Saturday, January 26, 2013

تفسیر سورہ فاتحہ شریف

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ Ǻ۝ۙالرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ Ą۝ۙمٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ Ǽ۝ۭاِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ Ć۝ۭاِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ Ĉ۝ۙصِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ  Ċ۝ۧ
ترجمہ کنزالایمان
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا
سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا
بہت مہربان رحمت والا
روز جزا کا مالک،
ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں
ہم کو سیدھا راستہ چلا،
راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا
تفسیر خزائن العرفان
(ف1) ''بِسْمِ اللہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہ وَ نُصَلِیّ عَلیٰ حَبِیْبِہ الکریِم '' سورۃ فاتحہ کے اسماء ، اس سورۃ کے متعدد نام ہیں ۔ فاتحہ ، فاتحۃ الکتاب ، اُمُّ القرآن ، سورۃ الکنز ، کافیۃ ، وا فیۃ ، شافیۃ ، شفا ، سبع مثانی ، نور ، رقیۃ ، سورۃ الحمد ، سورۃ الدعا ، تعلیم المسئلہ ، سورۃ المناجاۃ ، سورۃ التفویض ، سورۃ السوال ، اُمُّ الکتاب ، فاتحۃ القرآن ، سورۃ الصلوۃ ۔ اس سورۃ میں سات آیتیں ستائیس کلمے ایک سو چالیس حرف ہیں کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں ۔
شان نزول : یہ سورۃ مکہ مکرمہ یا مدینہ منوّرہ یا دونوں میں نازل ہوئی ۔ عمرو بن شرجیل سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا میں ایک ندا سنا کرتا ہوں جس میں اِقْرَأ کہا جاتا ہے ، ورقہ بن نوفل کو خبر دی گئی عرض کیا ، جب یہ ندا آئے آپ باطمینان سنیں ، اس کے بعد حضرت جبریل نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا فرمائیے '' بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین '' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول میں یہ پہلی سورت ہے مگر دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سورۃ اِقْرَأ نازل ہوئی ۔ اس سورت میں تعلیماً بندوں کی زبان میں کلام فرمایا گیا ہے ۔
احکام ۔ مسئلہ : نماز میں اس سورت کا پڑھنا واجب ہے امام و منفرد کے لئے تو حقیقتاً اپنی زبان سے اور مقتدی کے لئے بقرأتِ حکمیہ یعنی امام کی زبان سے ۔ صحیح حدیث میں ہے '' قِرَاء ۃُ الاِمَامِ لَہ' قِرَاء ۃٌ '' امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے ۔ قرآن پاک میں مقتدی کو خاموش رہنے اور امام کی قرأت سننے کا حکم دیا ہے ۔ ( وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٢٠٤؁) 7-الاعراف:204)۔ مسلم شریف کی حدیث ہے '' اِذَاقَرَأ فَانْصِتُوْا '' جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو اور بہت احادیث میں یہی مضمون ہے ۔
مسئلہ : نماز جنازہ میں دعا یاد نہ ہو تو سورۃ فاتحہ بہ نیت دعا پڑھنا جائز ہے ، بہ نیت قرأت جائز نہیں (عالمگیری)
سورہ فاتحہ کے فضائل :
احادیث میں اس سورۃ کی بہت سے فضیلتیں وارد ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توریت و انجیل و زبور میں اس کی مثل سورت نہ نازل ہوئی ۔ (ترمذی) ایک فرشتہ نے آسمان سے نازل ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کیا اور دو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے ، ایک سورۃ فاتحہ ، دوسرے سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں ۔ (مسلم شریف) سورۃ فاتحہ ہر مرض کے لئے شفا ہے ۔ (دارمی) سورۃ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ (دارمی)
استعاذہ ۔
