطاب ہے بلکہ غوث کے نیچے جو عہد ہ داران تمام اصحاب خدمت کا افسر ہوبایں معنی قطب الاقطاب ہے، مگر قطب الاقطاب بمعنی اول یعنی غوث الاغواث کہ دوروں کے غوثوں کا غوث ہو، غوثوں کو غوثیت اس کی عطا سے ملیت ہو اورغوث اپنے اپنے دورے میں اس کی نیابت سے غوثیت کر تے ہوں وہ سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد حضور پر نور محی الشریعۃ والطریقۃ والحقیقۃ والدین ابومحمد ولی الاولیاء ، امام الافراد ،غوث الاغواث، غوث الثقلین ،غوث الکل ،غوث اعظم سید شیخ عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور تاظہور سیدنا امام مہدی رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ مرتبہ عظمٰی اسی سرکارغوثیت بار کےلئے رہے گا۔ حضرت رفاعی اور ان کے امثال قبل وبعد کے قطبوں کو حضور پر تفضیل دینی ہوس باطل ونقصان دینی ہے ، والعیاذباللہ تعالٰی۔ اس کے بیان کو ہم چند احادیث مرفوعۃ الاسانید امام اجل اوحدسیدی نورالملۃ والدین ابوالحسن علی شطنوفی قدس سرہٗ الشریف کی کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار معدن الانوارسے ذکر کرتے یہں اوراس سے پہلے اتنا واضح کردیں کہ یہ امام جلیل صرف دو واسطہ سے حضور سرکارغوثیت کے مستفیضین بارگاہ میں ہیں ان کو محدث جلیل القدر ابوبکر محمد ابن امام حافظ تقی الدین انماطی سے تلمذ ہے ان کو امام اجل شہیر علامہ موفق الدین ابن قدامہ مقدسی سے ان کو حضور قطب الاقطاب غوث الاغواث غوث الثقلین غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، نیز ان کو امام قاضی القجاۃ محدم ابن امام ابراہم بن عبدالواحد مقدسی سے ان کو امام ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن منصور نقیب السادات سے ان کو حضور سید السادات سے ، نیز ان کو شیخ جنید ابو محمد حسن بن علی لخمی سے ان کو ابو العباس احمد بن علی دمشقی سے ان کو سرکارغوثیت سے ، نیز ان کو امام صفی الدین خلیل بن ابی بکر مراعی وامام عبدالواحد بن علی بن احمد قرشی سے ان دونوں کو امام اجل بو نصر موسٰی سے ان کو اپنے والد ماجد حضور سید نا غوث اعظم سے،رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین، اوان کے سوا اوربہت طرق سے ان امام جلیل کی سند حضور تک ثنائی یعنی صرف دو واسطہ سے ہے ، ۷۱۳ھ میں ان کاوصال شریف ہے ،اکابراجلاء نے انہیں امام مانا یہاں تک کہ امام فن رجال شمس ذہبی نے بآنکہ اولاً ان کی نگاہ دربارۂ رجال کس درجہ بلندودشوار پسند واقع ہوئی ہے۔
ثانیاً انہیں حضرات صوفیہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اورانکےعلوم الہٰیہ سے بہت کم عقیدت بلکہ تقریباً بلاکلیہ مجانبت ہے۔
ثالثاً اشاعرہ کےساتھ انکا برتاؤمعلوم ہے خود انکے تلمیذ اجل امام تاج الدین سبکی ابن امام اجل برکۃ الانام تقی الملۃ والدین علی بن عبدالکافی قدس رہما نے تصریح فرمائی کہشیخنا الذھبی اذا مر باشعری لایبقی ولا یذرا؂(۱؂)ہمارے استاذذہبی جب کسی اشعری پرگزرتے ہیں تولگی نہیں رکھتےکچھ باقی نہیں چھوڑتے۔ اورامام اجل صاحب بہجہ اشعری ہی ہیں۔

رابعًامعاصرت دلیل منافرت ہے اورذہبی ان امام جلیل کے زمانے میں تھے انکی مجلس مبارک میں حاضر ہوئے ہیں باینہمہ انکے مداح ہوئے اوراپنی کتاب طبقات المقرئین میں ان کو الامام الاوحد کےلفظ سے یاد فرمایایعنی امام یکتا، امام الشان ذہبی کے یہ دولفظ تمام مدائح ومدارج توثیق وتعدیل واعتماد وتعویل کو جامع ہیں فرماتے ہیں :علی بن یوسف بن جریراللخمی الشطنوفی الامام الاوحد المقری نور الدین شیخ القراء بالدیار المصریۃ ابوالحسن اصلہ من الشام ومولدہ بالقاھرۃ سنۃ اربع واربعین وسستمائۃ وتصدرللاقراء والتدیس بالجامع الازھر وقدر حضرت مجلس اقرائہ واستانست بسمتہ وسکوتہ۱؂۔علی بن یوسف بن جریرلخمی شطنوفی امام یکتا صاحب تعلیم فرقان حمید تمام بلاد مصر میں شیخ القراء ابوالحسن کنیت انکی اصل شام سے اورولادت قاہرہ میں ۶۴۴ھ چھ سوچوالیس میں پیداہوئے اورجامع ازہر میں درس وتعلیم کی صدارت فرمائی مین انکی مجلس درس میں حاضر ہوا اورانکی روش وخاموشی سے انس پایا۔

(۱؂طبقات المقرئین)

امام جلیل عبداللہ بن سعد یافعی قدس سرہ الشریف مرأۃ الجنان میں فرماتے ہیں :اما کرامتہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فخارجۃ عن الحصر وقد ذکرت شیئا منھا فی کتاب نشر المحاسن وقد اخبرنی من ادرکت من اعلام الائمۃ الاکابر ان کرامتہ تواترت وقریب منالتواتر ومعلوم بلااتفاق انہ لم یظھر ظہور کراماتہ لغیرہ من شیوخ الآفاق ، وھا انا اتصر فی ھٰذا الکتاب علی واحدۃ منھا وھی ماروی الشیخ الامام الفقیہ العالم المقری ابوالحسن علی بن یوسف بن جریربن معضاد الشافعی اللخمی فی مناقب الشیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ بسندہ من خمس طرق وعن جماعۃ من الشیوخ الجلۃ اعلام الھدی العارفین المقنتین للاقتداء قالوا جاء ت امرأۃ بولدھا الحدیث۔

یعنی حضور پرنورسید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کرامات شمار سے زیادہ ہیں انہیں سے کچھ ہم نے اپنی کتاب نشر المحاسن میں ذکر کیں اورجتنے مشاہیر اکابر اماموں کے وقت میں نے پائے سب نے مجھے یہی خبر دی کہ سرکار غوثیت کی کرامات متواتر یا قریب تواتر ہیں اوربالاتفاق ثابت ہے کہ تمام جہان کے اولیاء میں کسی سے ایسی کرامتیں ظاہر نہ ہوئیں جیسی حضور پرنورسے ظہور میں آئیں اس کتاب میں ان میں سے صرف ایک ذکر کرتاہوں وہ جسے روایت کیا شیخ امام فقیہ العالم مقری ابوالحسن علی بن یوسف بن جریری بن معضاد شافعی لخمی نےمناقب حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ (کتاب مستطاب بہجۃ الاسرارشریف)میں اپنی پانچ سندوں سے اورعظیم اولیاء ہدایت کے نشانوں عارفین باللہ کی ایک جماعت(یعنی سید عمران کمیمانی وسیدی عمر زار وسیدی ابوالسعود) مدلل وسیدی ابوالعباس احمد صرصری وامام اجل سیدنا تاج الملۃ والدین ابو بکر عبدالرزاق وسیدی امام ابوعبداللہ محمد بن ابی المعالی بن قائداوانی رضی اللہ تعالٰی عنہم)وقدخرجت عن حقی فیہ للہ عزوجل ولک

سے کہ ایک بی بی اپنا بیٹا خدمت اقدس سرکارغوثیت میں چھوڑگئیں کہ اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے میں اللہ کے لئے اورحضورکےلئے اس پراپنے حقوق سے درگزری ، حضور نے اسے قبول فرما کر مجاہد ے پر لگادیا ایک روز اس کی ماں آئیں دیکھالڑکا بھوک اورشب بیداری سے بہت زار نزار زرد رنگ ہوگیا ہے اوراسے جَوکی روٹی کھاتے دیکھا،جب بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں دیکھاحضورکے سامنےایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے حضور نے تناول فرمایا ہے ، عرض کی اے میرے مولی!حضور تو مرغ کھائیں اورمیرا بچہ جَو کی روٹی ۔ یہ سن کرحضور پرنور نےاپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا :قومی باذن اللہ تعالٰی الذی یحیی العظامجی اٹھ اللہ کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو جِلائے گا۔
یہ فرمانا تھا کہ مرغی فورازندہ صحیح سالم کھڑی ہوکر آواز کرنے لگی ،حضور اقدس نے فرمایا: جب تیرابیٹا ایساہوجائے وہ جوچاہے کھائے۱؂۔

(۱؂مرأۃ الجنان سنۃ احدی وستین وخمس مائۃ ذکر نسبہ ومولدہ الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت۲۶۸/۳)

اورانہیں سب ائمۂ عارفین نے فرمایاکہ ایک بارحضور کی مجلس وعظ پر ایک چیل چِلّاتی ہوئی گزری اس کی آواز سے حاضرین کے دل مشوّش ہوئے حضور نے ہوا کو حکم دیا: اس چیل کا سر لے ۔ فورًاچیل ایک طرف گری اوراس کا سر دوسری طرف۔ پھر حضور نے کرسی وعظ سے اترکر اس چیل کواٹھا کر اس پر دست اقدس پھیرا اوربسم اللہ الرحمن الرحیم کہا فورًا وہ چیل زند ہ ہوکر سب کے سامنے اڑتی چلی گئی۲؂۔عقادراقدرت توداری ہرچہ خواہی آں کنی مردہ راجانے دہی وزندہ رابے جاں کنی (اے قادر!تو قدرت رکھتاہے جوچاہتاہے وہی کرتاہے ، مردہ کو توجان دیتاہے اورزندہ کو بے جان کرتاہے۔ت)

(۲؂بہجۃ الاسرارفصول من کلامہ مرصعابشئی من عجائب احوالہ مختصرًامصطفی البابی مصرص۶۵)

