مسئلہ
۱۱:کیا
فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ
اگر کوئی عالم وفقیہ کو گالی دے یا حقارت
کرے تو اس کے اوپر حکم کفرجاری ہوگا یانہیں؟
اور اکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں
کو گالی دیتے اور حقارت اور غیبت کرتے
ہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
: غیبت
تو جاہل کی بھی سوا صور مخصوصہ کے حرم قطعی
وگناہ کبیرہ ہے۔ قرآن عظیم میں اسے مرے
ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا۔
اور
حدیث میں آیا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم فرماتے ہیں :ایاکم
والغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا ان الرجل
قد یزنی ویتوب اﷲ علیہ وان صاحب الغیبۃ
لایغفر لہ حتی یغفرلہ صاحبہ، رواہ ابن
ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ ۱؎ وابو الشیخ
فی التوبیخ عن جابر بن عبداﷲ وابی یوسف
الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
غیبت
سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زانی توبہ کرے تو
اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے
اور غیبت کرنے والے کی بخشش ہی نہ ہوگی جب
تےک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی (اس
کو ابن ابی الدنیا نے ذم الغیبۃ میں اور
ابو الشیخ نے توبیخ میں جابر بن عبداللہ
اور ابوسعید خدری سے روایت کیا اللہ تعالٰی
ان سے راضی ہو۔ (ت)
(۱؎
الغیبۃ والنمیمۃ رسالہ عن رسائل ابن ابی
الدنیا باب الغیبۃ وذمہا حدیث ۲۵ موسسۃ
الکتب الثقافیۃ ۲ /۴۶)
یوہیں
بلا وجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر
حرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم فرماتے ہیں:یحسب
امری من الشران یحقرا خاہ المسلم کل المسلم
علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ، رواہ
مسلم ۲؎ عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
آدمی
کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی
مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز
مسلمان پر حرام ہے خون آبرو مال(اسے
مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
روایت کیا۔ ت)
(۲؎
صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم
خلم المسلم وخذلہ الخ قدیمی کتب خانہ
کراچی ۲ /۳۱۷)
اسی
طرح کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی
گالی دیناحرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
سباب
المسلم فسوق رواہ البخاری ومسلم ۱؎
والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والحاکم عن
ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
مسلمان
کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے (اسے
امام بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی، ابن
ماجہ اور حاکم نے ابن مسعود رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)
(۱؎
صحیح مسلم کتاب الایمان باب سباب المسلم
فسوق قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۸)
(جامع
الترمذی ابوا ب البر و الصلۃ ماجاء فی
الشتم امین کمپنی دہلی ۲ /۱۹)
(سنن
ابن ماجہ ابواب الفتن ایچ ایم سعید
کمپنی کراچی ص ۲۹۱)
اور
فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
:سباب
المسلم کالمشرف علی الہلکۃ، رواہ الامام
احمد ۲؎ والبزار عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ
تعالٰی عنہما بسند جید۔
مسلمان
کو گالی دینے والا اس شخص کی مانند ہے جو
عنقریب ہلاکت میں پڑ اچاہتاہے۔ (اسے
امام احمد اور بزار نے عبداللہ بن عمرو
رضی اللہ تعالٰی عنہما سے جید سند کے ساتھ
روایت کیا ہے۔ ت)
(۲الترغیب
والترہیب بحوالہ البزار الترھیب من
السباب واللعن مصطفی البابی مصر ۳
/۴۶۷)
اور
فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
:من
اٰذی مسلما فقد اذانی ومن اٰذانی فقد اذی
اﷲ۔ رواہ الطبرانی۳؎ فی الاوسط عن انس
رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
جس
نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا
دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ
تعالٰی کو ایذا دی (اسے
امام طبرانی نے الاوسط میں سند حسن کے
ساتھ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
روایت کیا ہے۔ ت)
(۳؎
المعجم الاوسط حدیث ۳۶۳۳ مکتبۃ
المعارف ریاض ۴ /۳۷۳)
جب
عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیں تو
علماء کرام کی شان تو ارفع واعلٰی ہے۔
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم فرماتے ہیں :لایستخف
بحقہم الامنافق۔ رواہ الطبرانی ۴؎ فی
الکبیر عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی
عنہ۔علماء
کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق (طبرانی
نے کبیر میں ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی
عنہ سے اسے روایت کیا۔ ت)
(۴؎
المعجم الکبیر حدیث ۷۸۱۹ المکتبۃ
الفیصلیۃ بیروت ۸ /۲۳۸)
دوسری
حدیث میں ہے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم:لایستخف
بحقہم الامنافق بین النفاق رواہ ابوالشیخ
فی التوبیخ ۱؎ عن جابر بن عبداﷲ الانصاری
رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
ان
کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق
(اسے
ابوالشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن
عبداللہ انصارٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما
سے روایت کیا۔ ت)
(۱؎
کنز العمال بحوالہ ابی الشیخ حدیث
۴۳۸۱۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۶ /۳۲)
اور
فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
:لیس
من امتی من لم یعرف لعالمناحقہ۔ رواہ احمد
۲؎ والحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ
بن الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو
ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت
سے نہیں۔ (اسے
احمد، حاکم اور طبرانی نے کبیر میں عبادہ
بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت
کیا۔ ت)
(۲؎
مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبادہ
ابن صامت دارالفکر بیروت ۵ /۳۲۳)
پھر
اگر عالم کو اس لئے برا کہتاہے کہ وہ عالم
ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم
اس کی تعظیم فرض جانتاہے مگر اپنی کسی
دنیوی خصومت کے باعث برا کہتاہے گالی
دیتاتحقیر کرتاہے تو سخت فاسق فاجر ہے
اگر بے سبب رنج رکھتاہے تو مریض القلب
خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ
ہے۔
خلاصہ
میں ہے :من
ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر
۳؎۔جو
کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت
رکھتاہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ (ت)
(۳؎
خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفر الفصل
الثانی الجنس الثامن مکتبہ حبیبیہ
کوئٹہ ۴ /۳۸۸)
منح
الروض الازہر میں ہے۔الظاھر
انہ یکفر ۴؎
(ظاہر
یہ ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا۔ ت)واﷲ
تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔اور
اللہ تعالٰی سب سے بڑا علام ہے اور اس عزت
ووقیر والے کا علم بڑا کامل اور بہت
پختہ(محکم)
ہے۔
(ت)
(۴؎
منح الروض الازھر شرح الفقۃ الاکبر فصل
فی العلم والعلماء مصطفی البابی مصر
ص۱۷۳)
No comments:
Post a Comment