مسئلہ : تلاوت سے پہلے '' اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیَطَانِ الرَّجِیم '' پڑھنا سنت ہے ۔ (خازن) لیکن شاگرد استاد سے پڑھتا ہو تو اس کے لئے سنت نہیں ۔ (شامی)
مسئلہ : نماز میں امام و منفرد کے لئے سبحان سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ الخ پڑھنا سنت ہے ۔ (شامی) التسمیہ
مسئلہ :'' بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم '' قرآن پاک کی آیت ہے مگر سورۃ فاتحہ یا اور کسی سورۃ کا جزو نہیں اسی لئے نماز میں جہر کے ساتھ نہ پڑھی جائے ۔ بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما نماز '' الْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ '' سے شروع فرماتے تھے ۔
مسئلہ : تراویح میں جو ختم کیا جاتا ہے اس میں کہیں ایک مرتبہ بسم اللہ جہر کے ساتھ ضرور پڑھی جائے تاکہ ایک آیت باقی نہ رہ جائے ۔
مسئلہ : قرآن پاک کی ہر سورت بسم اللہ سے شروع کی جائے سوائے سورۃ برأت کے ۔
مسئلہ : سورۃ نمل میں آیت سجدہ کے بعد جو بسم اللہ آئی ہے وہ مستقل آیت نہیں بلکہ جزو آیت ہے بلا خلاف اس آیت کے ساتھ ضرور پڑھی جائے گی ، نماز جہری میں جبراً سری میں سراً ۔
مسئلہ : ہر مباح کام بسم اللہ سے شروع کرنا مستحب ہے ناجائز کام پر بسم اللہ پڑھنا ممنوع ہے ۔
سورہ فاتحہ کے مضامین :
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ، ربوبیت ، رحمت ، مالکیت ، استحقاق عبادت ، توفیق خیر ، بندوں کی ہدایت ، توجہ الٰی اللہ ، اختصاص عبادت ، استعانت ، طلب رشد ، آداب دعا ، صالحین کے حال سے موافقت ، گمراہوں سے اجتناب و نفرت ، دنیا کی زندگانی کا خاتمہ ، جزا اور روز جزا کا مصرح و مفصل بیان ہے اور جملہ مسائل کا اجمالاً ۔
حمد ۔
مسئلہ : ہر کام کی ابتدا میں تسمیہ کی طرح حمد الٰہی بجا لانا چاہئے ۔
مسئلہ : کبھی حمد واجب ہوتی ہے جیسے خطبہ جمعہ میں ، کبھی مستحب جیسے خطبہ نکاح و دعا و ہر امر ذیشان میں اور ہر کھانے پینے کے بعد ، کبھی سنت مؤکّدہ جیسے چھینک آنے کے بعد ۔ (طحطاوی)
'' رَبُّ الْعَالَمِیْنَ '' میں تمام کائنات کے حادث ، ممکن ، محتاج ہونے اور اللہ تعالیٰ کے واجب ، قدیم ، ازلی ، ابدی ، حی ، قیوم ، قادر ، علیم ہونے کی طرف اشارہ ہے جن کو رَبُّ العالمین مستلزم ہے ۔ دو لفظوں میں علم الہیات کے اہم مباحث طے ہو گئے ۔
'' مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ '' ملک کے ظہور تام کا بیان اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک مستحق عبادت نہیں ہو سکتا ۔ اسی سے معلوم ہوا کہ دنیا دار العمل ہے اور اس کے لئے ایک آخر ہے ۔ جہان کے سلسلہ کو ازلی و قدیم کہنا باطل ہے ۔ اختتام دنیا کے بعد ایک جزا کا دن ہے اس سے تناسخ باطل ہو گیا ۔
'' اِیَّاکَ نَعْبُدُ '' ذکر ذات و صفات کے بعد یہ فرمانا اشارہ کرتا ہے کہ اعتقاد عمل پر مقدم ہے اور عبادت کی مقبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے ۔
مسئلہ : '' نَعْبُدُ '' کے صیغہ جمع سے ادا بجماعت بھی مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عوام کی عبادتیں محبوبوں اور مقبولوں کی عبادتوں کے ساتھ درجہ قبول پاتی ہیں ۔
مسئلہ : اس میں رد شرک بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لئے نہیں ہو سکتی ۔
'' وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ '' میں یہ تعلیم فرمائی کہ استعانت خواہ بواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ، حقیقی مستعان وہی ہے باقی آلات و خدام و احباب وغیرہ سب عونِ الٰہی کے مظہر ہیں ، بندے کو چاہئے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست قدرت کو کارکن دیکھے ۔ اس سے یہ سمجھنا کہ اولیاء و انبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے عقیدہ باطلہ ہے کیونکہ مقربان حق کی امداد امدادِ الٰہی ہے استعانت بالغیر نہیں ، اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں (فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ ) 18-الكهف:95) اور ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٥٣؁) 2-البقرة:153) کیوں وارد ہوتا اور احادیث میں اہلُ اللہ سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی ۔