امام محدث شیخ القراء شمس الملۃ والدین ابوالخیرمحمد محمد محمد ابن الجزری رحمہ اللہ تعالٰی کتاب نہایۃ الدرایات فی اسماء رجال القراء ات میں فرماتے ہیں :علی بن یوسف بن جریرفضل بن معضاد نورالدین ابوالحسن اللخمی الشطنوفی الشافعی الستاذالمحقق البارع شیخ الدیار المصریۃ ولدبالقاھرۃ سنۃ اربع واربعین وستمائۃ وتصدرللاقراء بالجماع الازھر وتکاثر علیہ الناس الاجل الفوائدوالتحقیق وبلغنی انہ عمل علی الشاطبیۃ شرحاًفلو کان ظھر لکام اجود شروحہا ولہ تعالیق مفیدۃ،قال الذھبی وکان ذاعزام بالشیخ عبدالقادر الجیلی رضی اللہ تعالٰی عنہ جمع اخبارہ ومنا قبہ فی ثلاث مجلدات، قلت وھذا الکتاب موجود بالقاھرۃ بوقف الخانقاہ الصلاحیۃ واخبرنی بہ واجازہ شیخنا الحافظ محی الدین عبدالقادرالحنفی وغیرہ توفی یوم السبت اوان الظھر ودفن یوم الاحدالعشرین من ذی الحجۃ سنۃ ثلاث عشرۃ وسبعمائۃ رحمہ اللہ تعالٰی۱؂۔یعنی علی بن یوسف بن جریربن فضل بن معضاد نورالدین ابوالحسن لخمی شطنوفی شافعی استاد محقق بارع یعنی ایسے جلیل فضائل والے کہ انہیں دیکھ کر آدمی حیرت میں رہ جائے ۔ تمام بلادمصر یہ کے شیخ ۶۴۴ھ میں قاہرہ میں پیداہوئے اورجامع ازہر میں مسند درس پرجلوس فرمایا اور ان کے فوائدوتحقیق کے باعث لوگوں کا پرہجوم ہوا اورمجھے خبر پہنچی ہے کہ شاطبیہ مبارکہ پر انکی شرح ہے اگریہ شرح ملتی تو اس کی سب شرحوں سے بہترین شروح میں ہوتی۔ ان کے حواشی فائدہ بخش ہیں۔ذہبی نے کہا ان کو سرکار غوثیت سے عشق تھا ۔ حضور کے حالات وکمالات تین مجلد میں جمع کئے ہیں۔میں شمس جزری کہتاہوں کہ یہ کتاب قاھرہ میں خانقاہ حضرت صلاح الدین اناراللہ لہ برہانہٗ کے وقف میں موجود ہے ۔ہمارے استاذ حافظ الحدیث محی الدین عبدالقادری حنفی وغیرہ استاذوں نے ہمیں اس کتاب کی روایات کی خبر ومضامین کی اجازت دی۔ حضر ت مصنف کتاب ممدوح کا روز شنبہ وقت ظہر وصال ہوا اور روزیکشنبہ ذی الحجہ ۷۱۳ھ کو دفن ہوئے رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

(۱؂نہایۃ الرایات فی اسماء رجال القراء ات)

امام عمر بن عبدالوہات عرضی حلبی نے اپنے نسخہ میں کتاب مبارکہ بہجۃ الاسرار شریف میں لکھا :قد تتبعتھا فلم اجد فیھا نقلا الاولہ فیہ متابعون وغالب ما اوردہ فیھا نقلہ الیافعی فی اسنی المفاخر وفی نشرالمحاسن وروض الریاحین(عہ) وشمس الدین الزکی الحلبی ایضا فی کتاب الاشراف و اعظم شیئ نقل عنہ انہ احیی الموتی کاحیائہ الدجاجۃ ولعمری ان ھذہ القصہ نقلھا تاج الدین السبکی ونقل ایضا عن ابن الرفاعی وغیرہ وانّٰی لغبی جاھل حاسد ضیع عمرہ فی فھم ما فی السطور وقنع بذٰلک عن تزکیۃ النفس واقبالھا علی اللہ سبحٰنہ وتعالٰی وان یفھم ما یعطی اللہ سبحٰنہ وتعالٰی اولیاء ہ من التصریف فی الدنیا والاٰخرۃ ولھذا قال الجنید التصدیق بطریقتنا ولایۃ۱؂۔

یعنی بیشک میں نے اس کتاب بہجۃ الاسرارشریف کو اول تاآخر جانچا تو اس میں کوئی روایت ایسی نہ پائی جسے اورمتعدداصحاب نے روایت نہ کیا ہو اوراس کی اکثر روایتیں امام یافعی نے اسنی المفاخر ونشرالمحاسن وروض الریاحین میں نقل کیں۔ یوں ہی شمس الدین زکی حلبی نے کتاب الاشراف میں اورسب سے بڑی چیز جو بہجہ شریفہ میں نقل کی حضور کا مردے جلاناہے ۔ جیسے وہ مرغ زندہ فرمادیا، اورمجھے اپنی جان کی قسم یہ روایت امام تاج الدین سبکی نے بھی نقل کی،اور یہ کرامت ابن الرفاعی وغیرہ اولیاء سے بھی منقول ہوئی، اورکہاں یہ منصب کسی غبی جاہل حاسد کو جس نے اپنی عمر تحریر سطور کے سمجھنے میں کھوئی اورتزکیہ نفس وتوجہ الی اللہ چھوڑ کر اسی پر بس کی کہ اسے سمجھ سکے جو کچھ تصرفوں کی قدرت اللہ عزوجل نے اپنے محبوبوں کو دنیا وآخرت میں عطافرماتاہے ، اسی لئے سیدنا جنید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : ہمارے طریقے کا سچ ماننا بھی ولایت ہے ۔

عہ : یرید تکملتہ ۱۲منہ غفرلہ

(۱؂حاشیۃ امام عمر بن عبدالوہاب علی ابہجۃ الاسرار)

اقول : بحمداللہ یہ تصدیق ہے امام مصنف قدس سرہٗ کے اس ارشاد کی خطبہ بہجہ کریمہ میں فرمایا کہ :لخصتہ کتابا مفردامرفوع الاسانید معتمد افیھا علی الصحۃ دون الشذوذ۱؂۔یعنی میں نے اس کتاب یکتا کر کے مہذب ومنقح فرمایا اوراس کی سندیں منتہٰی تک پہنچائیں جن میں خاص اس صحت پر اعتماد کیا کہ شذوذسے منزہ ہو،یعنی خالص صحیح ومشہورروایات لیں جن میں نہ ضعیف ہے ، نہ غریب وشاذ۔والحمدللہ رب العالمین۔

امام خاتم الحفاظ جلال الملۃ والدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی حسن المحاضرہ فی اخبار مصر والقاہرہ میں فرماتے ہیں:علی بن یوسف بن جریراللخمی الشطنوفی الامام الاوحد نور الدین ابوالحسن شیخ القراء بالدیارالمصریۃ ولد بالقاھرۃ سنۃ اربع اربعین وستمائۃ وتصدر للاقراء بالجامع الازھر وتکاثرعلیہ الطلبۃ مات فی ذی الحجۃ سنۃ ثلاث عشروسبعمائۃ ۲؂۔علی بن یوسف بن جریرلخمی شطنوفی امام یکتانورالدین ابوالحسن دیارمصرمیں شیخ القراء قاہرہ ہیں ۶۴۴ھ میں پیداہوئے ، اورجامع ازہر میں مسند تدریس پرجلوس فرمایا طلبہ کا ہجوم ہوا، ذی الحجہ ۷۱۳ھ میں انتقال فرمایا۔

(۲؂حسن المحاضرہ فی اخبارمصر والقاہرۃ)

شیخ محقق مولاناعبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ زبدۃ الآثارمیں فرماتے ہیں :بہجۃ الاسرارمن تصنیف الشیخ الامام الاجل الفقیہ العالم المقری الاوحد البارع نور الدین ابی الحسن علی بن یوسف الشافعی اللخمی وبینہ وبین الشیخ واسطتان۳؂۔

بہجۃ الاسرارتصنیف شیخ امام اجل فقیہ عالم مقری یکتا بارع نورالدین ابوالحسن علی بن یوسف شافعی لخمی ان میں اورحضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں دو واسطے ہیں۔

(۳؂زبدۃ الآثارمقدمۃ الکتاب بکسنگ کمپنی واقع جزیرہ ص۵)

نیز اپنے رسالہ صلاۃ الاسرار میں فرماتے ہیں :کتاب عزیز بہجۃ الاسرارومعدن الانوار معتبر ومقررومشہور ومذکورست ومصنف آں کتاب از مشاہیر مشائخ وعلماء ست ، میان وے وحضرت شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ دو واسطہ است ومقدم است برامام عبداللہ یافعی رحمۃ اللہ علیہ کہ ایشان نیز از منتسبان سلسلہ ومحبان جناب غوث الاعظم اند۱؂۔

کتاب عزیز "بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار"قابل اعتبار،پختہ اورمشہورومعروف ہے ۔ اس کتاب کے مصنف علیہ الرحمہ مشہور علماء ومشائخ میں سے ہیں۔آپ کے اورسر کارغوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے درمیان دوواسطے ہیں، آپ امام عبداللہ یافعی علیہ الرحمہ پر مقدم ہیں۔ امام یافعی علیہ الرحمہ بھی سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سلسلہ عالیہ سے نسبت رکھنے والوں اورآپ سے محبت رکھنے والوں میں سے ہیں۔(ت)

(۱؂رسالہ صلوٰۃ الاسرار)

اسی میں ہے :ایں فقیر درمکہ معظمہ وددرخدمت شیخ اجل اکرم اعدل شیخ عبدالوہاب متقی کہ مرید امام ہمام حضرت شیخ علی متقی قدس اللہ سرہما بودند فرمودند بہجۃ الاسرارکتاب معتبرست، مانزیک ایں زمان مقابلہ کردہ ایم وعادت شریف چناں بودکہ اگرکتابے مفید ونافع باشد مقابلہ می کردند وتصحیح می نمودند دریں وقت کہ فقیر رسید بمقابلۂ بہجۃ الاسرارمشغول بودند۲؂۔یہ فقیر مکہ مکرمہ میں انتہائی جلالت ، کرم اورعدل کے مالک شیخ عبدالوہا ب متقی کی خدمت اقدس میں حاضرتھا جو امام ہمام حضرت شیخ علی متقی قدس اللہ سرہ کے مرید ہیں ، آپ نے ارشاد فرمایا کہ "بہجۃ الاسرار"ہمارے نزدیک معتبر کتاب ہے جس کا ہم نے حال ہی میں مقابلہ کیا ہے ۔ آپ کی عادت شریف یہ تھی کہ اگر کوئی کتاب فائدہ مند اورنفع بخش ہوتی تو اس کا مقابلہ کرتے اورتصحیح فرماتے تھے ،جس وقت یہ فقیر وہاں پہنچا توآپ بہجۃ الاسرارکے مقابلہ میں مصروف تھے۔(ت) (۲؂رسالہ صلوٰۃ الاسرار)
الحمدللہ ان عبارات ائمہ واکابر سے واضح ہوا کہ امام ابوالحسن علی نورالدین مصنف کتاب مستطاب بہجۃ الاسرارامام اجل امام یکتا محقق بارع فقیہ شیخ القراء منجملہ مشاہیر مشاءخ علماء ہیں،اوریہ کتاب مستطاب معتبر ومتعمد کہ اکابر ائمہ نے اس سے استناد کیااورکتب حدیث کی طرح اس کی اجازتیں دیں۔ کتب مناقب سرکارغوثیت میں باعتبارعلو اسانید اس کا وہ مرتبہ ہے جو کتب حدیث میں موطائے امام مالک کا۔اورکتب مناقب اولیاء میں باعتبارصحت اسانیداس کا وہ مرتبہ ہے جو کتب حدیث میں صحیح بخاری کا ،بلکہ صحاح میں بعض شاذ بھی ہوتی ہیں اور اس میں کوئی حدیث شاذبھی نہیں ،امام بخاری نے صرف صحت کا التزام کیا اوران امام جلیل نے صحت وعدم شذوذدونوں کا ، اوربشہادت علامہ عمر حلبی وہ التزام تام ہوا کہ اس کی ہر حدیث کے لئے متعددمتابع موجودہیں والحمدللہ رب العالمین ایسے امام اجل اوحد نےایسی کتاب جلیل معتمد میں جو احادیث صحیحہ اس باب میںروایت فرمائیں ہیں یہاں عدد مبارک قادریت سے تبرک کے لئے ان سے گیارہ حدیثیں ذکر کر کے باذنہٖ تعالٰی برکات دارین لیں وباللہ التوفیق۔

حدیث اول: قال رضی اللہ تعالٰی عنہ اخبرنا ابومحمدسالم بن علی الدمیاطی قال اخبرنا الاشیاخ الصلحاء قداۃ العراق الشیخ ابو طاھربن احمد الصرصری والشیخ ابوالحسن الخفاف البغدادی والشیخ ابو حفص عمر البریدی والشیخ ابوالقاسم عمر الدردانی والیشخ ابوالولید زید بن سعید والشیخ ابو عمر وعثمٰن بن سلیمٰن قالوا اخبرنا( الشیخان) ابوالفرج عبدالرحیم وابوالحسن علی ابنا اخت الشیخ القدوۃ احمد الرفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ ، قالا کنا عند شیخنا الشیخ احمد بن الرفاعی بزاویتہ بام عبیدۃ فمد عنقہ وقال علی رقبتی، فسئلناہ عن ذٰلک فقال قد قال الشیخ عبدالقادر الآن بغداد قدمی ھذہٖ علی رقبۃ کل ولی اللہ۱؂۔

مصنف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ ہم سے ابو محمد سالم بن علی دمیاطی نے حدیث بیان کی،کہا ہم کو چھ مشائخ کرام پیشوا یان عراق حضرت ابو طاہر صرصری وابوالحسن خفاف وابوحفص بریدی وابوالقاسم عمر و ابوالید زید وابوعمرو عثمان بن سلیمان نے خبردی ان سب نے فرمایا کہ ہم کو حضرت سید ی احمد رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دونوں بھانجوں حضرت ابوالفرج عبدالرحیم وابوالحسن علی نے خبردی کہ ہم اپنے شیخ حضرت رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ان کی خانقاہ مبارک میں میں ام عبیدہ میں ہے حاضر تھے حضرت رفاعی نے اپنی گردن مبارک بڑھائی اور فرمایا: علی رقبتی میر ی گردن پر۔ ہم نے ا س کا سبب پوچھا،فرمایا: اسی وقت حضرت شیخ عبدالقادرنے بغداد میں فرمایا ہے کہ میرا یہ پاؤں تمام اولیاء اللہ کی گردن پر۔

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر من حنارأاسہ من المشایخ عند ما قال ذلک الشیخ الخ مصطفی البابی مصر ص۱۳)

حدیث دوم : (قال قدس سرہ)اخبرنا الشریف الجلیل ابوعبداللہ محمد بن الخضربن عبداللہ بن یحیٰی بن محمد الحسینی الموصلی قال : اخبرنا ابوالفرج عبدالمحسن ویسمّٰی حسن ابن محمد بن احمد بن الدویرۃ المقری الحنبلی البصری قال: قال الشیخ ابوبکر عتیق بن ابی الفضل محمد بن عثمٰن بن ابی الفضل البند لجی الاصل البغدادی المولد والداروالازجی المعروف بمعتوق زرت الشیخ سید احمد بن ابی الحسن الرفاعی رضی اللہ عنہ بام عبیدۃ فسمعت اکابر اصحابہ وقدماء مریدیہ یقولون :کان الشیخ یوماًجالسًا فی ھذا الموضع ، فحنارأسہ وقال: علی رقبتی،فسألوہ عن ذٰلک فقال : قد قال الشیخ عبدالقادر الاٰن ببغداد : قدمی ھذہ علٰی رقبۃ کل ولی اللہ ، فارخنا ذٰلک الوقت فکان کما قال فی ذٰلک الوقت بعینہ۱؂۔

مصنف قدس سرہٗ نے کہا کہ ہم سے شریف جلیل ابو عبداللہ محمد بن خضر بن عبداللہ بن یحیٰی بن محمد حسینی موصلی نے حدیث بیان کی کہ ہم کو شیخ ابوالفرج عبدالمحسن حسن بن محد بن احمد بن دویرہ مقری حنبلی نے خبر دی کہ شیخ ابو بکر عتیق بن ابوالفضل محمد بن عثمٰن ابوالفضل بندلجی الاصل بغدادی المولدازجی المعروف بہ معتوق نے کہا کہ میں نے شیخ احمد بن ابوالحسن رفاعی رضی اللہ عنہ کی ام عبیدہ میں زیارت کی تو میں نے آپ کے اکابر اصحاب اورقدیم مریدوں کو کہتے ہوئے سنا کہ آج شیخ اس جگہ (برآمدے کی طرف انہوں نے اشارہ کیا) تشریف فرماتھے کہ اپنا سرجھکادیا اورفرمایا کہ میری گردن پر۔ جب آپ سے لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا و فرمایا کہ ابھی ابھی بغداد میں شیخ سید عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہے : میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے ۔ہم نے اس تاریخ کو محفوظ رکھا تو جیسا آپ نے کہا بعینہٖ وہ اسی وقت رونما ہوا تھا۔(ت)

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر من حنارأسہ من المشائخ عند ما قال ذٰلک الشیخ الخ مصطفٰی البابی مصر۱۳)

حدیث سوم: اخبرنا الشیخ الصالح ابوحفص عمر بن ابی المعالی نصر بن محمد ابن احمد القرشی الھا شمی الطفسونجی المولد والدارالشافعی قال : اخبرنا الشیخ الاصل الصالح ابوعبداللہ محمد بن ابی الشیخ الصالح ابی حفص عمر بن الشیخ القدوۃ ابی محمد عبدالرحمن الطفسونجی قال : اخبرنا ابوعمر قال : حنا ابی یومًاعنقہ بین اصحابہ بطفسونج وقال : علی رأسی ، فسألناہ فقال: قدقال الشیخ عبدالقادرالاٰن ببغداد: قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ ، فأرخناہ عندنا،ثم جاء الخبرمن بغداد انہ قال ذٰلک فی الیوم الذی أرخناہ۱؂۔

ہمیں شیخ صالح ابو حفص عمر بن ابوالمعالی نصر بن محمد بن احمد قرشی ہاشمی طفسونجی شافعی نے خبردی کہ ہم سے شیخ اصل صالح ابوعبداللہ محمد بن ابوالشیخ صالح ابو حفص عمربن شیخ قدوۃ ابومحمد عبدالرحمن طفسونجی نے حدیث بیان کی کہ ہم سے ابوعمرنے حدیث بیان کی کہ ایک دن طفسونج میں میرے والد نے اپنے مریدوں کے درمیان گردن جھکائی اورکہا کہ میرے سر پر ۔ ہمارے پوچھنے پر فرمایا کہ ابھی شیخ سید عبدالقادر علیہ الرحمۃ نے بغدادمیں فرمایا ہے کہ میرایہ پاؤں ہرولی اللہ کی گردن پر ہے ۔ہم نے اپنے پاس تاریخ نوٹ کرلی پھر بغدادسے خبر موصول ہوئی کہ شیخ عبدالقادرعلیہ الرحمۃ نے بالکل اسی دن یہ اعلان فرمایاتھا جو تاریخ ہم نے نوٹ کر رکھی تھی۔(ت)

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر من حنارأسہ من المشائخ عندماقال ذالک الشیخ الخ مصطفٰی البابی مصرص۱۳)

حدیث چہارم: اخبرنا الفقیہ ابوعلی اسحٰق بن علی بن عبداللہ بن عبدالدائم بن صالح الھمد انی الصوفی الشافعی المحدث قال : اخبرنا الشیخ الجلیل الاصل ابو محمد عبداللطیف ابن الشیخ ابی النجیب عبدالقاہر بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ السھروردی ثم البغدادی الفقیہ الشافعی الصوفی قال : حضرابی ابوالنجیب ببغدادبمجلس الشیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہما، فقال الشیخ عبدالقادرقدمی ھٰذہ علی رقبۃ کل ولی ا للہ، فطأفطأبی رأسہ حتی کادت تبلغ الارض،وقال علی رأسی علی رأسی علی رأسی یقولہا ثلاثا۲؂۔

ہم سے فقیہ ابوعلی اسحاق بن علی بن عبداللہ بن عبدالدائم بن صالح ہمدانی صوفی شافعی محدث نے حدیث بیان کی کہ ہم سے شیخ جلیل الاصل ابو محمد عبداللطیف بن شیخ ابونجیب عبدالقاہر بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ سہروردی ثم بغدادی فقیہ شافعی صوفی نے حدیث بیان کی کہ میرے والد ماجد ابو النجیب بغداد میں شیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس میں حاضر تھے شیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجلس میں فرمایا: میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے ۔ تو میرے والد نے اس حد تک سرجھکایاکہ وہ زمین کے قریب جاپہنچااورتین بارکہا: میرے سر پر ،میرے سرپر، میرے سرپر(عہ) (ت)

عہ: نوٹ: اعلٰی حضرت علیہ ا لرحمۃ نے تصریح فرمائی کہ یہاں ہم بہجۃ الاسرارسے گیارہ حدیثیں ذکرکرینگے مگر حدیث دوم ،سوم اورچہارم تین حدیثیں اصل(فتاوٰی رضویہ قدیم جلد۱۲) میں موجود نہیں ہیں بلکہ انکی جگہ بیاض چھوڑاہوا ہے ۔ حدیث دوم کی سند کا ابتدائی حصہ اصل میں مذکورہونے کی وجہ سے اس کی نشان دہی ہوگئی مگر حدیث سوم وچہارم کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون سی تھیں،تاہم احادیث مذکورہ کے مضمون کو دیکھتے ہوئے حدیث دوم کے متصل بعد والی دو حدیثیں ہم نے بہجۃ الاسرار سےنقل کردی ہیں جن کامضمون کافی حد تک احادیث مذکورہ سے یگانگت رکھتاہے ۔ اس طرح گیارہ احادیث پوری ہوگئیں۔ واللہ تعالٰی اعلم بحقیقۃ الحال۔(مترجم)

(۲؂بہجۃ الاسرارذکر من حنارأسہ من المشائخ عندماقال ذالک الشیخ الخ مصطفٰی البابی مصرص۱۳و۱۴)