'' اِھْدِنَا الصِّراط الَمُستَقِیْمَ'' معرفت ذات و صفات کے بعد عبادت ، اس کے بعد دعا تعلیم فرمائی اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ بندے کو عبادت کے بعد مشغول دعا ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں بھی نماز کے بعد دعا کی تعلیم فرمائی گئی ہے ۔ (الطبرانی فی الکبیر و البیہقی فی السنن) ۔
صراط مستقیم سے مراد اسلام یا قرآن یا خُلقِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضور کے آل و اصحاب ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صراط مستقیم طریق اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سواد اعظم سب کو مانتے ہیں ۔
''صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ '' جملہ اُولٰی کی تفسیر ہے کہ صراط مستقیم سے طریق مسلمین مراد ہے ، اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں کہ جن امور پر بزرگان دین کا عمل رہا ہو وہ صراط مستقیم میں داخل ہے ۔
'' غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ '' اس میں ہدایت ہے کہ مسئلہ طالب حق کو دشمنان خدا سے اجتناب اور ان کے راہ و رسم ، وضع و اطوار سے پرہیز لازم ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ '' مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ '' سے یہود اور '' ضَآلِّیْنَ '' سے نصاریٰ مراد ہیں ۔
مسئلہ : ضاد اور ظاء میں مبائنت ذاتی ہے ، بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کر سکتا لہذا غیر المغظوب بظاء پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریف قرآن و کفر ہے ورنہ ناجائز ۔
مسئلہ : جو شخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں ۔ (محیط برہانی)
'' آمین'' اس کے معنی ہیں ایسا ہی کریا قبول فرما ۔
مسئلہ : یہ کلمہ قرآن نہیں ۔
مسئلہ : سورۃ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا سنت ہے ، نماز کے اندر بھی اور نماز کے باہر بھی ۔
مسئلہ : حضرت امام اعظم کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں آمین اخفاء کے ساتھ یعنی آہستہ کہی جائے ، تمام احادیث پر نظر اور تنقید سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہر کی روایتوں میں صرف وائل کی روایت صحیح ہے اس میں '' مَدَّ بِھَا '' کا لفظ ہے جس کی دلالت جہر پر قطعی نہیں جیسا جہر کا احتمال ہے ویسا ہی بلکہ اس سے قوی مد ہمزہ کا احتمال ہے اس لئے یہ روایت جہر کے لئے حجت نہیں ہو سکتی ، دوسری روایتیں جن میں جہر و رفع کے الفاظ ہیں ان کی اسناد میں کلام ہے علاوہ بریں وہ روایت بالمعنی ہیں اور فہم راوی حدیث نہیں لہذا آمین کا آہستہ ہی پڑھنا صحیح تر ہے ۔

2 comments:

  1. What to do in a casino and how to choose the best slots
    If you're looking for the best slot machine games online, you've 승인 전화 없는 토토 사이트 come to the 승인전화없는꽁머니사이트 right place. 하하 포커 Learn to find the 해외 안전 놀이터 best slot machine games for 1 1 토토 your

    ReplyDelete
  2. How To Bet On Horse Racing - Mapyro
    In 김포 출장마사지 horse racing, each team has a payout percentage of 서울특별 출장샵 their wagers. For example, for a $200 bet you win 청주 출장마사지 $200 and 시흥 출장마사지 you 속초 출장마사지 win $500. In this example, the team

    ReplyDelete