حدیث پنجم: اخبرنا الفقیہ الجلیل ابوغالب رزق اللہ ابن ابی عبداللہ محمد بن یوسف الرقی قال اخبرنا الشیخ الصالح ابواسحٰق ابراھیم الرقی قال اخبرنا منصور قال اخبرنا القدوۃ الشیخ ابوعبداللہ محمد بن ماجد الرقی ح واخبرنا عالیا ابوالفتوح نصراللہ بن یوسف بن خلیل البغدادی المحدث قال اخبرنا الشیخ ابوالعباس احمد بن اسمٰعیل بن حمزۃ الازجی قال اخبرنا الشیخان ابوالمظفر منصوربن المبارک والامام ابو محمد عبداللہ بن ابی الحسن الاصبہانی قالو ا سمعنا السیدالشریف الشیخ القدوۃ ابا سعید القیلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ یقول لما قال الشیخ عبدالقاد قدمی ھذہٖ علی رقبۃ کل ولی اللہ تجلی الحق عزوجل علٰی قلبہ وجاء تہ خلعۃ من رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم علٰی یدطائفۃ من الملٰئکۃ المقربین والبسھا بمحضر من جمیع الاولیاء من تقدم منھم وما تاخر الاحیاء باجسادھم والاموات بارواحھم وکانت الملٰئکۃ ورجال الغیب حافین بمجلسہ واقفین فی الھوأصفوفاحتی استد الافق بھم ولم یبق ولی فی الارض الاحناعنقہ۱؂۔

مصنف قدس سرہٗ نے کہا کہ ہم سے فقیہ جلیل القدر رزق اللہ بن ابوعبداللہ محمد بن یوسف رقی نے حدیث بیان کی کہ ہم کو شیخ صالح ابواسحق ابراہیم رقی نے خبر دی کہ ہم کو شیخ امام ابوعبداللہ محمد بن ماجد رقی نے خبردی ۔ نیز ہمیں سند عالی سے ابوالفتح نصراللہ بن یوسف بن خلیل بغدادی محدث نے خبر دی کہ ہم کو شیخ اوالعباس احمد بن اسمٰعیل بن حمزہ ازجّی نے خبر دی کہ ہم کو شیخ ابوالمظفر منصور بن مبارک وامام ابو محمد عبداللہ بن ابی الحسن اصبہانی نے خبردی ان سب حضرات نے فرمایا کہ ہم نے سید شریف شیخ امام ابو سعید قیلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فرماتے سنا کہ جب حضرت شیخ عبدالقادر نے فرمایا کہ میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر۔ اس وقت اللہ عزوجل نے ا ن کے قلب مبارک پر تجلی فرمائی اورحضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ ملائکہ مقربین کےہاتھ انکے لیے خلعت بھیجی اورتمام اولیائے اولین وآخرین کا مجمع ہوا ، جو زندہ تھے وہ بدن کے ساتھ حاضر ہوئے اورجو انتقال فرماگئے تھے ان کی ارواح طیبہ آئیں ، ان سب کے سامنے وہ خلعت حضرت غوثیت کو پہنایا گیا ،ملائکہ اوررجال الغیب کا اس وقت ہجوم تھا ہوا میں پَرے باندھے کھڑے تھے ، تمام افق ان سے بھرگیا تھا اور روئے زمین پر کوئی ولی ایسا نہ تھا جس نے گردن نہ جھکادی ہو۔ (ت)

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر اخبارالمشائخ بالکشف عن ہیئۃ الحال حین قال ذٰلک مصطفٰی البابی مصرص۸و۹)

والحمدللہ رب العالمین۔ ؂

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالاتیرا اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا
سربھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلواتیرا۱؂
تاج فرق عرفا کس کے قدم کوکہئے سرجسے باج دیں وہ پاؤں ہے کس کاتیرا
گردنیں جھک گئیں سربچھ گئے دل ٹوٹ گئے کشف ساق آج کہاں یہ تو قدم تھا تیرا۲؂

(۱؂و ۲؂حدائق بخشش وصل دوم درمنقبت آقائے اکرم غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ مکتبہ رضویہ کراچی ص۴ و ۸)

حدیث ششم :(قال اعلٰی اللہ تعالٰی مقاماتہ) اخبرنا ابومحمد الحسن بن احمد بن محمدوخلف بن احمد بن محمد الحریمی قال اخبرنا جدی محمد بن دنف قال اخبرنا الشیخ ابوالقاسم بن ابی بکر بن احمد قال سمعت الشیخ خلیفۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ وکان کثیرا الرؤیالرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول رأیت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقلت لہ یارسول اللہ لقد قال الشیخ عبدالقادر قدمی ھٰذہ علٰی رقبۃ کل ولی اللہ ، فقال صدق الشیخ عبدالقادروکفی لاوھو القطب واناارعاہ۳؂۔

مصنف نے کہا(اللہ تعالٰی اس کے مرتبے بلند فرمائے)کہ ہم کو ابومحمد حسن بن احمد بن محمد اورخلف بن احمد بن محمد حریمی نے خبردی کہ ہم کو میرے جد محمد بن دنف نے خبر دی کہ ہم کو شیخ ابوالقاسم بن ابی بکر احمد نے خبردی کہ میں نے شیخ خلیفہ اکبر ملکی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا اوروہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دیدار مبارک سے بکثرت مشرف ہوا کرتے تھے فرمایا خدا کی قسم بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا عرض کی یارسول اللہ !شیخ عبدالقادرنے فرمایا کہ میرا پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:"عبدالقادرنے سچ کہا اورکیوں نہ ہوکہ وہی قطب ہیں اورمیں ان کا نگہبان۔"

(۳؂بہجۃ الاسرارذکر اخبارالمشائخ بالکشف عن ہیئۃ الحال حین قال ذٰلک مصطفٰی البابی مصرص۱۰)

کلب باب عالی عرض کرتا ہے الحمدللہ !اللہ نے ہمارے آقا کو اس کہنے کا حکم دیا ، کہتے وقت ان کے قلب مبارک پر تجلی فرمائی، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خلعت بھیجا ، تمام اولیاء اولین وآخرین جمع کئے گئے ، سب کے مواجہ میں پہنایا گیا۔ ملائکہ کا جمگھٹ ہوا ، رجال الغیب نے سلامی دی ۔ تمام جہان کے اولیاء نے گردنیں جھکادیں۔ اب جو چاہے راضی ہو، جو چاہے ناراض ۔ جو راضی ہواس کے لئے رضا، جو ناراض ہوا س کیلئے ناراضی۔ جس کا جی چلے اس سے کہوموتوابغیظکم ان اللہ علیم بذات الصدور۱؂۔مرجاؤاپنی جلن میں بے شک اللہ دلوں کی جانتاہے ۔وللہ الحجۃ البالغہ۔

حدیث ہفتم: (قال بیض اللہ تعالٰی وجہہ) اخبرنا الحسن بن نجیم الحور انی قال اخبرنا الشیخ العارف علی بن ادریس الیعقوبی قال سمعت الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ یقول الانس لھم مشائخ والملٰئکۃ لھم مشائخ وانا شیخ الکل، قال وسمعتہ فی مرض موتہ بقول لاولادہٖ بینی وبینکم وبین الخلق کلھم بعد مابین السماء والارض لاتقیسونی باحد ولا تقیسواعلیَّ احدا۲؂۔

مصنف نے کہا(اللہ تعالٰی اس کے چہرے کو روشن کرے )کہ ہم سے حسن بن نجیم حورانی نے حدیث بیان کی ، کہا ہم کو ولی جلیل حضرت علی بن ادریس یعقوبی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خبردی ، کہا میں نے حضرت سرکار غوثیت رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سنا کہ فرماتے تھے: آدمیوں کے لئے پیرہیں،قوم جن کے لئے پیرہیں، فرشتوں کے لئے پیرہیں،اورمیں سب کا پیرہوں،اورمیں نے حضور کو اس مرض مبارک میں جس میں وصال اقدس ہوا سناکہ اپنے شاہزادگان کرام سے فرماتے تھے : مجھ میں اورتم میں اورتمام مخلوقات زمانہ میں وہ فرق ہے جو آسمان وزمین میں ۔ مجھ سے کسی کو نسبت نہ دو اورمجھے کسی پر قیاس نہ کرو۔ اے ہمارے آقا! آپ نے سچ کہا ،خدا کی قسم!آپ صادق مصدوق ہیں۔(ت)

(۲؂بہجۃ الاسرارذکر کلمات اخبربہا عن نفسہ الخ مصطفٰی البابی مصرص۲۲و۲۳)

حدیث ہشتم: (قال طیب اللہ تعالٰی ثراہ ) اخبرنا ابوالمعالی صالح بن احمد المالکی قال اخبرنا الشیخ ابوالحسن البغدادی المعروف بالخفاف والشیخ ابومحمد عبداللطیف البغدادی المعروف بالمطرزقال ابوالحسن اخبرنا شیخنا الشیخ ابوالسعود احمد بن ابی بکر الحریمی سنۃ ثمانین وخمسائۃ وقال ابو محمد اخبرنا شیخنا عبدالغنی بن نقطۃ قال اخبرنا شیخناابوعمروعثمٰن الصریفینی قالا واللہ ما اظھراللہ تعالٰی ولا یظھرالی الوجود مثلالشیخ محی الدین عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ۱؂۔

مصنف (اللہ تعالٰی اس کی قبر کو خوشبوداربنائے) نے کہا کہ ہم کو ابوالمعالی صالح بن احمد مالکی نے خبر دی کہ ہم کو دو مشائخ کرام نے خبر دی، ایک شیخ ابوالحسن بغدادی معروف بہ خفاف ، دوسرے شیخ ابو محمد عبداللطیف بغدادی معروف بہ مطرز۔ اول نے کہا ہمارے پیرومرشد حضرت شیخ ابوالسعود احمد بن ابی بکر حریمی قدس سرہٗ نے ہمارے سامنے ۸۵۰ھ میں فرمایا ، اوردوم نے کہا ہم کو ہمارے مرشد حضرت عبدالغنی بن نقطہ نے خبر دی کہ ان کے سامنے ان کے مرشد حضرت شیخ ابوعمر وعثمان صریفینی قدس سرہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اللہ عزوجل نے اولیاء میں حضرت شیخ محی الدین عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ کا مثل نہ پیدا کیا نہ کبھی پیدا کرے ۔

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر فصول من کلامہ مرصعًابشیئ من عجائب احوالہ مختصرًامصطفی البابی مصرص۲۵)

ع بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین وحریم
کہ ہوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا۲؂

(۲؂حدائق بخشش فصل سوم درحسن مفاخرت از سرکار قادریت رضی اللہ عنہ مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی ص۶)

حدیث نہم: (قال رفع اللہ تعالٰی کتابہ فی علیین) اخبرنا الشیخ ابو المحاسن یوسف بن احمد البصری عقال سمعت الشیخ العالم اباطالب عبدالرحمٰن بن محمد الہاشمی الواسطی قال سمعت الشیخ القدوۃ جمال الدین ابا محمد بن عبدالبصری بھا یقول وقد سئل عن الخضر علیہ الصلوٰۃ والسلام أحی ھو ام میت قال اجتمعت بابی العباس الخضر علیہ الصلوٰۃ والسلام وقلت اخبرنی عن حال الشیخ عبدالقادرقال ھو فرد الاحباب وقطب الاولیاء فی ھذا الوقت وما واللہ تعالٰی ولیا الی مقام الاوکان الشیخ عبدالقادر اعلاہٗ ولا سقی اللہ حبیبًاکأسامن حبہ الا وکان للشیخ عبدالقادراھناہ ، ولا وھب اللہ لمقرب حالا الا وکان الشیخ عبدالقادر اجلہٗ ، وقد اودعہ اللہ تعالٰی سرامن اسرارہ سبق بہ جمہور الاولیاء وما اتخذاللہ ولیا کان اول یکون الا وھو متأدب معہ الٰی یوم القیٰمۃ ۱؂۔

مصنف(اللہ تعالٰی اس کے نامۂ اعمال کو علیین میں بلند کرے) نے کہاکہ ہم کو شیخ ابوالمحاسن یوسف بن احمد بصری نے خبر دی کہ میں نے شیخ ابوطالب عبدالرحمن بن محمد ہاشمی واسطی سے سنا کہتے تھے میں نے شیخ امام جمال الملۃ والدین حضرت ابو محمد بن عبدبصر ی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بصرہ میں سنا، ان سے سوال ہوا تھا کہ حضرت خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں یا انتقال ہوا ؟ فرمایا : میں حضرت خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملا اورعرض کی : مجھے حضرت شیخ عبدالقادر کے حال سے خبر دیجئے ۔ حضرت خضر نے فرمایا : وہ آج تمام محبوبوں میں یکتا اورتمام اولیاء کے قطب ہیں اللہ تعالٰی نے کسی ولی کوکسی مقام تک نہ پہنچایا جس سے اعلٰی مقام شیخ عبدالقادر کو نہ دیا ہو نہ کسی حبیب کو اپنا جام محبت پلایا جس سے خوشگوار ترشیخ عبدالقادر نے نہ پیا ہو ، نہ کسی مقرب کو کوئی حال بخشاکہ شیخ عبدالقادر اس سے بزرگ تر نہ ہوں۔ اللہ نے ان میں اپنا وہ راز ودیعت رکھاہے جس سے وہ جمہوراولیاء پر سبقت لے گئے ، اللہ نے جتنوں کو ولایت دی اورجتنوں کو قیامت تک دے سب شیخ عبدالقادر کے حضور ادب کئے ہوئے ہیں۔

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر الشیخ ابو محمد القاسم بن عبدالبصری مصطفٰی البابی مصر ص۱۷۳)

ع جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا۲؂

(۲؂حدائق بخشش وصل سوم درحسن مفاخرت سرکار قادریت رضی اللہ عنہ مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی ص۶)

حدیث دہم : قال) رفع اللہ تعالٰی درجاتہ فی الفردوس (اخبرنا الشریف ابوعبداللہ محمد بن الخضرالحسینی الموصلی،قال سمعت ابی یقول کنت یوما جالسابین یدی سیدی الشیخ محی الدین عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ فخطر فی قلبی زیارۃ الشیخ احمد رفاعی رضی اللہ عنہ فقال لی الشیخ احمد؟قلت نعم فاطرق یسیرًا،ثم قال لی یاخضرھا الشیخ احمد فاذا انا بجانبہ فرأیت شیخًامھابافقمت الیہ وسلمت علیہ ،فقال لی یاخضرو من یری مثل الشیخ عبدالقادر سید الاولیاء یتمنی رؤیۃ مثلی وھل انا الامن رعیتہ ثم غاب وبعدوفاۃ الشیخ انحدرت من بغداد الی ام عبیدۃ لازورہ ، فلما قدمت علیہ اذا ھو الشیخ الذی رأیتہ فی جانب الشیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ فی ذٰلک الوقت لم تجددرؤیتہ عندی زیادۃ معرفۃ بہ فقال لی یاخضر الم تکفک الاولٰی۱؂۔

مصنف نے کہا(اللہ تعالٰی جنت فردوس میں اس کے درجے بلند فرمائے )کہ ہم کو سید حسینی ابو عبداللہ محمد بن خضر موصلی نے خبر دی کہ میں نے اپنے والد ماجد کو فرماتے سنا کہ ایک روز میں حضرت سرکار غوثیت رضی اللہ تعالٰی عنہ کےحضور حاضر تھا میرے دل میں خطرہ آیا کہ شیخ احمد رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زیارت کروں ، حضورنے فرمایا : کیا شیخ احمد کو دیکھناچاہتے ہو؟میں نے عرض کی : ہاں ۔ حضور تھوڑی دیر سر مبارک جھکایا پھر مجھ سے فرمایا : اے خضر! لویہ ہیں شیخ احمد ۔ اب جو میں دیکھوں تو اپنے آپ کو حضرت احمد رفاعی کے پہلو میں پایااورمیں نے اُن کو دیکھا کہ رعب دار شخص ہیں میں کھڑا ہوا اورانہیں سلام کیا۔ اس پرحضرت رفاعی نے مجھ سے فرمایا : اے خضر! وہ جو شیخ عبداللہ کو دیکھے جو تمام اولیاء کے سردار ہیں وہ میرے دیکھنے کی تمنا میں تو انہیں کی رعیت میں سے ہوں۔یہ فرماکر میری نظر سے غائب ہوگئے پھر حضور سرکار غوثیت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وصال اقدس کے بعد بغداد شریف سے حضرت سید ی احمد رفاعی کی زیارت کو ام عبیدہ گیا انہیں دیکھا تو وہی شیخ تھے جن کو میں نے اس دن حضرت شیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں دیکھا تھا۔ اس وقت کے دیکھنے نے کوئی اورزیادہ ان کی شناخت مجھے نہ دی۔حضرت رفاعی نے فرمایا : اے خضر !کیا پہلی تمہیں کافی نہ تھی!

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر احمد بن ابی الحسن الرفاعی مصطفی البابی مصرص۲۳۸،۲۳۷)

حدیث یازدہم: (قال جمعنا اللہ تعالٰی وایاہ یوم الحشر تحت لواء الحضرۃ الغوثیۃ) اخبرنا ابوالقاسم محمد بن عبادۃ الانصاری الحلبی قال سمعت الشیخ العارف ابااسحٰق ابراھیم بن محمود البعلبکی المقری قال سمعت شیخنا الامام ابا عبداللہ محمد البطائحی ، قال انحدرت فی حیاۃ سید الشیخ محی الدین عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ الٰی ام عبیدۃ ، واقمت برواق الشیخ احمد رضی ا للہ تعالٰی عنہ ایاماًفقا ل لی الشیخ احمد یوماً اذکر لی شیئامن مناقب الشیخ عبدالقادر وصفاتہ فذکرت لہ شیئامنھا، فجاء رجل فی اثناء حدیثی فقال لی مہ لاتذکر عندنا مناقب غیر مناقب ھذا ، اواشارالی الشیخ احمد فنظرالیہ الشیخ احمد مغضبا، فرفع الرجل من بین یدیہ میتًاثم قال ومن یستطع وصف مانقب الشیخ عبدالقادر ومن یبلغ مبلغ الشیخ عبدالقادر ذٰلک رجل بحر الشرعۃ عن یمینہٗ ،وبحرالحقیقۃ عن یسارہ، من ایھما شاء اغترف الشیخ عبدالقادر لاثانی لہ فی عصرنا ھٰذا ، قال وسمعتہ یوما یوصی اولاد اختہٖ واکابر اصحابہ، وقدجاء رجل یوعدہ مسافرًا الی بغداد قال لہ اذا دخلت الی بغداد فلا تقدم علٰی زیارۃ الشیخ عبدالقادر شیئًا ان کان حیا ولا علی زیارۃ قبرہ ان کان میتا، فقد اخذلہ العھد ایما رجل من اصحاب الاحوال دخل بغداد ولم یزرہ سلب حالہ ولو قبیل الموت، ثم قال والشیخ محی الدین عبدالقادر حسرۃ علی من لم یرہ رضی اللہ عنہ۱؂۔

مصنف نے کہا(اللہ تعالٰی ہمیں اوراسے یوم محشر کو غوث اعظم کے جھنڈے کے نیچے جمع فرمائے )کہ ہم کو ابوالقاسم محمد بن عبادہ انصاری حلبی نے خبر دی کہ میں نے شیخ عارف باللہ ابواسحٰق ابراہیم بن محمود بعلبکی مقری کو فرماتے سنا ، کہا میں نے اپنے مرشد امام ابوعبداللہ بطائحی کو سنا کہ فرماتے تھے : میں حضور سرکارغوثیت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں ام عبیدہ گیا اورحضرت سید ی احمد رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خانقاہ میں چند روز مقیم رہا ایک روز حضرت رفاعی نے مجھ سے فرمایا ہمیں حضرت شیخ عبدالقادر کے کچھ مناقب واوصاف سناؤ،میں نے کچھ مناقب شریف ان کے سامنے بیان کئے میرے اثنائے بیان میں ایک شخص آیا اور اس نے مجھ سے کہا کیا ہے اورحضرت سید رفاعی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہمارے سامنے ان کے سوا کسی کے مناقب ذکر نہ کرو، یہ سنتے ہی حضرت سید رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس شخص کو ایک غضب کی نگاہ سے دیکھا کہ فورًا اس کادم نکل گیا لوگ اس کی لاش اٹھاکر لے گئے ،پھر حضرت سید رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا شیخ عبدالقادر کے مناقب کون بیان کرسکتاہے ، شیخ عبدالقادر کے مرتبہ کو کون پہنچ سکتاہے ، شریعت کا دریا ان کے دَہنےہاتھ پرہے اورحقیقت کا دریا ان کے بائیں ہاتھ پر جس میں سے چاہیں پانی پی لیں ، ہمارے اس وقت میں شیخ عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں۔ امام ابوعبداللہ فرماتے ہیں ایک دن میں نے حضرت رفاعی کو سنا کہ اپنے بھانجوں اور اکابر مریدین کو وصیت فرماتے تھے ایک شخص بغداد مقدس کے ارادے سے ان سے رخصت ہونے آیا تھا فرمایا جب بغداد پہنچو تو حضرت شیخ عبدالقادر اگر دنیا میں تشریف فرماہوں تو ان کی زیارت اورپردہ فرما جائیں تو ان کے مزار مبارک کی زیارت سے پہلے کوئی کام نہ کرنا کہ اللہ عزوجل نے ان سے عہد فرمارکھا ہے کہ جو کوئی صاحب حال بغداد آئے اوران کی زیارت کو نہ حاضر ہو اس کا حال سلب ہوجائے اگرچہ اس کے مرتے وقت پھر حضرت رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا شیخ عبدالقادر حسرت ہیں اس پر جسے انکادیدار نہ ملا۔

(۱؂بہجۃ الاسرارذکر الشیخ احمد بن الحسن الرفاعی مصطفی البابی مصرص۲۳۸)

یہ کمینہ بندہ بارگاہ عرض کرتاہے : ؔ

اے حسرت آنا نکہ ندیدندجمالت محروم مدارایں سگ خود راز نوالت

(جنہوں نے آپ کا جمال نہ دیکھا ان پر حسرت ہے ، اپنے اس کتے کو اپنی عطا سے محروم نہ رکھیں۔ت)

بحرمۃ جدک الکریم علیہ ثم علیک الصلوٰۃ والتسلیم (اپنے کریم نانا کے صدقے میں۔ ان پر پھر آپ پر درود وسلام ہو۔ت)
مسلمان ان احادیث صحیحہ جلیلہ کو دیکھے اوراس شخص کے مثل اپنا حال ہونے سے ڈرے جس کا خاتمہ حضرت غوثیت کی شان میں گستاخی اور حضرت سید رفاعی کے غضب پر ہوا، والعیاذباللہ رب العالمین۔اے شخص!ظاہرشریعت میں حضرت سرکار غوثیت کی محبت بایں معنٰی رکنِ ایمان نہیں کہ جو ان سے محبت نہ رکھے شرع اسے فی الحال کافر کہے یہ تو صرف انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء کے لئے ہے مگر واللہ کہ ان کے مخالف سے اللہ عزوجل نے لڑائی کا اعلان فرمایا ہے خصوص کا انکار نصوص کے انکار کی طرف لے جاتاہے ، عبدالقادرکا انکار قادر مطلق عزجلالہ ٗ کے انکار کی طرف کیوں نہ لے جائے گا ؂
بازاشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی دیکھ اڑجائے گا ایمان کا طوطاتیرا
شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجر اتیرا۱؂

(۱؂حدائق بخشش وصل چہارم درمنافحت اعداء واستعانت از آقارضی اللہ عنہ مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی ص۹)

والعیاذباللہ القادر رب الشیخ عبدالقادر وصلی اللہ تعالٰی وبارک وسلم علی جد الشیخ عبدالقادر ثم علی الشیخ عبدالقادر اٰمین۔

شیخ عبدالقادر کے قدرت والے معبود کی پناہ،شیخ عبدالقادر کے ناناجان پھر خود شیخ عبدالقادر پراللہ تعالٰی درود،برکت اور سلام نازل فرمائے ، آمین۔
تذئیل: اخیر میں ہم دو جلیل القدر اجلۃ المشاہیرعلماء کبارمکہ معظمہ کےکلمات ذکر کریں جن کی وفات کو تین تین سو برس سے زائد ہوئے ، اول امام اجل ابن حجر مکی شافعی رحمہ اللہ تعالٰی ، دوم علامہ علی قاری مکی حنفی صاحبِ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ وغیرہا کتب جلیلہ ۔ دوغرض سے :
ایک یہ کہ اگر دو مطرودوں ، مخذولوں ، گمناموں ، مجہولوں واسطی وقرمانی کی طرح کسی کے دل میں کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف سے آگ ہوتو ان سے لاگ کی تو کوئی وجہ نہیں یہ بالاتفاق اجلہ اکابر علماء ہیں۔
دوسرے یہ کہ دونوں صاحب اکابر مکہ معظمہ سے ہیں ، تو اس افتراء کا جواب ہوگا جو مخالف نے اہل عرب پر کیا حالانکہ غالباً تاریخ الحرمین وغیرہ میں ے ، اورحاضری حرمین طیبین سے مشرف ہونےو الا جانتاہے کہ اہل حرمین طیبین بعدحضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اٹھتے بیٹھتے حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکر کرتے ہیں اورحضور کے برابر کسی کا نام نہیں لیتے ۔ ان حضرات کی بھی گیارہ ہی عبارات نقل کریں۔:
(۱) علامہ علی قاری حنفی مکی متوفی ۱۰۱۴ھ کتاب نزہۃ الخاطر الفاتر فی ترجمۃ سیدی الشریف عبدالقادر میں فرماتے ہیں : لقد بلغنی عن بعض الاکابر ان الامام الحسن ابن سیدنا علی رضی اللہ تعال عنہمالما ترک الخلافۃ لما فیھا من الفتنۃ والآفۃ عوضہ اللہ سبحٰنہ وتعالٰی القطبیۃ الکبرٰی فیہ وفی نسلہ وکان رضی اللہ تعالٰی عنہ القطب الاکبر سیدنا السید الشیخ عبدالقادر ھو القطب الاوسط والمھدی خاتمۃ الاقطاب۱؂۔

بیشک مجھے اکابر سے پہنچا کہ سیدنا امام حسن مجتبٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب بخیال فتنہ وبلایہ خلافت ترک فرمائی اللہ عزوجل نے اس کے بدلے ان میں اورانکی اولاد امجاد میں غوثیت عظمٰی کا مرتبہ رکھا۔ پہلے قطب اکبر خود حضور سید امام حسن ہوئے اوراوسط میں صرف حضور سیدنا سید عبدالقادر اورآخر میں حضرت امام مہدی ہوں گے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

(۱؂نزہۃ الخاطر الفاترفی ترجمہ سیدی الشریف عبدالقادر (قلمی)ص۶)

(۲) اسی میں ہے :من مشائخہ حمادالدباس رضی اللہ تعالٰی عنہ روی ان یوما کان سید نا عبدالقادر عندہ فی رباطہ ولما غاب من حضرتہ قال ان ھذا الاعجمی الشریف قدماً یکون علٰی رقاب اولیاء اللہ یصیر مامورا من عند مولاہ بان یقول قدمی ھٰذا علی رقبۃ کل ولی اللہ ویتواضع لہ جمیع اولیاء اللہ فی زمانہ ویعظمونہ لظہورشانہ۱؂۔حضرت حماد دباس حضور سیدنا غوث اعظم کے مشائخ سےہیں رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ایک روز انہوں نے سرکار غوثیت کی غیبت میں فرمایا ، ان جو ان سید کا قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہو گا انہیں اللہ عزوجل حکم دے گا کہ فرمائیں میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر، اوران کے زمانےمیں جمیع اولیاء اللہ انکے لئے سرجھکائیں گے ، اور ان کے ظہور مرتبہ کے سبب ان کی تعظیم بجا لائیں گے۔

(۱؂نزہۃ الخاطر الفاترفی ترجمہ سیدی الشریف عبدالقادر (قلمی)ص۸)

مامور من اللہ ہونا ملحوظ رہے اورجمیع اولیاء زمانہ میں بے شک حضرت سیدی رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی داخل۔
(۳) اسی میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا "قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ "۲؂ فرمانا اوراولیاء حاضرین وغائبین کا گردنیں جھکانا اورقدم مبارک اپنی گردنوں پر لینا اور ایک شخص کا انکار کرنا اور اس کی ولایت سلب ہوجانا بیان کر کے فرماتے ہیں :وھذا تنبیہ بینۃ علی انہ قطب الاقطاب والغوث الاعظم۳؂۔یہ روشن دلیل قاطع ہے اس پرکہ حضور تمام قطبوں کے قطب اورغوث اعظم ہیں۔

(۲؂ و۳؂ نزہۃ الخاطر الفاترفی ترجمہ سیدی الشریف عبدالقادر (قلمی)ص۹ و۱۰)

(۴) اسی میں ہے :ومن کلامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تحدثا بنعم اللہ تعالٰی علیہ بینی وبینکم وبین الخلق کلھم بعد مابین السماء والارض فلاتقیسونی باحد ولاتقیسواعلی احدًا یعنی فلایقاس الملوک بغیر ھم وھٰذا کلہ من فتوح الغیب المبرء من کل عیب۔

حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اللہ عزوجل کی اپنے اوپرنعمتیں ظاہر فرمانے کا جو کلام ارشاد فرمائے ان میں سے یہ ہے کہ فرمایا مجھ میں اورتمام مخلوقات زمانہ میں وہ فرق ہے جو آسمان وزمین میں،مجھے کسی سے نسبت نہ دو اورمجھ پر کسی کو قیاس نہ کرو۔اس پرعلامہ علی قاری فرماتے ہیں اس لئے کہ سلاطین کا رعیت پر قیاس نہیں ہوتا اوریہ سب غیب کے فتوحات سے ہے جوہر عیب سے پاک وصاف ہے۔

(۵) اسی میں ہے :وعن عبداللہ بن علی بن عصر ون التمیمی الشافعی قال دخلت وانا شاب الٰی بغدادفی طلب العلم وکان ابن السقایومئذ رفیقی فی الاشتغال بالنظامیۃ وکنانتعبد ونزور الصالحین وکان رجل ببغدادیقال لہ الغوث، وکان یقال عنہ انہ یظھر اذا شاء وخفی اذا شاء فقصدت انا وابن السقا والشیخ عبدالقادرالجیلانی وھو شاب یومئذالٰی زیارتہ فقال ابن السقاونحن فی الطریق الیوم اسألہ عن مسئلۃ لایدری لہا جوابا، فقلت وانا اسئلہ(نزہۃ الخاطروالفاترفی ترجمۃ سید الشریف عبدالقادر(قلمی نسخہ)ص۳۰) عن مسئلۃ فانظر ماذایقول فیھا وقال سیدی الشیخ عبدالقادر قدس سرہ الباھر معاذا للہ ان اسألہ شیئا،وانا بین یہ اذًا انظر برکات رویتہ فلما دخلنا علیہ لم نرہ فی مکانہ فمکثنا ساعۃ فاذا ھوجالس فنظر الی ابن السقامغضباوقال لہ ویلک یا ابن السقا تسألنی عن مسئلۃ لم أردلہا جوابا،ھی کذا وجوابھا کذا،انی لاری نارالکفرتلھب فیک۔ثم نظرالی وقال یاعبداللہ تسألنی عن مسألۃ لتنظر مااقول فیھا ھی کذاوجوابھا کذا لتخرن علیک الدنیا الٰی شحمتی اذنیک باساء ۃ ادبک۔ ثم نظر الٰی سید عبدالقادر وادناہ منہ واکرمہ وقال لہ یا عبدالقادر لقد ارضیت اللہ ورسولہ بادبک کانّی اراک ببغدادوقد صعدت علی الکرسی متکلما علی الملا وقلت قدمی ھٰذہٖ علٰی رقبۃ کل ولی اللہ ، وکانّی اری الاولیاء فی وقتک وقد حنوا رقبھم اجلالا لک، ثم غاب عنا لوقتہ فلم نرہ بعد ذٰلک ، قال واما سیدی الشیخ عبدالقادر فانہ ظھرت امارۃ قربہٖ من اللہ عزوجل واجتمع علیہ الخاص والعام، وقال قدمی ھٰذہٖ علٰی رقبۃ کل ولی اللہ واقرت الاولیاء بفضلہ فی وقتہ واما ابن السقافرأی بنتا للملک حسینۃ ففتن بھا وسأل ان یزوجہا بہ فابٰی الاان یتنصّرفاجابہ الٰی ذٰلک ۔ والعیاذباللہ تعالٰی۔ واما انا فجئت الٰی دمشق واحضرنی السلطان نورالدین الشھید وولانی علی الاوقات فولیتھا واقبلت علی الدنیا اقبالا کثیراقدصدق کلام الغوث فینا کلنا۔

امام عبداللہ بن علی بن عصرون تمیمی شافعی سے روایت ہے میں جوانی میں طلب علم کے لئے بغداد گیا اس زمانے میں ابن السقامدرسہ نظامیہ میں میرے ساتھ پڑھا کرتاتھا، ہم عبادت اورصالحین کی زیارت کرتے تھے، بغداد میں ایک صاحب کو غوث کہتے ، اور ان کی یہ کرامت مشہور تھی کہ جب چاہیں ظاہرہوں جب چاہیں نظروں سے چھپ جائیں ، ایک دن میں اورابن السقااوراپنی نوعمری کی حالت میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ان غوث کی زیارت کوگئے ، راستے میں ابن السقا نے کہا آج ان سے وہ مسئلہ پوچھوں گاجس کا جواب انہیں نہ آئے گا۔ میں نے کہا میں بھی ایک مسئلہ پوچھوں گا دیکھوں کیا جواب دیتے ہیں ، حضرت شیخ عبدالقادر قدس سرہ الاعلی نے فرمایا معاذاللہ کہ میں ان کے سامنے ان سے کچھ پوچھوں میں تو انکے دیدار کی برکتوں کا نظارہ کروں گا۔جب ہم ان غوث کے یہاں حاضر ہوئے ان کو اپنی جگہ نہ دیکھا تھوڑی دیر میں دیکھا تشریف فرما ہیں ابن السقا کی طرف نگاہ غضب کی اورفرمایا : تیری خرابی اے ابن السقا! تو مجھ سے وہ مسئلہ پوچھے گا جس کا مجھے جواب نہ آئے تیرا مسئلہ یہ ہے اوراس کا جواب یہ ہے ، بے شک میں کفرکی آگ تجھ میں بھڑکتی دیکھ رہا ہوں۔ پھر میری طرف نظر کی اورفرمایا اے عبداللہ !تم مجھ سے مسئلہ پوچھو گے کہ میں کیا جواب دیتاہوں تمہارا مسئلہ یہ ہےاور اس کا جواب یہ ، ضرور تم پر دنیا اتنا گوبر کرے گی کہ کان کی لُو تک اس میں غرق ہوگے، بدلہ تمہاری بے ادبی کا ۔ پھرحضرت شیخ عبدالقادر کی طرف نظر کی اورحضور کو اپنے نزدیک کیا اورحضور کا اعزاز کیا اورفرمایا : اے عبدالقادر! بے شک آپ نے اپنے حسن ادب سے اللہ ورسول کو راضی کیا گویا میں اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپ مجمع بغداد میں کرسی وعظ پر تشریف لے گئے اور فرمارہے ہیں کہ میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر، اورتمام اولیائے وقت نے آپکی تعظیم کیلئے گردنیں جھکائی ہیں۔ وہ غوث یہ فرما کر ہماری نگاہوں سے غائب ہوگئے پھر ہم نے انہیں نہ دیکھا ۔ حضرت شیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تو نشان قرب ظاہر ہوئے کہ وہ اللہ عزوجل کے قرب میں ہیں خاص وعام ان پرجمع ہوئے اورانہوں نے فرمایا : میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر۔ اوراولیاء وقت نے اس کا ان کے لئے اقرار کیا ، اورابن السقا ایک نصرانی بادشاہ کی خوبصورت بیٹی پر عاشق ہوا اس سے نکا ح کی درخواست کی اس نے نہ مانا مگر یہ نصرانی ہوجائے، اس نے یہ نصرانی ہونا قبول کرلیا، والعیاذباللہ تعالٰی۔رہا میں ، میرا دمشق جاناہوا وہاں سلطان نورالدین شہید نے مجھے افسر اوقاف کیا اوردنیا بکثرت میری طرف آئی۔غوث کا ارشاد ہم سب کے بارے میں جو کچھ تھا صادق آیا۔
اولیاءِ وقت میں حضرت رفاعی بھی ہیں ۔ یہ مبارک روایت بہجۃ الاسرار شریف ۱؂میں دوسندوں سے ہے، اورایک یہی کیا ۔ علامہ علی قاری نے اس کتاب میں چالیس روایات اوربہت کلمات کہ ذکر کئے سب بہجۃ الاسرار شریف سے ماخوذ ہیں ، یونہی اکابر ہمیشہ اس کتاب مبارک کی احادیث سے استناد کرتے آئے مگر محروم محروم ۔

(۱؂بہجۃ الاسرار ذکر اخبار المشایخ منہ بذلک مصطفی البابی مصرص۶)

(۶) اسی میں ہے : قال رضی اللہ تعالٰی عنہ وعزّۃ ربّی ان السعداء والاشقیاء یعرضون علی وان بؤبؤعینی فی اللوح المحفوظ انا حجۃ اللہ علیکم جمیعکم انا نائب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ووارثہ فی الارض ویقول الانس لھم مشائخ والجن لھم مشائخ والملٰئکۃ لھم مشائخ وانا شیخ الکل، رضی اللہ تعالٰی عنہ ، ونفعنابہ۲؂۔

حضورسیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا "مجھے عزت پروردگار کی قسم!بے شک سعید وشقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں، بیشک میری آنکھ پُتلی لوح، محفوظ میں ہے ، میں تم سب پر اللہ کی حجت ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نائب اور تمام زمین میں ان کا وارث ہوں۔ اورفرمایا کرتے : آدمیوں کے پیر ہیں،قوم جن کے پیرہیں ، فرشتوں کے پیر ہیں اور میں ان سب کا پیرہوں۔"علی قاری اسے نقل کر کے عر ض کرتے ہیں : اللہ عزوجل کی رضوان حضور پر ہو اورحضور کے برکات سے ہم کو نفع دے ۔

(۲؂نزہۃ الخاطر الفاتر فی ترجمۃ سید الشریف عبدالقادر (قلمی نسخہ)ص۳۲)

(۷) اسی میں ہے :روی عن السید الکبیر القطب الشھیر سید احمد الرفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ انہ قال الشیخ عبدالقادر بحر الشریعۃ عن یمینہ وبحرالحقیقۃ عن یسارہ من ایھما شاء اغترف السید عبدالقادرلاثانی لہ فی عصرنا ھذا رضی اللہ تعالٰی عنہ۱؂۔سید کبیر قطب شہیر سید احمد الرفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : شیخ عبدالقادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دہنے ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ ،جس میں سےچاہیں پانی پی لیں ۔ اس ہمارے وقت میں سید عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

(۱؂نزہۃ الخاطر الفاتر فی ترجمۃ سید الشریف عبدالقادر (قلمی نسخہ)ص۳۴)

(۸) امام ابن حجر مکی شافعی متوفی ۹۷۴ھ اپنے فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں :انھم قد یؤمرون تعریفا لجاھل اوشکرا وتحدثا بنعمۃ اللہ تعالٰی کما وقع الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ انہ بینما ھو بمجلس وعظہ واذا ھو یقول قدمی ھٰذہٖ علٰی رقبۃ کل ولی اللہ تعالٰی فاجابہ فی تلک الساعۃ اولیاء الدنیا قال جماعۃ بل واولیاء الجن جمیعھم وطأطئوارء وسھم وخضعوالہ واعترفوابماقالہ الارجل باصبھان فابٰی فسلب حالہ۲؂۔

کبھی اولیاء کو کلمات بلند کہنے کا حکم دیاجاتاہے کہ جو ان کے مقامات عالیہ سے ناواقف ہے اسے اطلاع ہویا شکر الہٰی اوراس کی نعمت کا اظہار کرنے کے لئے جیسا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے ہوا کہ انہوں نے اپنی مجلس وعظ میں دفعۃً فرمایا کہ میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ، فورًا تمام دنیا کے اولیاء نے قبول کیا (اورایک جماعت کی روایت ہے کہ جملہ اولیاء جن نے بھی)اورسب نے اپنے سرجھکادئے اورسرکارغوثیت کے حضور جھک گئے اوران کے اس ارشاد کا اقرار کیا مگر اصفہان میں ایک شخص منکر ہوا فورًا اس کا حال سلب ہوگیا۔

(۲؂الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادرقدمی ہذہ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۴۱۴)

(۹) پھر فرمایا:وممن طأطأرأسہ ابوالنجیب(۱ )السھروردی وقال علٰی رأسی واحمد(۲ ) الرفاعی قال علی رقبتی وحمیدمنھم وسئل فقال الشیخ عبدالقادر یقول کذا وکذا،وابو مدین (۳) فی المغرب وانا منھم اللھم انی اشھدک واشھدملٰئکتک انی سمعت واطعت ، وکذا الشیخ عبدالرحیم(۴) القناوی مدّعنقہ وقال صدق الصادق المصدوق۱؂۔

حضور کے ارشاد پر جنہوں نے اپنے سرجھکائے ان میں سے (سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے پیران پیر) حضرت سید عبدالقاہر ابوالنجیب سہروردی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں انہوں نے اپنا سرمبارک جھکادیا اور کہا (گردن کیسی) میرے سر پر میرے سرپر۔اوران میں سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں انہوں نے کہا میری گردن پر، اورکہایہ چھوٹا سا احمد بھی انہیں میں ہے جن کی گردن پر حضو رکا پاؤں ہے ، اس کہنے اورگردن جھکانے کا سبب پوچھاگیا تو فرمایا کہ اس وقت حضرت شیخ عبدالقادر نے بغداد مقدس میں ارشاد فرمایا ہے کہ " میرا پاؤں ہر ولی کی گردن پر"لہذا میں نے بھی سرجھکایا اورعرض کی کہ یہ چھوٹاسا احمد بھی انہیں میں ہے ،اور انہیں میں حضرت سید ابو مدین شعیب مغربی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں انہوں نے سرمبارک جھکایا اور کہا میں بھی انہیں میں ہوں الہٰی میں تجھے اورتیرے فرشتوں کو گواہ کرتاہوں کہ میں نے قدمی کا ارشادسنا اورحکم مانا۔ اسی طرح حضرت سید ی شیخ عبدالرحیم قناوی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی گردن مبارک بچھائی اورکہا سچ فرمایا سچے مانے ہوئے سچے نے ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

(۱؂الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادرقدمی ہذاعلی رقبہ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۴۱۴)

(۱۰) پھر فرمایا :ذکر کثیرون من العارفین الذین ذکرنا ھم وغیرھم انہ لم یقل الابامراعلاما بقطبیتہ فلم یسع احدًا التخلف بل جاء باسانید متعددۃ عن کثیرین انھم اخبر واقبل مولدہ بنحو مائۃ سنۃ انہ سیولدبارض العجم مولودلہ مظھر عظیم یقول ذٰلک فتندرج الاولیاء فی وقتہ تحت قدمہ۲؂۔

اولیاء کرام کہ ہم نے ذکر کئے یعنی حضرت نجیب الدین سہروردی وحضرت سید احمد رفاعی وحضرت شعیب مغربی وحضر ت عبدالرحیم قناوی رضی اللہ تعالٰی عنہم انہوں نے اوران کے سوااور بہت عارفین کرام نے تصریح فرمائی کہ حضور سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی طرف سے ایسا نہ فرمایا بلکہ اللہ عزوجل نے ان کی قطبیت کبرٰی ظاہر فرمانے کے لئے انہیں اس فرمانے کاحکم دیا ولہذا کسی ولی کو گنجائش نہ ہوئی کہ گردن نہ بچھاتا اورقدم مبارک اپنی گردن پر نہ لیتابلکہ متعدد سندوں سے بہت اولیاء کرام متقدمین سے مروی ہوا کہ انہوں نے سرکارغوثیت کی ولادت مبارکہ سے تقریباً سوبرس پہلے خبر دی تھی کہ عنقریب عجم میں ایک صاحب عظیم مظہر والے پیداہونگے اوریہ فرمائیں گے کہ "میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر"اس فرمانے پر اس وقت کے تمام اولیاء ان کے قدم کے نیچے سررکھیں گے اوراس قدم کے سایہ میں داخل ہوں گے۔

اللھم لک الحمد صل علی محمد وابنہ وذریتہ ۔

(۲؂ الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادرقدمی ہذاعلی رقبہ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۴۱۴)

(۱۱) پھر فرمایا :وحکی امام الشافعیۃ فی زمنہ ابوسعید عبداللہ بن ابی عصرون قال دخلت بغدادفی طلب العلم فوافقت ابن السقاورافقتہ فی طلب العلم بالنظامیۃ ، وکنا نزورالصالحین وکان ببغداد رجل یقال لہ الغوث۱؂۔ (الٰی اٰخر الحدیث المذکور)

"امام ابوسعید عبداللہ بن ابی عصرون نے کہ اپنے زمانہ میں شافعیہ کے امام تھے ذکر فرمایا کہ میں بغداد مقدس میں طلب علم کے لئے گیا ابن السقااورمیں مدرسہ نظامیہ میں شریک درس تھے اوراس وقت بغداد میں ایک شخص کو غوث کہتے تھے (وہی پوری حدیث کہ نمبر ۵ میں گزری ، ان غوث کا ہمارے حضور رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بشارت دینا کہ آپ برسرمنبر مجمع میں فرمائیں گے "میرا یہ پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر"اورتمام اولیائے عصر آپ کے قدم پاک کی تعظیم کےلئے اپنی گردنیں خم کریں گے ، اورپھر ایسا ہی واقع ہونا،حضورکا یہ ارشادفرمانا اور تمام اولیائے عالم کا اقرارکرنا کہ بےشک حضور کا قدم ہم سب کی گردن پر ہے )

(۱؂الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادرقدمی ہذہ علی رقبہ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۴۱۴)

آخر میں ابن حجر نے فرمایا:وھٰذہ الحکایۃ التی کادت ان تتواتر فی المعنی لکثرۃ ناقلھاوعدالتھم۲؂۔

یعنی یہ حکایت قریب تواتر ہے کہ اس کے ناقلین بکثرت ثقہ عادل ہیں۔

(۲؂الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادرقدمی ہذہ علی رقبہ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۴۱۵)

فتاوٰی حدیثیہ نے ابن السقا کی بدانجامی میں یہ اورزائد کیا کہ جب وہ بدبخت کہ بہت بڑا عالم جیّداورعلوم شرعیہ میں اپنے اکثراہل زمانہ پرفائق اور حافظ قرآن اورعلم مناظرہ میں کمال سربرآوردہ تھاجس سے جس علم میں مناظرہ کرتا اسے بند کردیتا، ایسا شخص جب شان غوث میں گستاخی کی شامت سے معاذاللہ معاذاللہ نصرانی ہوگیا بادشاہ نصارٰی نے اسے بیٹی تو دے دی مگر جب بیمارپڑا اسے بازار میں پھنکوادیا بھیک مانگتااورکوئی نہ دیتا، ایک شخص کہ اسے پہچانتا تھا گزرا اس سے پوچھا تو توحافظ تھا اب بھی قرآن کریم میں سے کچھ یاد ہے ۔ کہا سب محو ہوگیا صرف ایک آیت یاد رہ گئی ہے ۔ربما یودالذین کفروالو کانوا مسلمین۳؂۔کتنی تمنائیں کریں گے وہ جنہوں نے کفر اختیار کیا کہ کسی طرح مسلمان ہوتے ۔

(۳؂ القرآن الکریم ۱۵/۲)

امام ابن ابی عصرون فرماتے ہیں پھر ایک دن میں اسے دیکھنے گیا اسے پایا کہ گویا اس کا سارابدن آگ سے جلاہوا ہے ، وہ نزع میں تھا،میں نے اسے قبلہ کی طرف کیا ہو وہ پُورب کو پھرگیا،میں نے پھر قبلہ کو کیا وہ پھر پھرگیا۔ اسی طرح میں جتنی بار اسے قبلہ رخ کرتاوہ پُورب کو پھر جاتایہاں تک کہ پورب ہی کی طرف منہ کئے اس کادم نکل گیا ، وہ ان غوث کا ارشاد یا دکیا کرتا اورجانتاتھا کہ اسی گستاخی نے اس بلا میں ڈالا۱؂۔ والعیاذباللہ تعالٰی انتہٰی۔"

(۱؂الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادرقدمی ہذہ علی رقبۃ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۴۱۵)

اگر کہے پھر اسلام کیوں نہیں لاتاتھا، کلمہ پڑھ لینا کیا مشکل تھا اقول اس کا جواب قرآن عظیم دے گا:

وما تشاؤن الا ان یشاء اللہ رب العٰلمین۲؂۔تم کیا چاہو جب تک اللہ نہ چاہے جو مالک سارے جہان کا ہے ۔

(۲؂القران آلکریم ۸۱/۲۹)

اورفرماتاہے :کلابل ران علی قلوبھم ماکانوایکسبون۳؂۔کوئی نہیں بلکہ ان کی بداعمالیوں نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دی ہے ۔

(۳؂القران الکریم۸۳/۱۴)

اورفرماتاہے :ذٰلک بانھم اٰمنوا ثم کفروافطبع علٰی قلوبھم فھم لایفقہون۴؂۔یہ اس لئے کہ وہ ایمان لائے پھر کفر کیا تو ان کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی کہ اب انہیں کچھ سمجھ نہ رہی والعیاذباللہ تعالٰی۔

(۴؂القرآن الکریم ۶۳/۳)

امام ابن حجر فرماتے ہیں :وفی ھذہ ابلغ زجر واکد ردع عن الانکار علی اولیاء اللہ تعالٰی خوفا من ان یقع المنکر فیماوقع فیہ ابن السقامن تلک الفتنۃ المھلکۃ الابدیۃ التی لا اقبح منہا،نعوذباللہ من ذٰلک ، ونسألہ بوجہہ الکریم وحبیبہ الرؤف الرحیم ان یؤمننا من ذٰلک ومن کل فتنۃ ومحنۃ وبمنہ وکرمہ وفیھا ایضا اتم حث علی اعتقادھم والادب معھم وحسن الظن بھم ما امکن ۱؂۔

اس واقعہ میں اولیاء کرام پر انکار سے کمال جھڑکنا اورسخت منع ہے اس خوف سے کہ منکر اس مہلک فتنے میں پڑجائے گا جو ہمیشہ ہمیشہ کا ہلاک ہے اورجس سے بدتر کوئی خباثت نہیں جس میں ابن السقاپڑگیا ، اللہ عزوجل کی پناہ ۔ ہم اللہ عزوجل سے اس کے وجہ کریم اوراس کے حبیب رؤف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وسیلے سے مانگتے ہیں کہ ہم کو اپنے احسان وکرم کے ساتھ اس سے اورہرفتنہ ومحنت سے امان بخشے ۔نیز اس واقعہ میں کمال ترغیب ہے اس کی کہ اولیاء کرام کے ساتھ عقیدت وادب رکھیں اورجہاں تک ہو ان پر نیک گمان کریں۔

(۱؂الفتاوی الحدیثیۃ مطلب فی قول الشیخ عبدالقادرقدمی ہذہ علی رقبۃ الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ص۴۱۵)

فقیر کوئے قادری امید کرتاہے کہ اتنے بیان میں اہل انصاف وسعادت کے لئے کفایت ہو۔ اللہ عزوجل مسلمان بھائیوں کو اتباع حق وادب اولیاء کی توفیق دے اورابن السقابجہنم اس شخص کے حال سے پناہ دے جس نے بزعم خود حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارگاہ میں حق نیاز مندی ادا کیا اورنتیجہ معاذاللہ وہ ہوا کہ سید کبیر کے غضب اورحضورغوثیت کی سرکار میں اساءتِ ادب پر خاتمہ ہوا، والعیاذباللہ تعالٰی۔
اے برادر! مقتضائے محبت اتباع وتصدیق ہے نہ کہ نزاع وتکذیب ۔ سچا محب حضرت احمد کبیر کے ارشادات کو بالائے سرلے گا اورجس بارگاہ ارفع کو انہوں نے سب سے ارفع بتایا اوران کا قدم اقدس اپنے سرمبارک پر لیا انہیں کوارفع واعظم مانے گا ۔ عبدالرزاق محدث شیعی تھا مگر حضرات عالیہ شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما کوحضرت امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہٗ سے افضل کہتا،اس سے پوچھا جاتاتو جواب دیتاکفٰی بی ازرا ان احب علیاثم اخالفہ ۲؂یعنی امیرالمومنین نےخود حضرات شیخین کو اپنے نفس کریم سے افضل بتایا ہے مجھے یہ گناہ بہت ہے کہ علی سے ٘محبت رکھوں پھر انکا خلاف کروں ۔ واقعی تکذیب مخالفت اگرچہ بزعم عقیدت ومحبت ہو اعلٰی درجہ کی عداوت ہے ، والعیاذباللہ تعالٰی، اللہ عزوجل اپنے محبوبوں کا حسن ادب روزی کرے اورانہیں کی محبت پر خاتمہ فرمائے اورانہیں کے گرو ہ پاک میں اٹھائے ، آمین ! آمین۔

(۲؂میزان الاعتدال ترجمہ ۵۰۴۴عبدالرازق بن ہمام دارالمعرفۃ بیروت ۲/۶۱۲)

اٰمین بجاھھم عندک یا ارحم الراحمین وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولانا واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین الی یوم الدین عددکل ذرۃ ذرۃ الف الف مرۃ فی کل اٰن وحین الٰی ابدالاٰبدین ، اٰمین ، والحمدللہ رب العالمین۔اے بہترین رحم فرمانے والے ان محبوبوں کا تیرے نزدیک جو مرتبہ ہے اس کے صدقے ہماری دعا قبول فرما۔ اللہ ہمیشہ ہمیشہ قیامت کے روز تک ہر گھڑی ہر لمحے ہمارے آقاومولٰی ، انکی آل ، صحابہ ، بیٹے اوران کے گروہ سب پرکروڑوں درود بھیجے ، آمین ۔ اورسب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو رب ہے تمام جہانوں کا۔(ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
رسالہ
طرد الافاعی عن حمی ھادٍ رفع الرفاعی
ختم ہوا۔


No comments:

Post a Comment